معاشی اور دفاعی استحکام کی حکومتی کاوشیں

وزیراعظم میاں شہباز شریف کے حالیہ دورۂ ازبکستان و آزر بائیجان اورابوظہبی کے ولی عہد کی پاکستان آمد پر ہونے والے معاہدوں سے اندازہ ہوتاہے کہ حکومت بیرونی سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل نظام کیلئے افراد سازی کے ساتھ علاقائی تعاون اور مشترکہ خوشحالی کے منصوبو ں کو بروئے کار لاکر ملک کو معاشی بحران سے نکالنا اور دفاعی لحاظ سے مستحکم کرنا چاہتی ہے۔

وزیر اعظم نے ایک بیان میں وضاحت سے کہا کہ وہ ملکی معیشت کی ہیئت کو مکمل طورپر بدل دینے کی سو چ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ تاہم تیز رفتار اقتصادی ترقی کے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے داخلی استحکام، شفاف نظام، انصاف کی بالادستی اور محکموں کی درست کارکردگی ایک ناگزیر امرہے جس کے بغیر حکومتی کاوشیں قرضوں کے مزید بوجھ اور مہنگائی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ملکی معیشت کی ہیئت کو تبدیل کرنے کا خواب قابل ستائش ہے۔ اس خواب کی تکمیل کے لیے قیادت کی سطح پر حکمت و تدبر، عزم و ہمت اور غیر متزلزل جذبہ و اخلاص کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں یہ کام تنہا وفاقی حکومت انجام نہیں دے سکتی۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف نے درست کہا ہے کہ حالات بدلنے کیلئے تمام صوبوں کو وفاق کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ پاکستان اس وقت دہشت گردی، لاقانونیت، جتھوں کی قبضہ گیری، مافیاراج اور گروہی و طبقاتی تقسیم جیسے مسائل کا سامنا کررہاہے۔ فوج اور حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈا عروج پر ہے اور میڈیا وار کو روکنے کے لیے حکومت جو بھی اقدامات کررہی ہے اسے مختلف اطراف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے، ان مسائل کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف کا رویہ بھی محض مخاصمت پر مشتمل دکھائی دیتاہے جس کا خیال ہے کہ حکومت کو اقتدار چھوڑ کر گھر بیٹھ جانا چاہیے اور ایسے حالات میں جبکہ ملک دیوالیہ ہونے سے بال بال بچاہے، معیشت و تجارت، دفاع و خارجہ جیسے اہم امور کو کسی نگران قیادت کے سپرد کردینا چاہیے۔ یہ مطالبہ کتنے ہی خلوص سے کیوں نہ کیا جائے، موجودہ حالات میں ناقابلِ عمل ہے کیونکہ خوفناک معاشی بحران، ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرناک اثرات، پڑوس سے دہشت گردی، علیحدگی پسند تحریکوں کی سرگرمیوں اور ہوشربا قرضوں کے بوجھ کو دیکھتے ہوئے کوئی خطرہ مول لینا آبیل مجھے مار کے مترادف ہی ہوگا۔ عقل و دانش کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت درست سمت جو قدم اٹھا رہی ہے وہاں کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعاون کا رویہ اختیار کیاجائے اور جہاں واقعی اختلاف کیا جانا ضروری ہو، وہاں پارلیمنٹ کے ذریعے بات کی جائے۔

