قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردوں اور خوارج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔اجلاس کے بعد جاری اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے قومی سلامتی کی موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کی حالیہ لہر پر تفصیلی غور کیا۔ افغانستان میں شدت پسند دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہر قسم کی ہمدردی کے اظہار کی مذمت کی گئی۔ دہشت گردی کے چیلنجزپرقابو پانے کیلئے قومی وضروری قوانین نافذ کرنے اور اداروں کی بھرپورحمایت پر زور دیا گیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنانے کیلئے مربوط اور منظم حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ کمیٹی نے سوشل میڈیا پردہشت گردی کے بیانیے کو فروغ دینے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی سفارش کی۔کمیٹی نے کہا کہ اداروں کو قانون نافذ کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی عدم شرکت پر افسوس کااظہار کیا اور کہا کہ مشاورت کا عمل جاری رہے گا۔
ملک میں حالیہ دنوں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے قومی سلامتی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ملک بھر بطور خاص خیبر پختونخوا کے جنوبی و قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے۔ صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ گزشتہ ہفتے صرف ایک ہی دن میں ملک کے طول و عرض میں 25 سے زائد ہلاکت خیز حملے کیے گئے۔ ان حملوں کا ہدف خاص طور پر سیکورٹی ادارے، آرمڈ فورسز، نیم فوجی ادارے اور پولیس تھانے بنے۔ دینی اسکالرز پر خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا مہیب سلسلہ بھی جاری ہے،جس نے پوری قوم میں خوف و ہراس کی لہر دوڑا دی ہے۔ ہر شہری کی آنکھوں میں خوف کے سائے ہیں اور بے یقینی کی فضا ہے کہ ہر گزرتے لمحے مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا یہ اجلاس بلاشبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، جس میں سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا اور مجموعی طور پر اس امر پر اتفاق ہوا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور دہشت گردی میں کسی بھی طرح ملوث کسی بھی گروہ کو معافی نہیں دی جانی چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ معاشی استحکام کے بغیر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور معاشی استحکام کیلئے پر امن ماحول ناگزیر ہے، گویا معاشی استحکام اور امن و سلامتی لازم و ملزم ہیں۔ اس وقت پاکستان بدترین سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے، جس کے باعث ملک میں افراتفری اور بے یقینی مزید بڑھ رہی ہے اور یہی فضا بے امنی، تخریب، فساد اور امن دشمنوں کو تقویت فراہم کرتی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی اور امن و امان کے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔ جب ملک کی معیشت عدم استحکام کا شکار ہو، کاروباری طبقہ سرمایہ کاری سے گریز کرے اور عوام بنیادی ضروریات کی فراہمی میں بھی مشکلات کا شکار ہوں، تو اس کا براہ راست اثر قومی سلامتی پر پڑتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کیلئے سیاسی قیادت کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، مگر بدقسمتی سے موجودہ حالات میں وہ یکجہتی نظر نہیں آتی جو 2014 میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد دیکھنے کو ملی تھی۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے قومی سلامتی کے ایجنڈے پر متفق ہو گئے تھے، مگر آج یہ یکجہتی مفقود نظر آتی ہے، جس کی ایک جھلک قومی سلامتی سے متعلق اس زیر بحث اجلاس میں بھی دکھائی دی، جہاں اہم اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی نمائندگی دکھائی نہیں دی، جو انتہائی افسوسناک اور غیر سنجیدہ عمل تھا۔ یہ رویہ نہ صرف قومی سلامتی جیسے اہم مسئلے کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے بلکہ یہ اس جماعت کی سیاسی مفاد پرستی کا بھی واضح ثبوت ہے، تاہم حکومت کی بھی ذمہ داری تھی کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے پی ٹی آئی کو اس اجلاس میں شامل ہونے پر آمادہ کرتی۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے، جہاں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا حکومت کی آئینی اور جمہوری ذمہ داری ہے، مگر بدقسمتی سے حکومت نے اس پر توجہ دینے کی بجائے اپوزیشن کی غیر موجودی کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے استعمال کرنے کو ترجیح دی، جو اس کی اپنی غیر سنجیدگی کو بھی عیاں کرتا ہے۔ سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قومی سلامتی کے معاملات میں سیاست کو نہیں بلکہ قومی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا ورنہ منتشر سوچ اور پراگندہ خیالی کے ساتھ ملک و قوم کو سیکورٹی جیسے اہم ترین مسئلے پر یکجا اور یکسو نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اجلاس میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عزم کیا گیا، تاہم اس کیلئے صرف طاقت کا استعمال ہی کافی نہیں، بلکہ ایک جامع اور مربوط حکمت عملی ناگزیر ہے۔ اس میں ترقیاتی منصوبے، احساسِ محرومی کے خاتمے کے اقدامات، سفارت کاری اور مذاکرات جیسے تمام پہلو شامل ہونے چاہئیں۔ جہاں طاقت کا استعمال ناگزیر ہے، وہاں اس کا بھرپور استعمال ہونا چاہیے، مگر جہاں عوامی مسائل اور گورننس کی کمزوریوں کی وجہ سے حالات خراب ہو رہے ہیں، وہاں اس جانب توجہ کی ضرورت ہے جس کی نشاندہی آرمی چیف نے بھی کی ہے۔
افغانستان سے دراندازی اور وہاں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا معاملہ پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان متعدد بار افغان حکومت کو یہ باور کروا چکا ہے کہ اس کی سرزمین سے دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں مہلک حملے کر رہی ہیں، مگر اس حوالے سے اب تک کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔ یہ معاملہ سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے، مگر اگر اس میں بھی پیشرفت نہ ہو تو پاکستان کو اپنی سلامتی کے دفاع کیلئے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ واضح ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف کوئی نرمی نہیں برتی جا سکتی، کیونکہ یہ قوم کی بقا کا مسئلہ ہے۔ قومی سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک نکتوی ایجنڈے پر متفق ہوں۔ اس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی دہشت گردی کیخلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا نہیں ہوگا، تب تک دہشت گردی اور بے یقینی کی فضا کا خاتمہ ممکن نہیں ہوگا۔ قومی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف متحد ہو کر ہی پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