یورپی قیادت کا اجلاس، نئے عالمی معاہدوں کے امکانات

امریکا کی جانب سے یوکرین کی جنگ میں سرد مہرانہ رویے اور یوکرین کے صدر زیلنکسی کے ساتھ غیر سفارتی برتاؤ کے بعد لندن میں یورپی قیادت کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ یورپ بہرصورت یوکرین کی حمایت جاری رکھے گا اور روس کے ساتھ جاری جنگ میں اسے تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔

کانفرنس میں یورپی رہنماؤں نے امریکا کے ساتھ تعلقات برقرار رکھتے ہوئے مستقبل میں یورپ کے دفاع کو مستحکم بنانے پر زور دیا۔ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹامر کی گفتگو اس امر کی غماز تھی کہ وہ یورپ کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں اور طویل عرصے بعد یورپی رہنماؤں کی ایک بھرپور کانفرنس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقبل میں یورپ کی ایک خودمختار پالیسی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر یوکرین کے صدر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ یوکرین کی معدنیات کے مسئلے پر امریکا کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم اس کے لیے میز پر موجود شرائط ہی پر اتفاق کیا جائے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق لندن سمٹ میں یورپی قیادت کے خیالات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ امریکا کی حالیہ پالیسیوں نے یورپ کو ایک نئے سیاسی و دفاعی اتحاد کی جانب متوجہ کر دیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کے مطابق وہ قیامِ امن کے حوالے سے ٹرمپ کو تو قابلِ اعتماد سمجھتے ہیں لیکن وہ روس کے صدر پیوٹن پر اعتبار نہیں کر سکتے، دراصل یوکرین، روس جنگ میں امریکی پالیسیوں کے ساتھ عدمِ اتفاق کا اعلان ہی ہے جسے سفارتی زبان میں پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ لندن سمٹ کی تفصیلات سے یہ بات تو ظاہر ہو جاتی ہے کہ یورپی قیادت نہ صرف یہ کہ روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری نہیں چاہتی بلکہ وہ روس کی ممکنہ پیش رفت سے خطرہ بھی محسوس کر رہی ہے۔ یورپی رہنماؤں کے اس رویے میں یورپ اور روس کے مابین صدیوں پرانے اختلافات اور شدید نوعیت کی مخاصمت پوشیدہ ہے۔ ظاہر ہے کہ فرانس اور جرمنی کے روس پر حملے بھلا دینے والی باتیں نہیں، علاوہ ازیں روس کو کئی دہائیوں سے مشرقی سمت میں نیٹو کے توسیع پسندانہ منصوبوں سے خطرات لاحق رہے ہیں۔ مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو کہ کسی وقت روس کی عمل داری کا حصہ تھے، اگر نیٹو میں شامل ہوں گے تو روس بجاطور پر معترض ہوگا۔ یوکرین کے ساتھ جنگ کے پسِ منظر میں بھی یہی معاملات شامل رہے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں یورپ نے امریکا کے ساتھ مل کر روس پر ہر قسم کی پابندیاں عائد کی تھیں، تاہم اس کے باوجود روس اور یورپی ممالک کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم رہے، جس کا تقاضا تھا کہ یوکرین کے معاملے پر روس کے خدشات کو نظرانداز نہ کیا جاتا اور یوکرین کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کو انا کا مسئلہ نہ بنایا جاتا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا اپنے اقتصادی نقصانات اور بڑھتی ہوئی داخلی بے چینی پر قابو پانا چاہتا ہے جس کے لیے جنگوں سے احتراز ضروری ہو چکا ہے جبکہ یورپ کو اپنے دفاع اور تحفظ کی فکر لاحق ہے۔ یوں امریکا اور یورپ کے درمیان مفادات، خواہشات اور مقاصد کا اختلاف بالکل واضح ہو چکا ہے اور یہ اختلاف ان طاقتوں کو الگ الگ راستے اختیار کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

ان حالات میں لندن سمٹ کا انعقاد عالمی سیاست کی بساط پر نئی بازی شروع کرنے کے مترادف ہے۔ یورپ اور امریکا اپنی اپنی چالیں چلنا چاہتے ہیں اور اس بساط کے سب سے کمزور مہرے یعنی یوکرین کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یوکرین جو کہ ایک وقت میں جوہری قوت کے استعمال کی صلاحیت رکھتا تھا، اس وقت کھیل کا سب سے کمزور کھلاڑی ہے۔ یورپ اسے جنگ کی آگ میں دھکیل کر اپنے دفاع کے لیے وقت حاصل کرنا چاہتا ہے حالانکہ یورپی ممالک روس کے ساتھ صلح کی بات چیت بھی کر سکتے ہیں اور یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل کیے بغیر باہمی اتحادی کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے لیکن اس کام کے لیے جس انسان دوستی، وسعتِ ظرفی، احترامِ آدمیت اور عالمِ انسانیت کے ساتھ حسنِ سلوک کے جذبات و احساسات کی ضرورت ہے، مغربی طاقتیں ان سے محروم ہیں۔ ان کے نزدیک انسان محض خواہشات کا ایک مجموعہ ہے جسے اپنے مفادات کو یقینی بنانا اور بقا کی خاطر جدوجہد کرتے ہوئے خود کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور بنانا ہوتا ہے۔ یورپی ممالک نے جدیدیت کے جن عقائد و نظریات کو ترقی و استحکام اور خوشحالی کا مذہب سمجھ کر اختیار کیا تھا، ان کے مضمرات و عواقب دو عالمی جنگوں کی صورت میں دنیا بھگت چکی ہے اور سرد جنگ کے ایک طویل دور کے بعد اب یورپ ایک مرتبہ پھر جنگوں کی جانب لوٹ رہا ہے۔ امریکا اس جنگ میں یورپ کے توسط سے شریک تھا وہ بہرحال جنگ کو خیر باد کہنے کا عندیہ دے چکا ہے۔ یورپ کی موجودہ صورتِ حا ل واضح کر رہی ہے کہ وہ نئے عالمی معاہدوں پر غور کرے گا جس کے بعد دنیا طاقت کے نئے جزیروں میں منقسم ہو جائے گی۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے تو اسے نئی منڈیوں کی تلاش میں مشرق ہی کا رخ کرنا ہوگا۔ ان حالات میں جنوبی ایشیائی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ اقوام عالم کی موجودہ صورتحال قرآن کریم کے اس فرمان کی وضاحت ہے کہ خالقِ کائنات لوگوں کے درمیان دنوں کو بدلتا رہتا ہے۔ چھوٹی اور بڑی جماعتوں کے ٹکراؤ سے دنیا کے حالات میں تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

ملک میں دہشت گردی کے مسلسل خطرات

مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایک طرف تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سیاسی و سفارتی انداز میں بات چیت کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاہم دوسری جانب افغان سرزمین سے پاکستان میں دراندازی کا سلسلہ بھی جاری ہے، جامعہ حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق حقانی کی پرملال شہادت کے بعد ملک کے دیگر جید علماء کرام کو بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کے خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ افغان سرزمین سے اس وقت خوارج کی جو پشت پناہی کی جا رہی ہے وہ سنگین نتائج کا باعث بن رہی ہے اور مستقبل میں اس کے مضمرات میں مزید اضافہ ہوگا۔ افغان سرزمین پر نفاذِ اسلام خوب ہے لیکن اس نظام کو خوارج کی حمایت کرنے والے شرپسندوں اور مسلم ریاستوں کے خلاف استعمال کرنے والے عناصر سے محفوظ رکھنا خود اس کی بقا کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