غزہ پر دوبارہ جنگ مسلط کیے جانے کا خدشہ

اسرائیل ٹرمپ انتظامیہ کی اشیر باد سے ایک بار پھر غزہ پر جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ نیتن یاہو حکومت نے جنگ معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے موقع پر مختلف حیلے بہانے بناکر مذاکرات کا دروازہ بند کردیا اور پہلے مرحلے کے مذاکرات کے دوران طے شدہ امور سے صاف انحراف کرتے ہوئے حماس سے اپنے قیدیوں کی یکبارگی رہائی کا مطالبہ کردیا جسے حماس نے مسترد کر دیا۔

اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل روکنے کا اعلان کر دیا اور تازہ اطلاعات کے مطابق وہ اب غزہ کا پانی اور بجلی بھی منقطع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس سے غزہ کے دوملین سے زائد شہریوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔عالمی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق غزہ کے اوپر اسرائیلی جاسوس طیاروں کی پروازوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور نتساریم کوریڈور پر اسرائیل کی زمینی فوج کی نقل و حرکت میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔

یہ سارے اقدامات ایسے وقت میں کیے جارہے ہیں جب امریکا کی جانب سے اسرائیل کے لیے مزید چار ارب ڈالرز کا اسلحہ روانہ کیا گیا ہے، جس میں جدید بندوقوں کے علاوہ بلڈوزروں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے ۔اس سے پہلے وسیع تباہی پھیلانے والے دو ہزار پونڈ وزنی بموں کی کھیپ اسرائیل پہنچائی جاچکی ہے۔سویہ تمام تیاریاں درحقیقت غزہ سے فلسطینیوں کو جبرا بے دخل کرکے پڑوسی ملکوں اردن اور مصر میں دھکیلنے کے امریکی صدر ٹرمپ کے شیطانی منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔ اس منصوبے کا پلان اے اردن اور مصر کو قائل کرکے فلسطینیوں کو غزہ سے رضا کارانہ انخلا پر راضی کرنا تھا جو فلسطینی عوام کے دوٹوک انکار کے بعد ناکام ہوچکا ہے، اب پلان بی کے طور پر فلسطینیوں کو غزہ سے جبری انخلا پر مجبور کرنا اور پڑوسی ممالک کو انہیں بہرصورت اپنی سرزمین میں جگہ دینے پر آمادہ کرنا ہے۔ غزہ کا پانی اور بجلی بند کرنا اور وہاں ہر قسم کی امداد کی رسائی روکنا اور پھر تباہ کن بموں سے بمباری اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔اس مقصد کے لیے اگر نیتن یاہو حکومت کو مزید دسیوں ہزار فلسطینیوں کا خون بہانا پڑے تو وہ اس سے دریغ نہیں کرے گی کیونکہ اسے امریکی کی ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کی اکیسویں صدی کی خود کو مہذب کہنے والی دنیا میں کوئی ایسی طاقت اور فورم موجود نہیں ہے جو ظلم و تعدی کے اس بد ترین اقدام کو روک سکے۔یہ بالکل واضح حقیقت ہے کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق کسی خطے کے عوام کو کسی بھی بہانے سے اپنی سرزمین سے نہیں نکالا جاسکتا، ایسا کرنا نسلی تطہیر کہلاتا ہے جو بین الاقوامی قانون کے مطابق سنگین جرم ہے، اقوام متحدہ،یورپی یونین اور ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت متعدد بین لاقوامی ادارے کہہ چکے ہیں کہ غزہ کے باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا مگر یہاں مسئلہ ہے کہ اس وقت دنیا میں عملاً جنگل کا قانون نافذ ہے۔ امریکا ویسے بھی ہمیشہ سے خود کو بین الاقوامی قوانین سے بالاتر سمجھتا رہا ہے مگر ٹرمپ جیسے خبطی اورابنارمل شخص کے اقتدار میں آنے کے بعد تو اس نے بالکل بدمست گینڈے کی شکل اختیار کرلی ہے اور وہ اب کسی بین الاقوامی قانون اور ضابطے کو خاطر میں نہیں لارہا۔

