رپورٹ: علی ہلال
سعودی عرب کے مفتی اعظم اور پینتیس سال تک مسجد نمرہ میں خطبہ حج دینے والے شیخ عبد العزیز بن عبداللہ آل الشیخ 82 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ سعودی عرب کے شاہی دیوان کی جانب سے ان کی وفات کی خبر جاری کی گئی۔ ان کی نماز جنازہ ریاض کی جامع مسجد ترکی بن عبد اللہ میں ادا کی گئی جبکہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود کی خصوصی ہدایت پر مسجد حرام اور مسجد نبوی سمیت سعودی عرب کی تمام مساجد میں بعد نماز عصر مفتی اعظم کی غائبانہ نماز جنازہ اداکی گئی۔
پیر 23 ستمبر کو انتقال کرنے والے سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ شیخ عبدالوہاب کے پوتے تھے۔ وہ سعودی عرب کے سب سے مضبوط ترین مذہبی خاندان آل الشیخ کے چشم و چراغ تھے۔ 1943ء میں ریاض میں پیدا ہونے والے شیخ عبدالعزیز آل سعود دور حکومت میں حج کے سب سے زیادہ خطبے دینے والے خطیب تھے۔ انہوں نے 1982ء سے 2015ء تک مسلسل پینتیس برس حج کے خطبے دیے۔ وہ سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کے سربراہ اور سعودی عرب کی سپریم علماءکونسل کے سربراہ تھے۔مرحوم مفتی اعظم آل سعود خاندان کے دور حکومت میں مسجد نمرہ میں خطبہ حج دینے والے چھٹے خطیب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے تھے۔ ان کا خطبہ پینتیس برس تک دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان سنتے رہے ہیں۔
1943 ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہونے والے شیخ عبدالعزیز رحمہ اللہ کم عمری میں ہی والد کے انتقال کے صدمے سے دوچار ہوئے۔ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت اس دور کے ممتاز علماءنے سنبھالی۔ شیخ عبدالعزیز نے ریاض کے علمی انسٹیٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی اور بعدازاں جامعہ کی شریعہ فیکلٹی سے 1964ء (1384ھ) میں فراغت حاصل کی۔ انہوں نے تدریسی سفر کا آغاز امام الدعوة انسٹیٹیوٹ سے کیا جس کے بعد شریعہ فیکلٹی سے منسلک ہوئے اور مختلف علمی مناصب پر خدمات انجام دیں، جن میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر شامل ہیں۔ اس دوران انہوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی متعدد تحقیقی مقالات کی نگرانی بھی کی۔ 1987ء (1407ھ) میں انہیں سعودی عرب کی ’ہیئتِ کبار العلمائ‘ سعودی عرب کی سپریم علماءکونسل کا رکن مقرر کیا گیا۔ بعدازاں وہ مملکت کے مفتیِ اعظم اور ہیئتِ کبار العلماءو تحقیقاتِ علمی و افتاءکے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شیخ عبدالعزیز اپنے وسیع فقہی علم، اعتدال پسندی اور اُمت کی رہنمائی میں نمایاں کردار کے باعث شہرت رکھتے تھے۔
سعودی عرب میں مفتی اعظم کا عہدہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور بادشاہ و ولی عہد کسی بھی اہم کام میں مفتی اعظم کی سرپرستی میں علماءکونسل سے مشورہ لیتے ہیں۔ اس وجہ سے مفتی اعظم کا منصب خالی نہیں رکھا جاتا۔ امید کی جارہی ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں یا دنوں میں شاہ سلمان کی جانب سے شاہی فرمان جاری ہوگا جس میں نئے مفتیِ عام کا تقرر کیا جائے گا۔ یہ عہدہ شاہی فیصلے کے تحت منتخب کیا جاتا ہے اور مملکت کے سب سے اہم مذہبی مناصب میں شمار ہوتا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ نئے مفتی کے انتخاب میں دینی علوم میں مہارت کے ساتھ دیگر بھی متعدد عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ علمی معیار سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔ امیدوار کا علم، تقویٰ اور شرعی فتاویٰ صادر کرنے کی حکمت و بصیرت بنیادی شرط قرار دی جارہی ہے۔ فتویٰ دینے والے اداروں، خصوصاً ہیئتِ کبار العلماءیا اللجنة الدائمة للافتاءمیں عملی تجربہ بھی ایک اہم معیار سمجھا جارہا ہے، کیونکہ ان اداروں کے اراکین کو فتوے کی نوعیت، اس کے انتظام اور اس کے اثرات کا براہِ راست علم ہوتا ہے۔ امیدوار کا تعلق مو¿ثر مذہبی خاندان، خصوصاً آلِ شیخ سے ہونا بھی ایک پہلو ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ یہ فیصلہ کن عنصر نہیں لیکن تاریخی روایت اور مذہبی ورثہ اس منصب کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست اور علماءکی قبولیت بھی ناگزیر ہے جو دراصل ’شرعی و ادارہ جاتی وفاداری‘ کا اظہار ہے۔
ایک اور اہم پہلو عوام سے براہِ راست رابطہ اور جدید مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہے۔ آج کے دور میں فتاویٰ سماجی علوم، میڈیا اور قانونی پہلوو¿ں سے جڑے ہوتے ہیں، اس لیے نئے مفتی کو مضبوط سماجی شعور اور مناسب ابلاغی مہارت کا حامل ہونا ضروری ہے۔ عمر کے اعتبار سے بھی توازن درکار ہے؛ امیدوار اتنا بڑا ہو کہ منصب کا وقار قائم رکھ سکے لیکن اتنا زیادہ عمر رسیدہ نہ ہو کہ موجودہ اور مستقبل کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہو۔عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے اگلے مفتی اعظم کے ممکنہ امیدواروں میں کئی نمایاں شخصیات شامل ہیں۔ ان میں شیخ عبداللہ بن محمد آلِ شیخ، جو ہیئتِ کبار العلماءکے رکن اور آلِ شیخ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، نمایاں نام کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ اسی طرح شیخ صالح بن الفوزان اپنی علمی حیثیت اور طویل فتویٰ تجربے کے باعث اعلیٰ درجے کے امیدوار تصور کیے جاتے ہیں۔
دیگر ناموں میں شیخ عبداللہ بن سلیمان المنیع، جو وسیع علمی تجربے اور عوامی و ابلاغی قبولیت رکھتے ہیں اور شیخ سعد بن ناصر الشثری، جو اپنے علمی کام اور فتاویٰ کی بدولت شہرت رکھتے ہیں، شامل ہیں۔ تاہم اب تک کسی نام کی باضابطہ تصدیق سامنے نہیں آئی ہے اور واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ حتمی فیصلہ سیاسی، دینی اور عوامی عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہوگا جبکہ تقرری میں بادشاہ کا فیصلہ‘ فیصلہ کن حیثیت رکھے گا۔ تقریباً تین سو سال سے سعودی عرب کے منظرنامے پر دو نمایاں خاندانوں کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ آلِ سعود اور آلِ شیخ۔ دونوں فریقوں نے باہمی طور پر اقتدار کی تقسیم اور ایک دوسرے کی حمایت پر اتفاق کیا۔ پہلا خاندان سیاسی اُمور سنبھالتا ہے جبکہ دینی، اخلاقی، سماجی اور تعلیمی اختیارات آلِ شیخ خاندان یعنی شیخ محمد بن عبدالوہاب کے جانشینوں کو سونپے گئے۔ 1744ء میں سعودی عرب کے حالیہ دارالحکومت ریاض کے قریب الدرعیہ نامی بستی اس وقت سعودی خاندان کا دارالحکومت تھا۔ اس علاقے میں آل سعود خاندان کے امیر محمد بن سعود نے اس وقت کے جزیرہ عرب کے مشہور عالم دین شیخ عبدالوہاب کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت دینی امور کی اتھارٹی آل الشیخ خاندان کو سونپی گئی تھی جبکہ اقتدار آل سعود خاندان کے ہاتھ میں تھا۔ آل سعود خاندان نے اب تک اس معاہدے کو نبھایا ہے اسے میثاق شرعیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پیش نظر اگلے مفتی اعظم کا تعلق بھی آل الشیخ خاندان سے ہوگا۔
