شب ِقدر کے لیے رمضان بھر جستجو کی جائے!

(از فضائلِ رمضان)
ایک قول امام ابو حنیفہ ؒ  کا یہ ہے کہ شب قدر تمام رمضان میں دائر رہتی ہے۔ صاحبین کا قول ہے کہ تمام رمضان کی کسی ایک رات میں ہے جو متعین ہے مگر معلوم نہیں۔ شافعیہ کا راجح قول یہ ہے کہ 21 کی شب میں ہونا اقرب ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کا قول یہ ہے کہ رمضان کے آخر عشرہ کی طاق راتوں میں دائر رہتی ہے۔ کسی سال کسی رات میں اور کسی سال کسی دوسری رات میں۔
جمہور علماءکی رائے یہ ہے کہ ستائیسویں رات میں زیادہ اُمید ہے۔ شیخ العافین محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ان لوگوں کا قول زیادہ صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ تمام سال میں دائر رہتی ہے اس لیے کہ میں نے دو مرتبہ اس کو شعبان میں دیکھا ہے، اس لیے مجھے اس کا یقین ہے کہ وہ سال کی راتوں میں پھرتی رہتی ہے، لیکن رمضان المبارک میں بہ کثرت پائی جاتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ شب قدر سال میں دو مرتبہ ہوتی ہے؛ ایک وہ رات ہے جس میں احکام خداوندی نازل ہوتے ہیں اور اسی رات میں قرآن شریف لوح محفوظ سے اُترا ہے، یہ رات رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں، تمام سال میں دائر رہتی ہے، لیکن جس سال قرآن پاک نازل ہوا اُس سال رمضان المبارک میں تھی اور اکثر رمضان المبارک ہی میں ہوتی ہے اور دوسری شب قدر وہ ہے جس میں روحانیت کا ایک خاص انتشار ہوتا ہے اور ملائکہ بہ کثرت زمین پر اُترتے ہیں اور شیاطین دُور رہتے ہیں۔ دعائیں اور عبادتیں قبول ہوتی ہیں۔ یہ ہر رمضان میں ہوتی ہے اور اخیر عشرہ کی وتر راتوں میں ہوتی ہے اور بدلتی رہتی ہے۔ میرے والد صاحب نور اللہ مرقدہ اس قول کو راجح فرماتے تھے۔
بہر حال شب قدر ایک ہو یا دو، ہر شخص کو اپنی ہمت و وسعت کے موافق تمام سال اس کی تلاش میں سعی کرنی چاہیے۔ نہ ہوسکے تو رمضا ن بھر جستجو کرنی چاہیے۔ اگر یہ بھی مشکل ہو تو عشرہ اخیرہ کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ اتنا بھی نہ ہو سکے تو عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے اور اگر خدانخواستہ یہ بھی نہ ہو سکے تو ستائیسویں شب کو تو بہر حال غنیمت باردہ سمجھنا ہی چاہیے کہ اگر تائید ایزدی شامل حال ہے اور کسی خوش نصیب کو میسر ہوجائے تو پھر تمام دنیا کی نعمتیں اور راحتیں اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔ لیکن اگر میسر نہ بھی ہو تب بھی اجر سے خالی نہیں، بالخصوص مغرب عشاءکی نماز جماعت سے مسجد میں ادا کرنے کا اہتمام تو ہر شخص کو تمام سال بہت ہی ضرور کرنا چاہیے کہ اگر خوش قسمتی سے شب قدر کی رات میں یہ دو نمازیں جماعت سے میسر ہو جائیں تو کس قدر باجماعت نمازوں کا ثواب ملے۔ اللہ کا کس قدر بڑا انعام ہے کہ کسی دینی کام میں کوشش کی جائے تو کامیابی نہ ہونے کی صورت میں بھی اس کوشش کا اجر ضرور ملتا ہے، لیکن اس کے باوجود کتنے ہمت والے ہیں جو دین کے درپے ہیں، دین کے لیے مرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں اور اس کے بالمقابل اغراض دنیویہ میں کوشش کے بعد اگر نتیجہ مرتب نہ ہو تو وہ کوشش بے کار اور ضائع۔ لیکن اس پر بھی کتنے لوگ ہیں کہ دنیوی اغراض اور بے کار و لغو اُمور کے حاصل کرنے کے لیے جان و مال دونوں کو برباد کرتے ہیں۔
صاحب مراقی الفلاح کہتے ہیں کہ اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ اس کی خصوصیتیں حد احصاءسے خارج ہیں کہ اس میں قلب کو دنیا و مافیہا سے یکسو کرلینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کردینا اور آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے۔ نیز اس میں ہر وقت عبادت میں مشغول ہے کہ آدمی سوتے جاگتے ہر وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اللہ کے ساتھ تقرب ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف (آہستہ بھی) چلتا ہے، میں اس کی طرف دوڑ کے آتا ہوں۔ نیز اس میں اللہ کے گھر پڑ جانا ہے اور کریم میزبان ہمیشہ گھر آنے والے کا اکرام کرتا ہے۔ نیز اللہ کے قلعے میں محفوظ ہوتا ہے کہ دشمن کی رسائی وہاں تک نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بہت سے فضائل اور خواص اس اہم عبادت کے ہیں۔
مسئلہ: مرد کے لیے سب سے افضل جگہ مسجد مکہ ہے، پھر مسجد مدینہ منورہ، پھر مسجد بیت المقدس۔ ان کے بعد مسجد جامع، پھر اپنی مسجد۔ امام صاحب کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ جس مسجد میں اعتکاف کرے اس میں پانچوں وقت کی جماعت ہوتی ہو، صاحبین کے نزدیک شرعی مسجد ہونا کافی ہے، اگر چہ جماعت نہ ہوتی ہو۔ عورت کے لیے اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہیے۔ اگر گھر میں کوئی جگہ مسجد کے نام سے متعین نہ ہو تو کسی کونے کو اس کے لیے مخصوص کر لے۔عورتوں کے لیے اعتکاف بہ نسبت مردوں کے زیادہ سہل ہے کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے کا م بھی گھر کی لڑکیوں وغیرہ سے لیتی رہیں اور مفت کا ثواب بھی حاصل کرتی رہیں۔ مگر اس کے باوجود عورتیں اس سنت سے گویا بالکل ہی محروم رہتی ہیں۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی ترکی خیمہ سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا، پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی بتلانے والے (یعنی فرشتہ) نے بتلایاکہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر عشرہ کابھی اعتکاف کریں۔ مجھے یہ رات دکھلا دی گئی تھی، پھر بھلا دی گئی (اس کی علامت یہ ہے) کہ میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح میں کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا، لہٰذا اب اس کو اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اُس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی، وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر اکیس کی صبح کو دیکھا۔