بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر حملے کی گونج ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ جنوبی وزیر ستان کے قریب وانااور ٹانک کو ملانے والے راستے پر اہم قصبے جنڈولہ کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے ایک ٹولے نے حملہ کیا لیکن پاک فوج کے جانبازوں نے بفضلہ تعالیٰ اس دہشت گردی کو ناکام بناتے ہوئے دس خارجیوں کو کیفرِ کردار تک پہنچادیا۔
ذرائع کے مطابق حملہ آور خود کش جیکٹوں، بھاری اسلحہ اور گولا بارود سے لیس تھے۔ ان کا حملہ تباہ کن ہوسکتا تھا لیکن پاک فوج کے جوان پوری طرح چوکس تھے جس کی وجہ سے ناپاک عزائم رکھنے والے دہشت گردوں کی ایک نہ چلی۔ ایک بہادر سپاہی فرض شناسی کی مثال قائم کرتے ہوئے شہادت کے رتبے پر فائز ہوا۔ ایک دوسری کارروائی میں مچھ کے مقام پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے ڈیم پر کام کرنے والے سات مزدوروں کو اغوا کرلیا۔ ذرائع کے مطابق قانون نافذکرنے والے ادارے مزدوروں کی بحفاظت رہائی کیلئے دشمن کا پیچھا کررہے ہیں۔ افغانستان کے سرحدوں سے ہونے والے ان مسلسل حملوں سے صاف ظاہرہوتاہے فتنہ ٔ خوارج سے تعلق رکھنے والے گروہوں نے بیرونی طاقتوں اوراپنے سرپرستوں کے اشارے پر پاکستان کیخلاف بڑی جنگ چھیڑ دی ہے۔ دفتر خارجہ پاکستان کے مطابق ان حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی، ملک سے باہر موجود بلوچ علیحدگی پسند قیادت ان حملوں میں ملوث اور بھارت اس میں برابر کاشریک ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو اس وقت کئی چہروں والی جنگ کا سامنا ہے۔ دہشت گرد مقامی سہولت کاروں اور بیرونی سرمائے اور اسلحے کے بل پر ایک خیالی ریاست کے خواب دیکھ کر میدان ِجنگ میں اترے ہوئے ہیں۔ ان کی خوش فہمی ہے کہ وہ پاکستان کی افواج اور عوام کے اتحاد کو توڑنے اور نتیجے میں اس عظیم مسلم ریاست کو لخت لخت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ افغان سرزمین سے حاصل ہونے والی کمک کے بدولت پاکستان کے خلاف برپا کی جانے والی یہ جنگ اپنے طور واطوار اور پیٹرن کے مطابق روس اور امریکا کے خلاف لڑ ی جانے والی گوریلا وار کے مماثل ہے۔ چھوٹے گروہوں کی صورت میں اچانک حملہ کرکے غائب ہوجانا، پہاڑی دروں، دور افتادہ اور خفیہ سرحدی راستوں کو استعمال کرنا، بڑے قصبوں اور شہروں سے کتراتے ہوئے چھوٹی آبادیوں میں موجود اپنے سہولت کاروں کی مدد سے آگے بڑھنا اورحکومت مخالف سیاسی دھڑوں کو آلہ ٔ کار بنانا اور خود بیرونی طاقتوں سے بھاری سرمایہ اور اسلحہ حاصل کرناجبکہ اپنے اتحادیوں کی مدد سے ریاست اور حکومت کیخلاف میڈیا وار کے ذریعے ایک مخصوص فضا پیدا کرکے بین الاقوامی سطح پر اپنے لیے ہمدردیا ں سمیٹنایہ سب کچھ اس جنگ کا حصہ ہے جو فتنہ ٔ خوارج اور اس کے پشتی بان پاکستان کیخلاف استعمال کررہے ہیں۔
دہشت گردوں نے عسکری لحاظ سے اہمیت رکھنے والے مقامات کے ساتھ ساتھ آسان سمجھے جانے والے اہداف کو بھی نشانہ بنالیاہے۔ مسافروں، مزدوروں اور عام لوگوں پر حملے، اغوا اور تجارتی، معاشی اور اقتصادی مراکز اور حفاظتی چیک پوسٹوں پر حملے اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ پاکستان اس وقت ایک بڑی جنگ کا سامنا کررہاہے لہٰذا پوری قوم کو اپنی بقا، آزادی اور تحفظ کی خاطر متحد ہوجاناچاہیے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف برپا اس جنگ میں افغانستان نے بھارت کیلئے اپنے دروازے وا کردیے ہیں۔ بھارتی ایجنٹوں کی کابل سے لے کر قندھار تک پھیلی ہوئی سرگرمیوں سے پاکستانی خفیہ ادار ے لاعلم نہیں۔ جعفر ایکسپریس اغوا کے معاملے میں بھی ایسی کالیں ریکارڈ کی گئی ہیں جو افغانستان میںرچائے گئے بھارتی کھیل کے ثبوت فراہم کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستانی ادارے کئی ایسے گروہوں کو گرفتار کرچکے ہیں جو افغانستان اور بھارت کی پشت پناہی سے ملک میں دہشت گردی، تشدد، تخریب کاری اور انارکی پھیلانے میںملوث تھے۔ ملک کے خلاف ایک بڑی جنگ کے ان تمام عوامل کی موجودگی میں پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک و قوم کے تحفظ کے لیے ایک بیانیے پر متحد و متفق ہوجائیں اور فوج اور عوام مل کر اس فتنے کا مقابلہ کرے جو ملک کی جڑیں کھودنے کے درپے ہے۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کوئٹہ میں گفتگو کرتے ہوئے تمام پارٹیوں کا اجلاس بلانے کا عندیہ دیاہے۔ چند سال قبل سانحہ اے پی ایس کے جواب میں قومی قیادت اسی طرح متحد ہوئی تھی اور اس کے بعد فوج نے دہشت گردوں کو یہاں سے مار بھگایا تھا۔ پاک فوج دہشت گردوں کے مقابلے کا طویل تجربہ رکھتی ہے، جب تک پاک فوج اور عوام کے درمیان تعلق اور رشتہ قائم ہے پاکستان کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ ان حالات میں فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والے محض ملک دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ انھیں سرفراز بگٹی کی حالیہ تقریر پر توجہ دینا چاہیے جن کا کہناہے کہ ریاست نے بلوچوں کے لیے بہت کچھ کیاہے۔ وہ حقوق جو کسی بھی عام شہری کو حاصل ہیں بلوچوں کو بھی مل رہے ہیں لیکن علیحدگی پسندوں کو عام بلوچوں کا تحفظ نہیں بلکہ ان پر مکمل حکمرانی درکارہے اور اس کیلئے وہ کسی بھی حدتک جانے پر بضد ہیں لہٰذا ان کا علاج مکالمہ نہیں بلکہ کڑا احتساب اور قرار واقعی سزا ہی ہوسکتاہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی اس وقت افغان سرزمین ہی سے مدد مل رہی ہے جبکہ ٹی ٹی پی کی قیادت بھی افغانستان میں موجود ہے۔ افغان عبوری حکومت نے اس معاملے پر قطعی غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کررکھاہے جس کی وجہ پاکستان کیلئے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان کے ساتھ مخاصمت میں پڑے بغیر دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرلیاجائے لیکن دوسری طرف اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنے والے افرادگویا موجودہی نہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کیا راستہ رہ جاتاہے کہ حماقت کے جزیرے میں بسنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے جو ایک لمبی جنگ چھیڑ کر پاکستان کو گھٹنوں کے بل بٹھانے کی کوشش تو کررہے ہیں لیکن انتقام اور بدلے کی اس آگ میں جھلس کر وہ خود کو جو نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا انھیں ادراک ہی نہیں ہے۔ ملک میں داخلی اتفاق، باہمی اتحاد اور فوج کی بھرپور مدد اور تعاون کے ساتھ ساتھ ملکی قیادت کو علاقائی دوست ممالک کے ساتھ بھی مسلسل مشاورت اور مسئلے کے حل میں ان کی شمولیت کی کوششیں کرنا چاہئیں کیوں کہ دہشت گردی کی آگ دیگر ممالک کا رخ بھی کرسکتی ہے۔