مضمون: محمود میاں نجمی
وہ 4 جنوری 2008ء کا ایک اُداس اور سرد دن تھا کہ جب دنیائے علم و ادب کی ایک نامور بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت ہم سے جدا ہوگئی۔
بابائے کتب و لائبریری، پاکستان میں کتب خانوں کے خالق، جدید لائیبریریوں کے بانی، کتابیات کے انسایکلوپیڈیا، تعلیم و تدریس کے بادشاہ ، علم و دانش کے روشن چراغ، ماہر ابلاغیات ،مفکرومدبر ، محقق و مفسر، پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید 84 سال کی عمر میں دنیا بھر میں اپنے لاکھوں شاگردوں اور عقیدت مندوں کو اُداس و غمگین چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کی جانب روانہ ہوگئے۔ آج اس سانحہ کو گزرے 16 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ان کے زندہ جاوید کارنامے اور ان کے روشن کیے ہوے چراغوں کی روشنی نے علمی و ادبی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
ڈاکٹر انیس مرحوم کی پوری زندگی علم وادب کے میدان میں انتھک محنت اور جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ نام و نمود سے پاک گوشہِ تنہائی میں قائد اعظم کے فرمان کے مطابق کام اور صرف کام ڈاکٹر صاحب کا مقصد حیات تھا۔یوں تو ڈاکٹر انیس کے علمی و تحقیقی مقالوں ومضامین کی فہرست بہت طویل ہے لیکن ہم یہاں ان کے مشہور و معروف لائف ٹائم اچیومنٹ کا ذکر کیے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے عالمی میگزین میں شائع شدہ آرٹیکلز کی تعداد 71 ہے۔ آپ نے 35 سے زاید کتب تحریر فرمائیں۔ تحقیقی مواد پر مشتمل 15 رپورٹس پبلش کیں جبکہ آپ کی علمی کاوشوں کو سراہتے ہوئے آپ کو 9 بار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
ڈاکٹر صاحب 21 ستمبر 1924ءکو ہندوستان کے شہر ’ناگپور‘ کے ایک چھوٹے سے گاوں ’کامٹی‘ کے محلے ’وارث پورہ‘ کے معزز شاعر و ادیب جناب منشی سعید کے گھر پیدا ہوئے۔ دادا محترم نے نومولود کا نام ’انیس خورشید‘ رکھا۔ابھی پانچ برس کے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ دادا نے ہاتھ پکڑا اور محلے کے مدرسے میں جا کر بٹھا آئے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ ہندوستان میں تعلیم عام نہ تھی بلکہ مسلمانوں میں تو پڑھنے لکھنے کا رجحان ہی نہ تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ پڑھے لکھے آٹے میں نمک کے برابر تھے تو بے جا نہ ہوگا۔
گھر کے ادبی اور دینی ماحول نے ان کی تعلیم و تربیت پر بڑے گہرے نقوش مرتب کئے۔ آغوش مادر میں تربیت اور بنیادی تعلیم کی تکمیل کے بعد گاوں کے واحد اسکول’ ربانی ہائی اسکول‘ سے 1943 ءمیں ہائی اسکول کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ پھر پہلی ملازمت ناگپور کے جنرل پو سٹ آفس میں کی۔ علمی شوق ورثے میں ملا تھا۔ چنانچہ 1944 ءمیں پہلا مضمون ’بابوجی‘ لکھا جو اُردو میگزین ’کامیاب‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انیس میاں نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور ان کے مضامین دہلی اور بمبئی کے معیاری رسالوں میں چھپنا شروع ہوگئے جن میں الفاروق، منزل، آئینہ اور نظام وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ مسلمانوں کے دل پر نقش ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر انیس اس تحریک کا حصہ بنے اور 14 اگست 1947ءکو مملکت خداداد پاکستان وجود میں آگئی۔