آئین پاکستان ایک اسلامی دستور (مولانا نعمان نعیم)

آئین پاکستان کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ’’آئین مجریہ 1973ء ‘‘بھی کہتے ہیں۔ اس کے مطابق پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔ آئین میں قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا کر واضح کیا گیا کہ کل کائنات کامقتدر اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے ۔اقتدار پاکستان اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اسلام سرکاری مذہب ہوگا۔ وزیر اعظم اور صدر مملکت کے لئے مسلمان ہونا لازم ہوگا۔

دستور ۱۹۷۳ء میں مسلمان کی تعریف واضح گئی کہ وہ توحید و رسالت ،قیامت اور اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لائے اور حضرت محمدﷺکو آخری نبی مانتا ہو ۔آئین نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا ۔تمام مسلمان بچوں کو اسلامی تعلیمات ،قرآن و سنت کی لازمی تعلیم دینے کا عہد کیاگیا ۔ عہد کیا گیا کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی کا م نہ ہوگا، نیز غیر مسلم اقلیتوں کےشخصی قانون اس سے متاثر نہ ہوں گے۔

اقلیتوں کے لئے حقوق کے تحفظ اور انہیں مذہبی وثقافتی آزادی دی جائےگی۔اسلامی جمہوریت کی آخری بنیاد شہریوں کے حقوق و فرائض کا تعین ہے اور اسلامی سیاست کی بنیاد یہ ہے کہ ان حقوق میں در اندازی کا حق کسی کو نہیں ہے۔ یہ تمام حقوق اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ ہیں اور کسی شرعی دلیل یا حق کے بغیر ان میں سے کسی پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی، یا ان میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا۔

آئین پاکستان کی روسےریاست کے غیر مسلم شہریوں کو تمام بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں، انہیں مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی حاصل ہے۔جو کوئی ہمارا ذمّی ہو، اس کا خون ہمارے خون کی طرح اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح اور ان کا مال ہمارے مال کی طرح ہوں گے۔آئین کی رو سے مسلمان سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کو ایک مانے، آسمانی کتابوں پر ایمان لائے، فرشتوں، یوم آخرت اور انبیائے کرامؑ پر ایمان رکھے اور حضوراکرمﷺ کو اللہ کا آخری نبی تسلیم کرے۔ جو شخص ختم نبوت ﷺ کا منکر ہوگا، وہ دائرۂ اسلام سے خارج تصور کیا جائے گا۔

دستور میں ریاست کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے، دستور کی رُو سے ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور دستور پاکستان کی رو سے قراردادِ مقاصد ملک کا جوہری اور اساسی قانون ہے اور اس کی دفعات مؤثر و نافذالعمل ہیں۔ کائنات میں اقتدارِ اعلیٰ کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے۔ملک کا قانون قرآن و سنت پر مبنی ہو گا اور کوئی بھی قانون یا انتظامی حکم نامہ، جو قرآن و سنت کے منافی ہو، نافذالعمل نہیں ہوگا‘‘۔ پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے، جن کی مدد سے وہ قرآنِ پاک اور سنت رسول ﷺکے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں‘‘۔

دستور پاکستان ریاست کو اس امر کا پابند بناتا ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآنِ پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا، جن کا اس حصے میں بطورِ اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہے اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا، جو مذکورہ احکام کے منافی ہو‘‘۔ دستور میں اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل، اس کے ارکان کی اہلیت اور تمام طریقہ کارکا ذکر ہے۔

اس کی رُو سے حکومت پر لازم ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی حتمی سفارشات کو پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کرے اور پھر اس کے مطابق قانون سازی کی جائے، لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا۔ پس ہمارے ہاں آئین کی تقدیس کا نعرہ تو بہت لگایا جاتا ہے، لیکن لفظاً و معناً آئین کی روح پر عمل نہیں ہوتا۔ پھر آئین میں ایک طرف قرآن و سنت کی بالادستی کا اقرارومیثاق ہے اور اسی کے ساتھ ایسی دفعات بھی موجود ہیں جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتیں، جبکہ قرآن و سنت کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف حالتِ جنگ بلکہ عین میدانِ جنگ میں اپنے آپ کو قصاص کے لئے پیش فرمایا۔

اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو مقدمے کے فریقِ مخالف کے ساتھ مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش کیا۔ ایک حدیثِ پاک میں ہے: حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے (اپنے قرض کی واپسی کا) تقاضا کیا اور (مطالبے میں) سختی کی، اس پر صحابۂ کرام ؓنے (اس کو ڈانٹنے یا مارنے کا) ارادہ کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیونکہ جس کا کسی پر حق ہو، اس کے لئے بات کرنے (یعنی سختی کے ساتھ مطالبہ کرنے) کی گنجائش ہوتی ہے ۔ (صحیح بخاری:2390)

چونکہ اسلامی تعلیمات کا یہ تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزاریں اور پاکستان اسی لئے بنایا گیا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ بنے۔ہمارے حکمرانوں کی یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ فرد کو بھی شریعت پر عمل کے قابل بنائیں اور معاشرے اور ریاست کو بھی شریعت کے مطابق چلائیں۔ دینی عناصر کا بھی فرض ہے کہ وہ دعوت و اصلاح اور تبلیغ و تذکیر کے ذریعے فرد کی بھی تربیت کریں، حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی دینی ذمہ داریاں پوری کریں اور جہاں تک قانون اجازت دے، خود بھی نفاذِ شریعت کے لئے ضروری اقدامات کریں۔

اسی طرح ہر مسلمان کی یہ ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرے۔ دستور پاکستان کے قابل نفاذ حصے میں بصراحت یہ لکھا جائے کہ قرآن و سنت مسلمانوں کا سپریم لاء ہے اور اس تصریح سے متصادم قوانین کو منسوخ کر دیا جائے۔یہ دستوری انتظام بھی کیا جائے کہ عدلیہ کی طرف سے دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہو گی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔

پاکستان کے قانونی ڈھا نچے میں پہلے سے موجود اسلامی قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد کیا جائے اور اسلامی عقوبات کے نفاذ کے ساتھ ساتھ مؤثر اصلاحی کو ششیں بھی کی جائیں ۔اسلامی اصول و اقدار کے مطابق عوام کو بنیادی ضروریات وسہولیات زندگی مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، علاج معالجہ اور تعلیم فراہم کرنے، غربت و جہالت کے خاتمے اور عوامی مشکلات و مصائب دور کرنے اور پاکستانی عوام کو دنیا میں عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے قابل بنانے کو اولین ریاستی ترجیح بنایا جائے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے لئے ایک آزاد اور طاقتور ریاستی ادارہ قائم کیا جائے جو ملک میں اسلامی معروفات اور نیکیوں کے فروغ اور منکرات و برائیوں کے خاتمے کے لئے کام کرے اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرے جس میں نیکی پر عمل آسان اور برائی پر عمل مشکل ہوجائے اور شعائر اسلامی کا احیاء و اعلاء ہواوردستور کے آرٹیکل 31میں جن امور کا ذکر کیا گیا ہے، ان پرمؤثر عمل در آمد ہو سکے ۔ دفاع اسلام خصوصاً اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات کے ازالے اور مسلمانوں و غیر مسلموں تک مؤثر انداز میں دین پہنچانے کے لئے بھی حکومت کواپنے وسائل بروئے کار لانے چاہئیں۔

دستورپاکستان کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ شریعت اسلامیہ سے متصادم ہے، دستور پاکستان سے ناواقفیت کی علامت ہے۔اس لئے کہ دستور پاکستان کی بنیاد عوام کی حاکمیت اعلیٰ کے مغربی جمہوری تصور پر نہیں،بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلی کے اسلامی تصور پر ہے۔ جس پردستور کی بہت سی دفعات شاہد ہیں۔ یہ دستور اس وقت پاکستان کی وحدت کی اساس ہے ۔خدانخواستہ دستور کی نفی کر دی گئی تو ملک کو متحد رکھنے کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہے گی اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت و سالمیت کو خدا نخواستہ دائو پر لگانے کا کسی مسلمان کو رسک نہیں لینا چاہئے۔ اس دستور کی تشکیل و تدوین میں ملک کی تمام دینی و سیاسی قوتیں شریک رہی ہیں اور اب بھی وہ اس پر متحد و متفق ہیں۔

