پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زر داری نے اپوزیشن کو اختلافات بھلاکرمعاشی بحالی کے لیے ملکر کام کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہاہے کہ ذاتی و سیاسی مفاد ایک طرف رکھ کر قومی مفاد مقدم رکھیں، ارکان پارلیمنٹ اتحاد اور اتفاق کا سوچیں جس کی ہمارے ملک کو اشد ضرورت ہے، اتفاق رائے سے قومی اہمیت کے فیصلے کریں ،حکومت اور پارلیمنٹ اگلے بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں۔زرمبادلہ میں ریکارڈ اضافہ خوش آیند ہے، نظام میں مزید بہتری لانا ہوگی،ایوان بہتر طرز حکمرانی، سیاسی اور اقتصادی استحکام کے فروغ پر توجہ مرکوز کرے، قابل تجدید توانائی اور برقی گاڑیوں کے فروغ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر قومی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب پارلیمانی جمہوریت کی روایات کا حصہ ہے اور یہ خطاب اس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس میں صدر مملکت کی جانب سے جو کہ بربنائے منصب وفاق پاکستان کی وحدت کی علامت کہلاتے ہیں،حکومت وقت کو ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے اہم تجاویز دی جاتی ہیں،طرز حکمرانی کے لیے رہنما اصول بتائے جاتے ہیں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کے لیے پالیسی گائیڈ لائن دی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جمہوری معاشروں میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کو نہ صرف عوامی اور سیاسی حلقوں میں بہت اہمیت دی جاتی ہے بلکہ غیر ملکی سفارت کار اور سرمایہ کار بھی صدارتی خطاب کو خوب غورسے سنتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے جہاں دیگر اچھی جمہوری اور پارلیمانی روایات کا فقدان پایا جاتا ہے ،بلکہ خود پارلیمان کی حیثیت اور وقار کے آگے بھی سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، وہیں پالیمان کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب بھی ایک بے مزہ مشق کی صورت اختیار کرچکا ہے جہاں صدر کے خطاب کے دوران اجلاس مچھلی بازار کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے۔حزب اختلاف کے ارکان پہلے سے یہ طے کرکے آتے ہیں کہ صدر کا خطاب نہیں چلنے دینا۔چنانچہ پیر کے روز بھی یہی کچھ ہوا۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن ارکان کی جانب سے شدید احتجاج اور شور شرابہ کیا گیا۔ تحریک انصاف کے ارکان ایوان میں سابق وزیراعظم عمران خان کے حق میں پلے کارڈ اٹھا کر نعرے لگاتے رہے۔احتجاج کے دوران اپوزیشن لیڈر عمر ایوب مکے مار مار کر ڈیسک بجاتے رہے، صدر مملکت تقریر کے دوران اپوزیشن کی جانب دیکھ کر مسکراتے رہے۔ایوان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کے حکومتی ارکان نے ہیڈ فون لگاکر صدر کا خطاب سنا۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں اتنی بلوغت اور سنجیدگی کب آئے گی کہ وہ کم از کم ایک پارلیمانی اور جمہوری روایت کے طور پر صدرمملکت کے خطاب کو سنیں اور پھر اس خطاب پر بحث کے دوران بے شک اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور سینیئرپارلیمانی لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ ایسے اہم مواقع پر پارلیمان کا ماحول خوشگوار رکھنے کے لیے پیشگی اقدامات کے طور پر اپوزیشن رہنماؤںسے بات کریں اور ان کے جائز مطالبات تسلیم کرکے قومی پارلیمان کو جمہوری انداز میں چلانے پر اتفاق رائے حاصل کریں۔

جہاں تک پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر آصف زرداری کے خطاب کے مندرجات کا تعلق ہے تو انہوں نے ایک جانب بحیثیت صدر مملکت کے وفاقی حکومت کے کچھ مثبت اقدامات کی تعریف کی ہے، وہیں ساتھ ہی پاکستان پیپلززپاٹی کے شریک چیئرمین ہونے کے ناتے وفاق سے صوبوں بالخصوص سندھ کی شکایات اور تحفظات کا بھی کھل کر اظہار کیا ہے۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ صدر مملکت کا تعلق اگر حکمران جماعت سے ہو تو ان کی جانب سے حکومتی پالیسیوں اور کار کردگی کی تعریف و تحسین کی جاتی ہے اور ان اعدادو شمار پر انحصار کیا جاتا ہے جو حکومت نے صدارتی خطاب کے لیے فراہم کیے ہوتے ہیں تاہم اگر صدر مملکت کا تعلق وفاق میں حکمران جماعت سے نہ ہو ، تواس صورت میں صدارتی خطاب کی زبان تھوڑی سی مختلف ہوتی ہے جیساکہ پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت کے دوران سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کا خطاب ہوتا تھا اور جیسا کہ موجودہ صدر آصف علی زرداری کے خطاب سے بھی سمجھاجاسکتا ہے۔ چنانچہ اپنے خطاب میں صدرآصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آج عام آدمی، مزدور اور تنخواہ دار طبقے کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ہمارے شہری مہنگائی، اشیائے ضروریہ کی بلند قیمتوں اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ میں اس پارلیمنٹ اور حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ اگلے بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں۔حکومت کو آیندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے، تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

صدر آصف علی زرداری کے خطاب کے اس حصے کو ملکی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے نمایاں سرخیوں میں شائع اور نشر کیا ہے جس میں انہوں نے چولستان کے زرعی منصوبے کے لیے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے فیصلے سے دوٹوک الفاظ میں اختلاف کیا اور اسے واپس لینے کا کہا ہے۔اس بارے میں ان کا کہنا تھا آپ کے صدر کی حیثیت سے میرا آئینی فرض ہے، محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ میں ایوان اور حکومت کو خبردار کروں کہ آپ کی کچھ یکطرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں۔ خاص طور پر، وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کا یکطرفہ فیصلہ، اس تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کر سکتا۔ میں اس حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل، پائیدار حل نکالا جا سکے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق صدر زرداری کا خطاب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان شراکت اقتدار کے معاملات میں پائی جانے والی پیچیدگیوں اورطاقت و اختیارات کی کشمکش کا منظر نامہ واضح کر رہا ہے اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بظاہر سب اچھا نظر آنے کے باوجود موجودہ سیاسی بندوبست کے اندر درحقیقت سب اچھا نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اپنے اختلافات پر قابو پاکر موجودہ سسٹم کو برقرار رکھنے میں کہاں تک کامیاب ہو پاتی ہیں۔