Editor Ke Qalam SE

مختصر پراثر

دل چار قسم کے ہوتے ہیں:

مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ دل چار قسم کے ہوتے ہیں:
(۱)ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو۔
(۲)دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں۔
(۳)تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں۔
(۴)چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں۔

پہلا دل تو مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے۔ دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ تیسرا منافق کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے۔ چوتھا اس منافق کا ہے جس میں ایمان اور نفاق دونوں جمع ہیں۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اب جو مادہ بڑھ جائے وہ دوسرے پر غالب آجاتا ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)(مرسلہ: ناصر محمود)

افضل بندہ:
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ ’’تم میں سب سے بہتر اور افضل بندہ وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘ (بخاری)

قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے کی حیثیت سے دوسرے کلاموں پر اسی طرح کی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق پر حاصل ہے۔ قرآن مجید کا علم حاصل کرنا اس کی حکمت کا سمجھنا اور دوسروں تک اس کا پہنچانا گویا پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے وارثین کا اول کام ہے، لیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب قرآن مجید کا سیکھنا سکھانا اخلاص کے ساتھ اور اللہ کی رضا کے لیے ہو۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:’’جس نے کتاب اللہ کی کوئی آیت یا علم دین کا کوئی باب (کسی کو) تعلیم کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اجر کو قیامت تک بڑھاتے رہیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ علم کے ان موتیوں کو چننے اور سمیٹ کر ان سے اپنی روح کو جگمگانے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔ (مرسلہ: بنت سلیمان)

جنگل سے شہر تک:
افریقا میں رہ کرمیں وحشی جانوروں کی خوبیوں کا قائل ہوا۔ جن جنگلوں میں شکار ممنوع ہے اور انسانوں کی آمدورفت کم ہے، وہاں جانور فطرت کے قانون پر عمل کرتے ہیں اور ان میں مہذب انسان کی خود غرضی، شورہ پشتی، تعصب و عداوت کی نظیر کم ملتی ہے۔ شیر شکم سیر ہو تو ہرن اور نیل گائے بے خطر اس کے پاس سے گزر جائیں، وہ نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ جنگل کے بیشتر جانور گوشت خور نہیں ہوتے۔ ایک بار میں نے شیر کے دو جوڑوں کو ایک زیبرا کا شکار کرتے دیکھا۔ جب وہ اسے مار چکے تو جس جوڑے نے اس کا کام تمام کیا تھا، وہ پہلے اسے نوش ِ جاں کرنے لگا اور دوسرا جوڑا دور کھڑا اپنی باری کا انتظار کرتا رہا۔ جب آدھا زیبرا ختم ہوا تو شیر اور شیرنی وہاں سے ہٹ گئے اور دوسرے جوڑے کی باری آئی۔

یہ شائستگی اُس کھڑے کھانے (بوفے) میں دیکھنے میں نہیں آتی، جہاں لوگ میزوں پر ایک دوسرے کے منہ سے لقمہ نوچتے رہتے ہیں۔ مجھے وہ واقعہ یاد آیا جب نواب لیاقت علی خان نے اپنی کراچی کی رہائش گاہ میں دعوت کا انتظام کیا تھا اور باغ میں میزوں پر انواع واقسام کے کھانے چُنے گئے تھے۔ جب مہمان میزوں پر بے تحاشا ٹوٹے تو مولوی عبدالحق ہاتھ میں رکابی لیے بھونچکا کھڑے رہ گئے۔ وزیراعظم نے پاس آ کر پوچھا کہ مولوی صاحب! آپ کھانا نہیں کھا رہے ہیں؟ تو انھوں نے تنک کر کہا:
’’جناب! بھیک کا پیالہ لیے کھڑا ہوں۔‘‘

میزبان نادم ہوئے اور ان کے لیے الگ میز پر کھانا لگایا گیا۔ میں بھی ان کے ساتھ جا بیٹھا۔ وہ سارے وقت کھڑے کھڑے کھانا کھانے کی لغویات کا ذکر کرتے رہے۔‘‘ [ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی خود نوشت’’گردِ راہ ‘‘ سے اقتباس]
پندرھواں:

ایک دفعہ افغانستان کے امیر حبیب اللہ خاں نے قیدخانے کامعائنہ کیا۔ وہ ہر قیدی سے اس کی گرفتاری کی وجہ دریافت کرتا اور مناسب حکم جاری کرتا۔ ایک قیدی نے اپنی باری آنے پر اسے بتایا: ’’ میں پندرھواں ہوں۔‘‘
امیر نے کہا: ’’وضاحت کرو۔‘‘

قیدی نے کہا: ’’حضور! آج سے بارہ سال پہلے چند سپاہی قیدیوں کی ایک قطار کو لیے جار ہے تھے، کُل پندرہ آدمی تھے، اتفاق سے ہجوم میں موقع پا کر ایک قیدی کھسک گیا۔ سپاہیوں نے قیدیوں کو کھڑا کر کے گنتی کی تو معلوم ہوا کہ ایک قیدی غائب ہے۔ بدقسمتی سے میں وہاں کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا۔ ایک سپاہی نے مجھے کھینچ کر قطار میں کھڑا کر لیا کہ چلو تم پندرھویں ہو۔‘‘
امیر کو سخت افسوس ہوا۔ اس نے قیدی کو فوراً رہا کر دیا اور اسے قید کا معاوضہ بھی دلوایا۔ (امّ ساریہ۔ کراچی)

٭٭٭