بھارت میں اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف مہم کیوں چل رہی ہے؟

بھارتی مسلمان خاصے عرصے سے مختلف مشکلات کا شکار چلے آ رہے ہیں، خاص کر جب سے بی جی پی اقتدار میں آئی اور نریندرمودی وزیراعظم بنے، تب سے سیاسی طور پر مسلم ووٹ بینک کا جو بھرم اور حیثیت تھی، وہ بھی بالکل ختم ہوگئی۔ مختلف عالمی میڈیا اداروں کی رپورٹس بتاتی ہے کہ امریکا اور یورپ میں اسلامو فوبیا کے تحت اتنا پروپیگنڈہ نہیں جتنا کہ بھارت میں بی جے پی، وشوا ہند پریشد اور دیگر شدت پسند ہندو گروہوں کے تحت مسلمانوں کے خلاف ہو رہا ہے۔

اس کی حالیہ مثال مشہور مغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر کے خلاف مہاراشٹر، یوپی اور دیگر صوبوں میں چلائی جانے والی نہایت زیرہلی مہم ہے جس میں مغل بادشاہ کی قبر کی مسماری کا پرزور مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ مہم بالی وڈ فلم چھاوا کی ریلیز کے بعد شروع ہوئی ہے۔ اس فلم میں شیواجی مہاراج کے بیٹے چھترپتی سنبھاجی مہاراج کی زندگی اور مغل بادشاہ اورنگزیب کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں اورنگزیب کا کردار ایک ظالم ولن کے طور پر پیش کیا گیا۔

یاد رہے کہ مہاراشٹر میں شیوا جی کا کردار تاریخی اعتبار سے ایک بہت مقبول مراٹھی ہیرو کا رہا ہے، فلم میں ان کے بیٹے کو وحشیانہ طور پر قتل ہوتے دکھایا گیا۔ اس قسم کی متنازع فلم کی نمائش پر کوئی پابندی ہونی چاہیے تھی یا اس کی نمائش محدود ہوتی تاکہ فلم دیکھنے والوں میں عوامی اشتعال پیدا نہ ہو۔ تاہم انڈین ویب سائٹ وائر کے مطابق 14 فروری 2025 ء کو ریلیز ہونے والی اس فلم کوسی بی ایف سی نے یو/ اے 16+ سرٹیفیکیشن دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عوامی نمائش کے لیے اس پر پابندی نہیں ہے، لیکن 16 سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے والدین کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق فلم دیکھ کر نکلنے والے لوگ مشتعل ہو کر نکلتے رہے، ایسی کئی ویڈیوز سامنے آئیں جس میں لوگوں نے سینما ہال کے باہر ہی اورنگزیب کے خلاف نعرے بازی کی اور قبر کی مسماری کے مطالبے کئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ افسوسناک یہ رہا کہ اس فلم کو بی جے پی لیڈروں نے بھرپور انداز میں پروموٹ کیا، کئی تنظیموں نے سپانسر کر کے مختلف ہال میں اسے فری دکھایا۔ خود وزیراعظم نریندر مودی نے بھی اس فلم کی اعلانیہ تعریف کی اور فلم انڈسٹری کے لوگوں کو ایسی فلمیں بنانے کی ترغیب دی۔

بھارتی میڈیا میں تو اس تنازع کو فلم چھاوا کے ساتھ ہی جوڑا جا رہا ہے، تاہم آلٹ نیوز جو انویسٹی گیشن کر کے فیک خبروں کو الگ اور حقیقی خبروں کو سامنے لانے والا ایک معروف بھارتی پلیٹ فارم ہے، اس کی رپورٹ کے مطابق اورنگزیب کے خلاف پچھلے کئی برسوں سے منفی اور زہریلا پروپیگنڈاجاری تھا اور جو آتش فشاں مارچ میں پھوٹا ہے، اس کی بنیاد پہلے سے رکھی جا چکی تھی۔ آلٹ نیوز کے مطابق: شروعات نومبر 2024 ء میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کی تھی، جب انہوں نے مہاراشٹر کے چھترپتی سنبھاجی نگر میں تقریر کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کو نشانہ بنایا اور کہا تھا کہ انہیں سنبھاجی مہاراج کے نام پر اعتراض ہے اور یہ ان کے قاتل اورنگزیب میں اپنا مسیحا دیکھتے ہیں، یہ لوگ مہاراشٹر اور مراٹھیوں کے وقار، عزت نفس اور شناخت کے خلاف کھڑے ہیں۔’