ایسے میں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا ایک اور سلسلہ شروع ہونے کا خطرہ عالم انسانیت کے سروں پر منڈلا رہا ہے اور یہ پوری عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ امریکا اور اس کے لے پالک کتے اسرائیل کے ہاتھوں حرمت انسانیت کا دامن تار تار ہونے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ یورپی ممالک نے جس طرح امریکا کے مقابلے میں یوکرین کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے، بالکل اسی طرح انسانیت پر یقین رکھنے والے تمام ممالک کو فلسطینیوں کے ساتھ بھی کھڑے ہونے کا اعلان کرنا چاہیے اور اسرائیل کو غزہ پر مزید جارحیت سے باز رکھنے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرنا چاہیے۔ورنہ مشر ق وسطیٰ میں لگنے والی آگ پوری دنیا کے امن واستحکام کے لیے سنجیدہ خطرات کا موجب بن سکتی ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت اور بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں کی روشنی میں اگر نیتن یاہو حکومت کا محاسبہ نہیں کیا گیا تو پھر دنیا میں انصاف کا نظام مذاق بن کر رہ جائے گا اور آیندہ انسانیت سوز جرائم پر کسی کے خلاف فیصلہ نہیں دیا جا سکے گا۔

غزہ پر چڑھائی کے اسرائیلی عزائم عالم اسلام کے لیے بھی بیداری کا پیغام ہیں۔امت مسلمہ کو اس وقت ابھی یا کبھی نہیں کا چیلنج درپیش ہے۔ اگر خدانخواستہ اس مرحلے پربھی فلسطینیوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تو پھر عالم اسلام کو قبلہ اول بیت المقدس اور سرزمین انبیاء فلسطین سے ہمیشہ کے لیے دستبرداری کی ذلت قبول کرنا ہوگی۔ صہیونی لابی غزہ کے دوملین غیور مسلمانوں کو نکال کر القدس کے دفاع کے لیے مسلمانوں کی آخری دفاعی لائن بھی توڑ دینا چاہتی ہے۔ یہ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی ریڈ لائن ہے اور اگر یہ لائن عبور ہوگئی تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ خود اسلامی دنیا میں کس طرح کے حالات پیدا ہوں گے اور مسلم حکمرانوں کو عوام کے کس قدر غیظ و غضب کا سامنا ہوگا۔ ویسے تو یہ پاکستان، ترکیہ، ملائشیا سمیت تمام اسلامی ممالک کا فرض بنتا ہے کہ وہ ٹرمپ سرکار کے اس شیطانی منصوبے کو روکنے کے لیے آگے بڑھیں تاہم فلسطین کے پڑوسی عرب ممالک اردن اور مصر سمیت سعودی عرب کو خاص طور پر نہایت بیدار مغزی کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔

جس وقت یہ سطور کھی جارہی ہیں، عرب ممالک کاخصوصی اجلاس شروع ہونے والا ہے،توقع رکھی جانی چاہیے کہ عرب ممالک اس معاملے پر جاندار اور مضبوط مشترکہ موقف کا اعلان کریں گے اور فلسطینیوں کے جبری انخلا کے منصوبے کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ یہ خود ان ممالک کی بھی بقا واستحکام کا مسئلہ ہے۔ اگر خدانخواستہ انہوں نے اس معاملے میں کسی مداہنت کا مظاہرہ کیا اور ٹرمپ اور نیتن یاہو کے منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی کو قبول کیا اور اس میں سہولت کاری کی تو یقینا انہیں اس کے مضمرات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ابھی شام میں آئے ہوئے عوامی انقلاب کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے،بہت سے مبصرین کے مطابق اس انقلاب کا فوری باعث بھی بشار حکومت کا اسرائیل کے بارے میں منافقانہ اور بزدلانہ رویہ بنا تھا۔ اگر فلسطینیوں کی جبری بے دخلی شروع ہوگئی تو کم ازکم مصراور اردن کی حکومتوں کو اس کے وبال کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اس لیے ان ممالک ا اپنا بہتر مفاد بھی اسی میں ہے کہ وہ اس منصوبے کی مزاحمت کریں اور فلسطینیوں پر نئی جنگ مسلط کرنے کے ناپاک صہیونی عزائم کو ناکام بنا دیں۔