مسعود احمد برکاتی
برسوں پرانی بات ہے، کئی سو برس پرانی۔ کسی دریا کے کنارے ایک لڑکا رہتا تھا۔ نام تھا اس کا دلارا۔ اس کی عمر بارہ سال ہوگی۔ دلارا یتیم تھا، یعنی صرف اس کی ماں تھی۔ ماںکی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے، اس لیے وہ چاہتی تھی کہ دلارا خوب پڑھے۔ وہ اس کو بتاتی کہ علم حاصل کرکے ہی وہ اچھا اور بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ ماں نے اس کے لیے ایک استاد کا انتظام کیا تھا۔ استاد بہت قابل آدمی تھے مگر بہت سنجیدہ بھی تھے۔ جب دلارا سبق یاد نہ کرتا تو وہ اس کی پٹائی کرتے۔
ایک دن دلارا کو سبق یاد نہ ہوا۔ اب تو وہ بہت ڈرا کہ ماسٹر صاحب تو بخشنے والے ںہیں۔ وہ کوئی بہانہ نہیں سنتے۔ سبق کتنا ہی مشکل ہو، یاد ہونا چاہیے۔ بات یہ تھی کہ دلارے نے کام چوری کی تھی نہ وہ کھیل کود میں لگا تھا۔ وہ بے چارا تو گھنٹوں بیٹھا سبق یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن سبق یاد نہ ہوسکا۔ اصل بات یہ تھی کہ جب ماسٹر صاحب نے پڑھایا تو وہ سمجھ نہ سکا تھا۔ جو چیز سمجھ میں نہ آئے، وہ یاد کیسے ہوسکتی ہے!
خیر سوچتے سوچتے دلارے نے فیصلہ کیا کہ وہ آج گھر سے نکل جائے، نہ ماسٹر صاحب کے سامنے جائے گا نہ پٹے گا۔
یہ سوچ کر وہ چل کھڑا ہوا۔ دریا کے قریب پہنچ کر اسے ایک غار نظر آیا۔ دلارا اس غار میں جا چھپا۔ پورا دن گزر گیا۔ رات آئی تو وہ بھوک سے شدید پریشان ہونے لگا لیکن اس نے سوچا کہ پٹنے سے بھوکا رہنا اچھا ہے۔ آخر اگلی صبح اس کی پریشانی بڑھنے لگی۔ کبھی وہ سوچتا کہ گھر واپس پہنچ جائے اور ماسٹر صاحب اور ماں کی مار برداشت کرلے، کبھی دل میں کہتا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ بھاگ آئے تو بھاگ آئے۔ ذلت سے بھوک اچھی۔ دوسرا دن ڈوبنے لگا تو اس کے خیالات گھر واپس جانے کی طرف مائل ہوگئے۔
’’بھوک سے پٹائی اچھی۔‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔
یہ الفاظ منہ سے نکلے ہی تھے کہ دو چھوٹے چھوٹے آدمی غار کے اندر داخل ہوئے۔ انھیں دیکھ کر دلارے کو ڈر لگا لیکن انھیں غور سے دیکھا تو ان کے پاس پھلوں کی ٹوکری اور دودھ کا پیالہ نظر آیا۔ انھوں نے یہ چیزیں دلارے کی طرف بڑھائیں اور کہا:
’’ہمارے خیال میں آدمی کو نہ بھوکا رہنا چاہیے نہ پٹنا چاہیے۔‘‘
’’ہاں، یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ آپ کابہت بہت شکریہ!‘‘
یہ کہہ کر دلارے نے جلدی جلدی پھل کھانا شروع کیے۔ پھل جنگلی تھے لیکن اس نے اتنے میٹھے ذائقے دار پھل کبھی نہیں کھائے تھے۔ جب وہ خوب کھا پی چکا تو اُن آدمیوں نے کہا کہ ہمیں تم سے ہمدردی ہوگئی ہے، اگر تم ہمارے ساتھ چلو تو ہم تمھیں ایک ایسی دنیا میں لے چلیںگے جہاں ہر شخص ہمیشہ خوش رہتا ہے، کسی کو کوئی غم نہیں ستاتا۔
دلارے کو یہ بات بڑی اچھی معلوم ہوئی۔ وہ ماں اور ماسٹر صاحب کے ڈر سے گھر واپس جانا نہیں چاہتا تھا، جھٹ ان کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا۔ اُن آدمیوں نے غار کے اندر ہی اندر چلنا شروع کیا۔ دلارا بھی ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ بہت دیر تک چلنے کے بعد وہ ایک نئی جگہ پہنچ گئے۔ یہ ایک دوسری ہی دنیا تھی۔ ایک اجنبی لیکن خوبصورت دنیا۔ اس ملک میں دریا تھے، باغات تھے، بڑے بڑے درخت اور رنگین پھول پودے تھے، سرسبز وشاداب جنگل اور میٹھے پانی کے چشمے تھے۔ خوشبو سے ناک معطر اور خوبصورت مناظر سے آنکھیں ٹھنڈی ہوتی تھیں۔