یہاں مختصر الفاظ میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ اورنگزیب عالم گیر کی تدفین دیگر مغل بادشاہ کے برعکس ایک دور افتادہ جگہ پر کیوں ہوئی؟ مؤرخ یہ بتاتے ہیں کہ اورنگزیب کی زندگی کا آخری حصہ مہاراشٹر میں فتوحات کے دوران گزرا اور 3مارچ 1707ء میں احمدنگر میں ان کی موت ہوئی۔ اپنی موت سے قبل انھوں نے اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ انھیں آٹھویں صدی کے صوفی بزرگ زین الدین شیرازی کے پہلو میں دفن کیا جائے جن کا مزار اورنگ آباد سے تیس کلو میٹر دور خلد آباد میں واقع ہے۔ اورنگزیب اپنی زندگی میں صوفی بزرگ زین الدین شیرازی سے روحانی تعلق رکھتے تھے اور اکثر ان کے مزار پر حاضری دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو صوفی زین الدین کی پائینتی میں دفن ہونے کی وصیت کی اور یہ بھی کہا تھا کہ ان کی قبر کچی رکھی جائے اور اس پر کوئی مزار یا مقبرہ تعمیر نہ کیا جائے۔ روایت ہے کہ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین پر چودہ روپے بارہ آنے کی وہ رقم خرچ کی گئی جو انھوں نے ٹوپیاں سی کر جمع کی تھی۔ دوسوسال تک یہ قبر کچی ہی رہی، لیکن 1921ء میں لارڈ کرزن کی خواہش پر نظام حیدرآباد نے اس قبر کے گرد سنگ مرمر کا احاطہ بنوایا، لیکن قبر کا حصہ پھر بھی کچا ہی چھوڑ دیا گیا۔’ واضح رہے کہ اورنگ آباد شہر کا نام بھی بی جے پی کی مہاراشٹر حکومت نے تبدیل کرکے چھترپتی سنبھاجی مہاراج کے نام پر رکھ دیا ہے۔

فلم چھاوا سے جو شور مچا، اس پر سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے ابو اعظمی نے 3 مارچ کو مہاراشٹر اسمبلی میں کہا کہ اورنگزیب کو ایک ظالم حکمراں کے طور پر نہیں بلکہ ایک منتظم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ شیواجی اور اورنگزیب کی لڑائی فرقہ وارانہ دشمنی سے زیادہ اقتدار کی لڑائی تھی اور ان کے دور حکومت میں ہندوستان نے خوب ترقی کی۔ ابو اعظمی کے بیان کے بعد گویا طوفان آگیا۔ دونوں ایوانوں میں دو دن تک احتجاجی مظاہرہ ہوا، اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے بعد ا عظمی کو بجٹ اجلاس کے بقیہ وقت کے لیے معطل کر دیا گیا۔ ان پر اتنا دبائو ڈالا گیا کہ وہ معافی مانگنے پر مجبور ہوگئے، تاہم وہ ابھی تک معتوب ہی ہیں۔ ہندوتوا تنظیمیں پورے مہاراشٹر میں احتجاجی مظاہرے کر کے اورنگزیب عالمگیر کی قبر کی مسماری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پونے میں ایک پریس کانفرنس میں وشو ہندو پریشد کے کشور چوہان نے اورنگزیب کے مقبرے کو ہندوں کے ساتھ غداری، نفرت اور ظلم و جبر کی علامت قرار دیا۔ بھارتی صوبے یوپی کے انتہا پسند وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سماج وادی پارٹی کے خلاف تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ابواعظمی کو پارٹی سے نکال کر اترپردیش بھیج دو، ہم ان کا علاج کردیں گے۔ مہاراشٹر حکومت کے وزیر نتیش رانے نے بابری انہدام کا حوالہ دیتے ہوئے اورنگزیب کے مقبرے کو گرانے کے مطالبے کی حمایت کی اور کہا کہ حکومت اپنا کام کرنا چاہیے، جبکہ ہندوتوا تنظیموں کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ جب بابری مسجد گرائی جا رہی تھی تو ہم ایک دوسرے سے بیٹھ کر بات نہیں کر رہے تھے۔ ہمارے کار سیوکوں نے وہی کیا جو صحیح تھا۔