یہ دستور جب 1973 کے دوران ترتیب دیا جا رہا تھا تو اس وقت اسے مرتب ومدون کرنے میں دوسرے بہت سے قومی رہنما ئوں کے ساتھ دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے طور پر علمائےکرام اور مشائخ عظام اور ان سب بزرگوں کے اس پردستخط ہیں۔ ہمیں اپنے ان عظیم المرتبت اکابر کے موقف سے انحراف اور ان کی کاوشوں کی نفی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے اور دستور پاکستان کی پاسداری کا واضح اعلان کرنا چاہئے۔

اسلام نے کوئی بھی ایک مخصوص نظام حکومت مسلمانوں پر فرض قرار نہیں دیا اور نہ نفاذاسلام کا مطلب کسی مخصوص نظام کا قیام ہے، بلکہ نفاذ اسلام دراصل اسلامی قوانیں، اصول و ضوابط اور اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنے کا نام ہے۔ چنانچہ اگر ان جمہوری اصولوں کو جو اسلام سے متصادم ہیں کو اسلامی اصولوں سے بدل دیا جائے جیسے کے عوامی حاکمیت کے مغربی تصور کو ہمارے آئین میں رد کیا گیا ہے اور قانون سازی کا قرآن و سنت کے مطابق ہونا لازم قرار دیا گیا ہے تو جمہوریت نفاذاسلام میں کسی طور کوئی رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ اگر خالص جمہوری اصولوں کی نگاہ سے دیکھا جائے تو خود جمہوری اصولوں کا تقاضا ہے کہ ہمارے ہاں اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جائے، اس لیے کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں پاکستان غالب مسلم اکثریت والا ملک ہے اور عوام کی یہ اکثریت ملک میں ایک حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کی تمنا و خواہش ہی نہیں بلکہ مستقل رائے بھی رکھتی ہے۔

اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اسلامی قانون سازی کے وقت ہر شعبہ زندگی کو اسلامی نظام کے تحت ڈھالنے کے لئے قانون بنانا ضروری ہے۔ معاشرت، سیاست، تعلیم ، اقتصادیات، غرض ہر شعبہ حکومت کو اسلامی احکام وہدایات کے مطابق ڈھالے جانے کے متعلق قانون سازی کی جائے۔ مغربی تہذیب و معاشرت کی بجائے اسلامی تہذیب و معاشرت کا رواج عام کیا جائے۔ نماز دین کا بنیادی ستون ہے۔یہ برائیوں اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے ۔ایسا قانون بنایاجائے کہ ملک کے ذمہ دار عہدوں پر فائز افسران بشمول امیدواران پانچ وقت کے نمازی ہوں۔

اگر وہ فرائض کے پابند ،گناہ کبیرہ سے بچنے والے اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرتے ہوں۔ ان کا نیکیوں کا پہلو ان کی برائیوں کے پہلو پر غالب ہوتواس صورت میں انہیں عہدوں پر بحال رکھا جائے اور ترقی کے مواقع فراہم کئے جائیں ورنہ ان کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔اسلامی جموریہ پاکستان میں اسلامی نظام کو مستحکم کرنے کے لئے قضاء ،افتاء،شرطہ (پولیس)حسبہ اور دیوان المظالم کے ادارے قائم کئے جائیں۔ ناظم صلوٰۃ کو حسبہ میں شامل کرکے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ڈیوٹی ان کے سپر د کی جائے۔

اسلامی ریاست مدینہ میں حضورﷺ نے بھی اسلامی قوانین بتدریج نافذ کئے اور اب بھی پاکستان میں اسلامی قانون بتدریج نافذ ہونے ضروری ہیں ۔جس نظام میں تبدیلی آہستہ آہستہ اور بتدریج لائی جائے تو وہ نظام دیر پا ہوتا ہے۔اسلامی قانون پر وسیع نظر رکھنے والوں کو محنت اور تیاری کے لئے کافی وقت مل جاتا ہے۔ نیز اجتماعی اجتہاد سے لوگوں کا قانون پر اعتماد بحال ہوجاتاہے۔

آئین پاکستان کی دینی و شرعی حیثیت کے پیش نظر مملکتِ خداداداسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن و سنت کی بالادستی اور نفاذِ شریعت کی جدوجہد ایک دینی اور بنیادی تقاضا ہے۔ نیز اسی تقاضے اور دو قومی نظریے کی بنیاد پر مملکت ِخداداد کا وجود عمل میں آیا جہاں اسلامی نظام کا نفاذ اور قرآن و سنت کی بالادستی اسلامیان پاکستان پر ایک فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں، جب یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