فی الواقع ملک کو معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ دفاعی چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ اس ضمن میں علاقائی ممالک کے ساتھ اشتراکِ عمل اور باہمی دفاعی معاہدے ایک بہترین کاوش ہے۔ داخلی نظام کو بہتر بنانے کے لیے انفرا اسٹرکچر جس میں ریلوے کا نظام خاص طورپر قابلِ ذکر ہے، اہمیت رکھتے ہیں۔ علاقائی سطح پر اشتراکِ عمل پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے باہمی تعاون سے بہتر انداز میں وجود پاسکتاہے تاہم اس ضمن میں پاک افغان تعلقات میں بہتری ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے افغان عبوری حکومت کو اس کا ادراک نہیں یا وہ جان بوجھ کر اس اہم علاقائی تقاضے کو نظر انداز کررہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کیخلاف ہتھیار اٹھانے والے گروہوں کو اگر افغان سرزمین سے کمک مل رہی ہے تو پاکستان کو وسطی ایشائی ریاستوں کے ساتھ تعاون و اشتراک کیلئے کچھ نئے معاہدوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور ازبکستان کے ساتھ دفاعی معاہدے اس سلسلے کی پہلی کڑی بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاک افغان کشیدگی کو کم کیاجائے اور افغان عبوری حکومت کو پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے ملکی معیشت کی ہیئت کو تبدیل کرنے کے جس عزم کا اظہار کیاہے، اس کی جانب تعلیم و ہنر کے میدانوں میں پیش قدمی کیے بغیر بڑھنا ممکن نہیں۔
نئی نسل کو درست منہج پر تعلیم وتربیت کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو وہ شعور ملنا چاہیے جو ایک نئی ریاست کے قیام کے وقت ہمارے بزرگوں کیلئے نورِ راہ ثابت ہوا تھا۔ محض ہنر کی تعلیم کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ درست نظریاتی تربیت بھی ضروری ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ترقی کی جانب دوڑ محض سرمائے کے حصول کی جنگ بنتی دکھائی دے رہی اور نوجوان نسل اس حوالے سے شدید خود فریبی، فکری گمرہی اور لاعلمی کا شکار ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں غیر سنجیدہ ماحول، مادرپدر آزادی، منشیات کے استعمال اور ملک اور معاشرے سے باغیانہ سوچ جیسے عناصرپرورش پارہے ہیں جو مستقبل کیلئے سنگین مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ ملکی معیشت کی ہیئت تبدیل کرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو معاشرے میں تیزی سے پھیلتی ہوئی انتشار فکر، فکری تضاد، ریاست مخالف جذبات اور ریاست کے مقاصد سے روگردانی جیسے مہلک اثرات کو دور کرنے کی فکر بھی کرنی چاہیے۔

ماہِ رمضان المبارک کی آمد

ماہ ِ رمضان المبارک کی پرنور ساعتیں اپنے دامن میں بے شمار رحمتیں لیے جلوہ افروز ہونے کو ہیں۔ ماہِ مقدس ک آمد عالم اسلام کیلئے خوشیوں کی نوید سے کم نہیں۔ اس موقع پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو توبہ و استغفار، دعاو مناجات، عبادات و ریاضت اور خاص طورپر تلاوت قرآن کریم کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ماہِ مقدس نیکیوںکا سیزن ہے اور اسے رب کریم کے فضل و کرم اور رحمتوں اور برکتوں کے حصول کیلئے ایک سنہری موقع خیال کرنا چاہیے۔ دنیا کی چند روزہ فانی زندگی متعدد مسائل، پریشانیوں اور مجموعی طورپر امتحانوں سے بھری ہے۔ توبہ و انابت، رجوع الی اللہ اور اپنی اصلاح کی کوشش کرکے ہم دنیا کی امتحان گاہ سے کامیابی کے ساتھ گزر سکتے ہیں۔ پاکستان کے مسلمانوں پر رب کریم کی یہ خصوصی عنایت ہے کہ انھیں ایک ایسا آزاد خطہ نصیب ہے جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے نظامِ حکومت کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ رمضان کی رحمت بھری ساعتوں میں فلسطین، غزہ، کشمیر، بھارت، برما اور دنیا بھر میں ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں کو دعاؤں یاد رکھنا چاہیے۔ روزنامہ اسلام اپنے تمام قارئین کو ماہِ مقدس کی آمد پر مبارکباد پیش کرتاہے۔