دوسری طرف ناگ پور شہر میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایک معروف بھارتی اُردو اخبار کی رپورٹ کے مطابق:’ ناگپور کو آگ لگانے کا کام وشو ہندوپریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں نے کیا تھا ،جو مغل شہنشاہ اورنگزیب کی قبر کو مسمار کرنے کے مطالبات میں وہاں احتجاج کررہے تھے۔ انھوں نے پہلے اورنگزیب کی ایک علامتی قبر بنائی اور پھر اس پردرگاہوں پر چڑھائی جانے والی ایک چادر چڑھائی جس پرکلمہ طیبہ درج تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس چادر کو پہلے روندا گیا اور پھر اسے علامتی قبر کے ساتھ نذرآتش کردیا گیا۔ مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی کہ قرآن سوزی کی کریہہ حرکت انجام دی گئی ہے۔ یہیں سے حالات بے قابو ہوئے اور بڑے پیمانے پر آگ زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔ حکومت نے اسے منصوبہ بند ساز ش قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف جارحانہ کارروائی شروع کردی۔’ پولیس نے بارہ سو لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے ہیں اور جن چھ مسلم نوجوانوں پر غداری کا مقدمہ قائم کرکے جیل بھیج دیا ہے، ان میں ایک مقامی سماجی کارکن فہیم خان بھی ہیں جنھوں نے سب سے پہلے پولیس اسٹیشن جاکر یہ مطالبہ کیا تھا کہ وشوہندپریشد اور بجرنگ دل کے کارکنوں کی انتہائی اشتعال انگیز حرکت پر قانونی کارروائی کی جائے۔ واضح رہے کہ اب اسی فہیم خان کے گھر کو بھی بلدیہ نے ایک کمزور سے جواز کا سہارا لے کر بلڈوز کر دیا ہے جس پر ہائی کورٹ نے شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے مزید مسماری روک دی ہے۔ ناگپور شہر کی تین سو سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہاں کرفیو نافذ کیا گیا۔

معروف بھارتی اُردو صحافی اور ایڈیٹر معصوم مراد آبادی کے مطابق: ‘یہ وہی ناگپور ہے جہاں آرایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے اور جو صوبائی وزیراعلیٰ دیوندر فڑنویس کا اسمبلی حلقہ انتخاب ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ بی جے پی کے سیکولر فیس نتن گڈکری کا پارلیمانی حلقہ بھی ہے۔ ناگپور اپنے سنتروں کے لیے مشہور ہے اور ان سنتروں کی سب سے بڑی شناخت ان کا زعفرانی رنگ ہے۔ اسی زعفرانی رنگ میں ملبوس بہادروں کی ایک فوج آج کل پورے ملک میں ایک قبر سے لڑرہی ہے۔ ظاہر ہے جو لوگ زندہ لوگوں سے لڑنے کی ہمت نہیں رکھتے وہ قبروں سے لڑتے ہیں اور اسی کو اپنی بہادری بھی سمجھتے ہیں۔ دراصل اورنگزیب کو سب سے بڑا موضوع بنانے کے پیچھے مہاراشٹر سرکار کا منشا یہ ہے کہ کسی طرح ان ناکامیوں کی پردہ پوشی کی جائے جو ریاستی حکومت کو درپیش ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ کسانوں کی خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ہے۔ بلدیاتی انتخابات بھی سرپر ہیں۔ ایسے میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے فڑنویس سرکار نے اورنگزیب کی تین سوسال سے زیادہ پرانی قبر میں منہ چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے۔’