مملکت اسلامیہ کی خدمت کے جنون نے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ اکتوبر 1947ءکو ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے والدین کو خدا حافظ کہا اور چند دوستوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے۔شہر کراچی کو اپنا مسکن بنایا اور رنچھوڑ لائین کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں قیام کیا۔پاکستان پوسٹ اینڈ ٹیلیگراف آفس میں جا کر اپنی ملازمت کو جوائن کیا۔1950ءمیں اہل خانہ کو بھی پاکستان لے آئے اور پی اینڈ ٹی کالونی میں رہائش اختیار کی۔دوران ملازمت ڈاکٹر صاحب نے تعلیمی سلسلہ بھی جاری رکھا اور اسلامیہ کالج سے بی اے کے امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اسی دوران انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے لائبریرین شپ میں سرٹیفکیٹ حاصل کیااور انہیں کراچی یونیورسٹی میں جاب کی آفر ہوگئی۔
ڈاکٹر صاحب کتب کے عاشق اور ادب کے دلدادہ تھے۔چنانچہ بہت جلد شہر کراچی میں ایک ادبی نشست کا آغاز کر دیا، جس کے مستقل ممبران میں نواب صدیق علی خان،ڈاکٹر حبیب الرحمن،ریاض روفی، ایوب صدیقی، شوکت رضوی شامل تھے۔ ان نشستوں میں ڈاکٹر صاحب اپنے رفقا کو اپنے ہاتھوں سے کافی بنا کر پیش کیا کرتے تھے۔کہتے ہیں کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے۔کافی کی خوشبو اہلِ ادب تک جا پہنچی اور اب ان ادبی نشستوں میں مزید نامور ادیبوں اور شاعروں کا اضافہ ہوگیا اور ان میں دیگر کے علاوہ جناب ڈاکٹر محمودحسین، ابن انشائ، مولوی عبدالحق، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر شریف المجاہد، ڈاکٹر ظفر سعید سیفی، ڈاکٹر جمیل اختر، ڈاکٹر ذاکر شاہد، اکرام الحق، ڈاکٹر نعیم قریشی، سید ریاض الدین وغیرہ شامل تھے۔ لاہور کے ٹی ہاوس کی طرح دوستوں کی محفلوں میں ڈاکٹر صاحب کی کافی نے بھی خوب پذیرائی حاصل کی۔ بقول شاعر
کبھی تنہائی سے محروم نہ رکھا مجھ کو
دوست ہمدرد رہے کتنے میری ذات کے ساتھ
1960ءکے آخر میں ڈاکٹر صاحب نے لائیبریری کے پوسٹ گریجویٹ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کرکے سب کو حیران کردیا، جس کے بعد ان کو امریکا سے ’فل برائیٹ ایشیاءفاونڈیشن‘ کی جانب سے اسکالرشپ آفر ہوئی۔ 1967ء میں امریکا سے لائیبریری سائنس میں ماسٹر کر کے اپنے ملک آنے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ انہیں امریکا سے نہایت پُرکشش ملازمتوں کی آفر تھی لیکن اپنے ملک اور قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ لہٰذا واپس پاکستان آگئے۔ پاکستان واپس آکر کراچی یونیورسٹی میں لائیبریری کو جدید خطوط اور جدید سسٹم پر آرگنائز کیا کیونکہ یہی ان کا دیرینہ خواب تھا جس کی تکمیل کے لیے انہوں نے رات اور دن ایک کردیے تھے۔
لائیبریری سائنس میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی کا اجراءبھی ان کا ایک بڑا کارنامہ تھا۔ 1965ءمیں ڈاکٹر صاحب کو ایک بار پھر امریکا سے پی ایچ ڈی کی آفر ہوئی۔چنانچہ انہوں نے ایک بار پھر ’پٹس برگ یونیورسٹی‘ سے لائیبریری سائنس میں ایڈوانس سرٹیفکیٹ کورس کیا۔1966ءمیں ’اسٹیٹ یونیورسٹی نیویارک‘ سے لائیبریری سائنس میں ڈپلومہ کیا۔ 1969ءمیں ڈاکٹر صاحب امریکا سے پی ایچ ڈی کر کے وطن واپس پہنچے۔ پانچ سال کی سخت ترین تعلیمی مصروفیات نے ان کے اعصاب پر برے اثرات مرتب کیے۔