یہ ننھے منے آدمی دلارے کو اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ اُن آدمیوں سے تو لمبا تھا،مگر پھر بھی دلارے سے بہت چھوٹا تھا۔ خود اس کی زندگی کے بارے میں بھی بادشاہ نے بہت سے سوالات کیے۔ خاص طور پر دلارے کی پڑھائی، اس کی ماں اور ماسٹر صاحب سے اس کی پٹائی کا حال سن کر تو بادشاہ کو بہت مزہ آیا۔ اس نے کہا:
’’ہماری دنیا میں بچوں کو کبھی نہیں پیٹا جاتا۔ ہمارے ساتھ رہو، تم سے ایک شہزادے کی طرح سلوک کیا جائے گا، تم آزاد ہوگے، جتنا چاہو کھیلو کھودو لیکن اگر دل چاہے تو میرے بیٹے کے ساتھ پڑھ لینا۔ تعلیم ایک شہزادے کے لیے ہی ضروری نہیں، بلکہ ایک عام آدمی کے لیے بھی مفید ہے۔‘‘
دلارے کو یہ باتیں بڑی اچھی لگیں۔ اس نے خوشی خوشی وہاں رہنے اور شہزادے کے ساتھ پڑھنے کا وعدہ کرلیا۔
دلارا اس نئی دنیا میں رہنے لگا، ننھی منی دنیا میں جہاں کے سب لوگ چھوٹے چھوٹے تھے۔ وہ شہزادے کے ساتھ پڑھتا بھی اور سونے کی گیند سے کھیلتا بھی تھا۔ شہزادہ بادشاہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ یہ ننھے منے انسان عام انسانوںسے زیادہ حسین تھے۔ ان کے پاس گھوڑے تھے، گائیں تھیں اور دوسرے تمام جانور تھے جو ہماری دنیا میں ہوتے ہیں لیکن سب کے قد ایسے ہی پست قد تھے جیسے وہاں کے انسانوں کے۔ ان کی غذا سبزیاں، پھل اور دودھ تھا جنھیں پکا کر مزے سے کھاتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ شریف، شائستہ اور ایک دوسرے سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔ نہ آپس میں لڑتے جھگڑتے تھے اور نہ کسی کو دھوکا دیتے تھے۔ سچ بولتے تھے اور دیانت داری سے زندگی بسر کرتے تھے۔ انھیں دیکھ کر دلارے نے بھی ویسا ہی بننے کا ارادہ کرلیا۔
ایک سال گزر گیا۔ اس عرصے میں دلارا کئی بار اپنی دنیا میں بھی گیا۔ پہلی بار تو انھی دو ننھے آدمیوں نے دلارے کو راستہ دکھایا، بعد میں دلارے کو تنہا جانے کی اجازت دے دی گئی۔
پہلی بار جب دلارا اپنے گھر پہنچا تو اس کی ماں خوشی کے مارے رونے لگی۔ وہ تو اس کی طرف سے مایوس ہوکر صبر کرچکی تھی۔ اسے زندہ دیکھ کر ماں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ماں نے بڑی حیرت سے دلارے کی زبان سے اس اجنبی دنیا کے حالات سنے۔ جب دلارے نے بتایا کہ وہ شہزادے کے ساتھ تعلیم حاصل کررہا ہے تو ماں نے اسے دوبارہ اس نئی دنیا میں جانے سے نہ روکا۔
پھر وہ جب بھی گھر آتا، اپنی ماں کو اجنبی دنیا کے حالات بتاتا۔ وہاں کے پست قد انسانوں کی خوبیاں بیان کرتا۔ اُن کی زندگی کا حال سناتا۔ ایک دن اُس نے کہا:
’’اُن لوگوں کے کھانے کی رکابیاں اور پیالیاں بھی سونے کی ہیں۔‘‘
’’کیا؟ روزمرہ استعمال کے برتن بھی سونے کے ہیں؟‘‘
اس کی ماں کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا۔
’’جی ہاں، ان کے پاس سونے کے سوا کسی اور چیز کے برتن ہیں ہی نہیں۔ جس گیند سے میں شہزادے کے ساتھ کھیلتا ہوں، وہ بھی سونے کی ہے۔‘‘
’’سونے کی گیند!‘‘ ماں کو اور بھی تعجب ہوا۔ ایک منٹ کے لیے تو اس پر سکتہ سا طاری ہوگیا، پھر اس نے کہا:
’’کیا تمھیں اپنی ماں سے واقعی محبت ہے؟‘‘
’’واقعی مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔‘‘
’’تو پھر تم میرا ایک کام کردو گے؟‘‘
’’ضرور، مجھے آپ کی خدمت کرکے خوشی ہوگی، کام کیاہے؟‘‘
’’میں چاہتی ہوں کہ وہ سونے کی گیند تم مجھے لا کر دکھا دو۔‘‘
