جامعۃ الرشید : روایت، تہذیب اور جدت کا حسین امتزاج

تحریر: نعیم اشرف
گزشتہ ہفتے جامعة الرشید اور الغزالی یونیورسٹی میں پاکستان کے جھنڈے تلے المنائے ایسوسی ایشن کے اشتراک سے گریجویٹ طلبہ کے اعزاز میں ایک پُروقار یوتھ کنونشن منعقد ہوا، جس میں المنائے ایسوسی ایشن کی دعوت پر شرکت کا موقع ملا۔ اس تقریب نے نہ صرف روحانی بالیدگی عطا کی بلکہ ایک نئے تعلیمی ماڈل سے روشناس بھی کرایا جو روایت، تہذیب اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔
جامعہ کی تعلیمی اور تربیتی فضا کو دیکھ کر یہ احساس شدت سے اُبھرا کہ مشرق اور مغرب کی علمی دنیا کا فاصلہ یہاں سمٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جو روشنی کبھی مغرب سے آتی تھی اب وہی نور کراچی سے بھی پھوٹ رہا ہے اور بعید نہیں کہ آنے والے برسوں میں یہ ادارہ عالمی سطح پر بھی علمی و فکری قیادت کا مرکز بن کر ابھرے۔
یہ بات کہی جاتی ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام دو متوازی دھاروں میں بٹ چکا ہے۔ ایک طرف دینی مدارس جہاں دین کی ترویج اور مذہبی علوم کی تدریس تو ہوتی ہے مگر طلبہ کی عملی زندگی سے ہم آہنگی کا پہلو اکثر کمزور رہتا ہے۔ دوسری طرف جدید تعلیمی ادارے جہاں دنیاوی مہارتیں تو فراہم کی جاتی ہیں لیکن اخلاقی اور روحانی تربیت کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ یہ خلیج محض فکری نہیں بلکہ قومی وحدت کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ اسی پس منظر میں جامعة الرشید الغزالی یونیورسٹی ایک روشن مثال بن کر ابھری ہے، جس نے اس فکری اور عملی تقسیم کو مٹانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ ادارہ ایک ایسا ہمہ گیر تعلیمی ماڈل پیش کر رہا ہے جو دین اور دنیا، مسجد اور یونیورسٹی، جبہ و دستار اور سوٹ و ٹائی سب کو ایک ہی قالب میں ڈھالنے کی سعی کر رہا ہے۔
یہاں نہ صرف ناظرہ قرآن، حفظ، تجوید، درسِ نظامی اور تخصصات کی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ وہی طلبہ او لیول، اے لیول، بی بی اے، ایم بی اے، لاء، اسلامی بینکنگ اور آئی ٹی جیسے جدید مضامین میں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ اپنے نصاب اور تدریسی انداز سے یہ پیغام دیتا ہے کہ دینی تعلیم کا حصول ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ رہنمائی کا چراغ ہے۔ جس طالب علم نے فقہ اور حدیث بھی پڑھی ہو اور ساتھ ہی اکنامکس، قانون اور بین الاقوامی تعلقات بھی، وہ نہ صرف معاشرے کا بہتر فرد بن سکتا ہے بلکہ ایک مو¿ثر قائد بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ جامعہ کی منفرد پہچان صرف اس کا تعلیمی ماڈل نہیں بلکہ اس کا تربیتی ماحول بھی ہے جو سخت نظم و ضبط، خود اعتمادی اور کردار سازی پر مبنی ہے۔
یہاں کے طلبہ کے روز و شب کسی ملٹری اکیڈمی کی مشقوں سے کم نہیں۔ جسمانی فٹنس، وقت کی پابندی، تقریری و تحریری تربیت، اور سماجی و اخلاقی شعور کی آبیاری کا ایسا مربوط نظام ہے جو طلبہ کو صرف ایک سند یافتہ گریجویٹ نہیں بلکہ ایک مکمل انسان بنا کر میدانِ عمل میں بھیجتا ہے۔ یہی تربیت ہے جس کی بدولت یہاں کے کئی فارغ التحصیل طلبہ نہ صرف ملکی و غیر ملکی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں بلکہ بعض نوجوان پاکستان کی مسلح افواج میں کمیشنڈ آفیسرز کے طور پر بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ یہ صرف ایک کامیابی نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ مدارس بھی قوم کے نظام میں کلیدی کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اگر انہیں وژن، قیادت اور سہولت میسر آ جائے۔ جامعہ کی اس انقلابی پیش رفت کے پس منظر میں حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب کی بصیرت افروز قیادت اور علمی دور اندیشی کا بڑا عمل دخل ہے۔ وہ نہ صرف ایک جید عالم دین اور فقیہ ہیں بلکہ ایک ماہرِ تعلیم، ادارہ ساز اور سماجی مصلح بھی ہیں۔ ان کی قیادت میں یہ ادارہ محض علماءیا مفتیان تیار نہیں کررہا بلکہ ایسے رجالِ کار پروان چڑھا رہا ہے جو مختلف قومی و عالمی میدانوں میں اسلامی فکر اور جدید تقاضوں کو یکجا کر کے راہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جامعة الرشید الغزالی یونیورسٹی آج صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے۔ ایسا نظریہ جو خلوص نیت، فکری وسعت، تعلیمی توازن اور تربیتی حکمتِ عملی پر مبنی ہے۔
یہ ماڈل نہ صرف دینی مدارس بلکہ ملکی جامعات کے لیے بھی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے جو پاکستان کو فکری جمود سے نکال کر ایک بیدار، باکردار اور علم دوست معاشرہ بنانے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ وقت کی پکار ہے کہ حکومت، دینی بورڈز، نجی جامعات اور پالیسی ساز ادارے اس ادارے کے ماڈل کو سنجیدگی سے پرکھیں۔ اگر قومی تعلیمی پالیسی میں جامعة الرشید جیسے ماڈلز کو شامل کر لیا جائے تو پاکستان کا تعلیمی نظام محض نوکری پیدا کرنے والی فیکٹری کے بجائے ایسی لیڈر شپ پیدا کرے گا جو قوم کو فکری، اخلاقی اور عملی بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ جامعة الرشید الغزالی یونیورسٹی ہمارے تعلیمی، سماجی اور قومی منظرنامے پر ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک فکر، ایک تحریک اور ایک عملی وژن ہے جو پاکستان کو صرف ایک ترقی پذیر ریاست کے درجے سے بلند کر کے ایک فکری و اخلاقی قیادت کی حامل ریاست میں تبدیل کرنے کی سمت رواں دواں ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم ایسے اداروں کو فقط سراہتے رہیں یا ان سے سیکھ کر ایک نئے قومی تعلیمی بیانیے کی تشکیل کا آغاز بھی کریں۔