چنانچہ وہ کراچی آتے ہی بیمار پڑ گئے۔ پھر مرض بڑھتا چلا گیا جوں جوں دوا کی، لیکن اس قدر بیماری کے باوجود ان کے مضبوط ارادے اور جوان حوصلے پست نہ ہوسکے اور بیماری کو پس پشت ڈال کر نئے حوصلے نئے جذبے نئے ولولوں کے ساتھ دوبارہ اپنے مادر علمی کراچی یونیورسٹی پہنچ کر درس و تدریس میں مصروف عمل ہوگئے۔ 1979ء میں اپنے ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین مقرر ہوئے اور 1986ءمیں مروجہ قانون کے تحت یونیورسٹی سے ریٹائر ہوگئے، لیکن علم وعمل کی اپنی سرگرمیوں میں کمی نہ آنے دی
مانا کہ اس زمین کو گلزار نہ کر سکے ہم
کچھ خار تو کم کرگئے، گزرے تھے جدھر سے ہم
ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب نے درس و تدریس سے اپنا رابطہ برقرار رکھا۔ اپنی 65 سالہ طویل علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے دوران ڈاکٹر صاحب نے جو تحقیقی مقالے تحریر کئے وہ ملکی اور غیر ملکی رسائل میں نہایت نمایاں طور پر شائع ہوئے اور بڑی خوب پذیرائی ملی ۔ڈاکٹر صاحب کی کتب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان میں سے کچھ کتابیں پاکستان کی یونیورسٹیز میں لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کے سلیبس کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے علمی کارناموں پر بہت سے طلبہ نے تھیسس بھی لکھے اور آج بھی لکھ رہے ہیں۔ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ قائد اعظم کی ببلیو گرافی مرتب کرنا تھا۔دو سال کی مسلسل عرق ریزی کا ثمر یہ تحقیقی کتاب ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے جس کی طباعت اُردو اور انگلش میں ہوئی اور جو بہت زیادہ پاپولر ہوئی۔
تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی قومی علمی خدمات کو سراہتے ہوئے ملک اور بیرون ملک کے اہلِ علم اداروں نے بے شمار انعامات سے نوازا‘ جس کی تفصیل آپ کی ویب سائیٹ پر موجود ہے۔ 1996ءمیں اُس وقت کے صدر جناب فاروق احمدلغاری نے آپ کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ 2006ء میں کراچی یونیورسٹی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ اسلام آباد میں قائم ملک کے سب سے بڑے قومی عجائب گھر میں ڈاکٹر صاحب کے علمی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ 1992ء میں ہمدرد یونیورسٹی کے بانی محترم حکیم محمد سعید صاحب نے آپ کی علمی خدمات کے پیش نظر ایوارڈ سے نوازا۔ آپ ہمدرد کی شوریٰ کے چیئرمین بھی رہے۔ آپ نے بے شمار ادبی اور علمی اداروں کی سرپرستی بھی فرمائی۔ڈاکٹر صاحب نے نوجوان نسل کو کتب خانوں اور لائیبریریوں سے جوڑنے کے لیے جدید طرز پر جو عظیم کارنامے انجام دیے وہ رہتی دنیا تک طالبانِ علم کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔
ڈاکٹر انیس خورشید آج ہم میں موجود نہیں ہیں لیکن ڈاکٹر انیس کسی ایک فر د کا نام نہیں بلکہ ایک تحریک‘ ایک مشن‘ ایک جہد مسلسل کا نام ہے۔ آج دنیا بھر میں موجود اُن کے ہزاروں فرزندانِ علم و فراست اور ان کے ہونہار صاحبزادگان اُن کے مشن کو بہت کامیابی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں یہاں پر خاص طور پر اُن کے سعادت مند صاحبزادے شفیق اجمل میاں کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھوں گا جنہوں نے نہایت محنت و جانفشانی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے علم و عمل کی اس تحریک کو درسِ قرآن ڈاٹ کام (Dasequran.com) کی ویب سائیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں عام کردیا ہے اور یقینا یہ ڈاکٹر انیس خورشید کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