یہ سن کر دلارا پریشان ہوگیا مگر وہ اپنی ماں سے وعدہ کرچکا تھا اور پھر اجنبی دنیا میں سونے کی کمی بھی نہ تھی۔
دوسرے دن جب وہ شہزادے کے ساتھ پڑھائی ختم کرچکا تو اس نے شہزادے سے کہا: ’’اب ہم گیند کھیلیں گے۔‘‘
’’ضرور!‘‘
کھیل کے دوران دلارے کا دماغ بوجھل رہا اور دل بھی دھک دھک کرتا رہا، تھوڑی دیرکے بعد اس نے کہا، کہ بس اب کھیل ختم کرنا چاہیے، ہم کافی کھیل لیے۔ شہزادے نے یہ سن کر گیند دلارے کے پاس پھینکی اور محل میں جانے کے لیے مڑا۔ اُدھر وہ مڑا، اِدھر دلارے نے گیند اپنی جیب میں رکھ لی اور غار کی طرف روانہ ہوگیا، تھوڑی ہی دیر میں اس نے کسی کی آہٹ سنی، جیسے کوئی اس کے پیچھے آرہا ہو۔ دلارے نے قدم تیز کیے مگر پیچھے آنے والے اور قریب آتے گئے اور آوازیں آنے لگیں:
’’گیند واپس کردو! گیند واپس کردو!‘‘
دلارے نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے دونوں چھوٹے دوست اس کے پیچھے دوڑے چلے آرہے تھے۔ دلارا بھی تیز دوڑنے لگا، لیکن وہ دونوں آدمی اس کے قریب ہی ہوتے گئے۔ جب دلارا غار کے پاس پہنچا تو دونوں اس سے آملے۔ غار کا دہانہ بہت نزدیک آگیا تھا۔ دن کی روشنی نظر آنے لگی تھی لیکن یکایک اسے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ گر پڑا۔ اس کی جیب سے گیند نکل کر ایک طرف لڑھک گئی اور ان آدمیوں کے ہاتھ لگ گئی جو اس کے پیچھے آرہے تھے۔
دلارا آہستہ سے اٹھا مگر شرم کے مارے وہ اپنے دوستوں سے آنکھیں نہیں ملا سکا۔ نیچی نظریں کیے اس نے کہا:
’’مجھے معاف کردیجیے! مجھے بخش دیجیے!آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ مجھے اپنے ساتھ اپنی دنیا میں واپس لے چلیے۔ میں وعدہ کرتا ہوں اب کبھی دھوکا نہیں دوں گا۔‘‘
دونوں آدمی خاموش رہے۔ دلارا پھر گڑگڑایا:
’’مہربانی کیجیے! میں نے اپنی ماں کی خواہش پوری کرنے کی خاطر یہ گناہ کیا ہے۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔‘‘
’’ہمارے خیال میں انسان کو انسان ہونا چاہیے، بے ایمان نہیں۔‘‘
وہ دونوں آدمی یہ کہہ کر خاموشی سے مڑے اور دلارے کو وہیں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ دلارے کی آنکھوں میں آنسو امڈ پڑے اور وہ ان آدمیوں کو واپس جاتا ہوا بھی نہ دیکھ سکا۔
آخر رو دھو کر دلارا اپنے گھر پہنچا اور اپنی ماں کو درد بھری کہانی سنائی۔ دوسرے دن وہ دریا کے کنارے آیا مگر اسے غار بھی نظر نہ آیا۔ وہ کئی دن تک غار کی تلاش میں دریا کے کنارے آتا رہا مگر کچھ حاصل نہ ہوا، آخر اسے یقین ہوگیا کہ اجنبی دنیا اور اس کی سب خوبیاں ہمیشہ کے لیے اس سے چھن چکی تھیں۔
وقت گزرتا گیا اور اس کا غم بھی کم ہوتا گیا۔ اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کردیا۔ اس کے ماسٹر کو تعجب تھا کہ اس نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور اب وہ خوب پڑھ سکتا ہے۔ اب دلارے نے اتنی دلچسپی سے پڑھنا شروع کیا کہ ماسٹر صاحب کو کبھی شکایت نہ ہوئی اور انھوں نے پھر کبھی اس کو نہ پیٹا۔
جوان ہوکر وہ ایک مذہبی رہنما بنا، لوگ اس کی عزت کرنے لگے اور اس کو اچھے نام سے پکارنے لگے۔ آئندہ زندگی میں اس نے لوگوں کے سامنے ہزاروں بار اجنبی دنیا کی کہانی دہرائی اور انھیں تاکید کی کہ کبھی کسی کو دھوکا نہ دینا، امانت میں خیانت نہ کرنا۔ وہ بوڑھا ہوگیا، تب بھی وہ اس کہانی کو روئے بغیر کبھی ختم نہ کرسکا۔ اسی طرح وہ اس دن رویا تھا جب اس کے ننھے منے دوست اسے تنہا چھوڑ کر اپنی خوبصورت، پُرامن اور خوش حال دنیا میں واپس جارہے تھے۔
٭٭٭