Promise

میں بھی سیکھوں گی

فلزا وسیم۔ کراچی

میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جہاں فیملی بزنس خوب ترقی کر رہا ہے۔ پیسہ کیسے کمایا جاتا ہے، مجھے اس کی بالکل فکر نہیں۔ خرچ کرتے وقت میں نے کبھی حساب کا نہیں سوچا اور نہ ہی کبھی صاحب نے حساب مانگا ہے۔زندگی ضروری آسائشات سے مزین ہے۔ گھریلو امور کے لیے جزوقتی ملازمائیں، بچوں کی تعلیم کے لیے نامور تعلیمی ادارے اور ہوم ٹیوٹر کی سہولت بھی موجود ہے۔ میں بچوں کو روزانہ ہوم ورک بھی خود نہیں کرواتی۔ یعنی میں بھی خوش اور بچے بھی خوش۔ بچوں کے اسکول اور صاحبِ خانہ کے دفتر چلے جانے کے بعد میں ٹی وی آن کرکے پہلے مارننگ شو دیکھتی ہوں۔ پھر ملازمہ سے گھر کے کام کرواتے ہوئے کھانا پکاتی ہوں۔ بچوں کو اسکول سے واپسی پر کھانا کھلانے کے بعد کچھ دیر سلاتی ضرور ہوں۔ شام میں پھر قاری صاحب ۳۰ منٹ میں تینوں بچوں کو ناظرہ قرآن پڑھاتے ہیں۔ اس کے بعد ہوم ٹیوٹر دو گھنٹے لے لیتا ہے۔ مغرب کے بعد بچے ٹی وی دیکھتے ہیں۔ میں موبائل زیادہ استعمال کروانے کے خلاف ہوں اس لیے بچے رات جلدی سوجاتے ہیں۔ رات کو کچن اور دیگر امور سے فارغ ہوکر میں موبائل کو دو گھنٹے استعمال کرتی ہوں۔ تھوڑی بہت تبدیلی جو ہفتہ وار دو چھٹیوں میں ہوتی ہے ورنہ کم و بیش میری روٹین ایک ہی ہے۔ یا تو آن لائن نت نئے کپڑے تلاش کرنا آرڈر کرنا، یا پھر فون پر اپنی دوستوں سے گپ شپ وغیرہ۔ وقت کی کوئی پابندی نہیں۔ میرے پاس وقت ہی وقت ہے!

ہوا کچھ یوں کہ آج دوپہر جب میں موبائل پر گفتگو میں مصروف تھی ، نئے پڑوسی کے گھر سے ایک خاتون مکمل پردے میں ملبوس تشریف لائیں۔تعارف ہوا تو خاتون نے آنے کی وجہ بتائی۔ دعوت دی کہ ان کے گھر میں کل سے ہفتہ وار درس قرآن (فہم دین) کا اہتمام ہورہا ہے۔کل پہلا دن ہے لہٰذا وہ پہلی دعوت مجھے ہی دینے کے لیے تشریف لائی تھیں۔ خاتون مجھ سے بات کرتے ہوئے بار بار آنکھیں جھکالیتی تھیں۔ مجھے پہلے حیرت ہوئی پھر میں نے خود کو سمجھایا کہقدامت پسند لوگوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے وہ مجھ سے بات کرتے کرتے گھبرا کر آنکھیں جھکالیتی ہیں۔

خیر! وہ مجھے جاتے جاتے بتا گئیں کہ کل ’صراطِ مستقیم‘ کے موضوع پر بیان ہوگا۔ وہ میرا انتظار کریں گی۔ نہ تو میں نے انہیں یقین دلایا کہ میں ضرور آئوں گی اور نہ ہی مجھے جانا تھا۔ شام میں بچوں کی مصروفیت کی وجہ سے میں جا نہیں سکتی تھی۔ اگر میں چلی جاتی تو پھر سسرال اور میکے کی خیر خبر کون رکھتا بھلا!دیکھ لیں گے جب کبھی فرصت ہوگی۔

رات میں نے شوہر صاحب کو نئے پڑوسیوں کے بارے میں بتایا۔ وہ جھٹ سے پوچھنے لگے۔

کیا سوچا ہے جائوگی کل؟

نہیں بھئی ابھی تو میں ایسے درس و تدریس کی نشستوں میں نہیں جاسکتی۔ میرا ایک سوشل سرکل ہے اس کی مصروفیات اور ہیں۔

میرا جواب سن کر فرمانے لگے۔

ظاہر ہے اس محفل میں جانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ براہِ مہربانی اگر جانے کا ارادہ ہو تو اپنا حلیہ درست کرکے جانا۔

مجھ میں کیا کمی ہے جو حلیہ درست کروں؟ میں اچھا لگنے کیلئے خود کو ہر وقت اپ ٹو ڈیٹ رکھتی ہوں۔ جدید طرز کے نئے لباس میرا انتخاب ہوتے ہیں۔ باقاعدگی سے پارلر جاتی ہوں۔ میں بہت اعتماد سے مقابل سے بات کرسکتی ہوں، ذہین ہوں، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ ہر محفل میں جانے کے آداب سے واقف ہوں۔ یہ بھی جانتی ہوں کہ ایسی درس و بیان کی محفلوں میں ہلکے رنگوں کے کپڑے پہنے جاتے ہیں جو عام طورپر تعزیتی مواقع کیلئے خاص ہوتے ہیں۔

ساری تفصیل سن کر صاحب نے یوں سر ہلایا جیسے کہہ رہے ہوں تم کبھی نہیں سمجھوگی !

ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ میری اکلوتی بیٹی ہانیہ ہاتھ میں اسکول کی کاپی اور پنسل لیے پریشانی سے میرے قریب آئی۔

مما کل میرا ٹیسٹ ہے ٹیچر نے ’صراطِ مستقیم‘ پر پانچ جملے لکھنے کے لیے کہا ہے۔ آپ لکھوا دیجیے۔

میں نے حیرت سے پوچھا:میں کیوں لکھوائوں۔ اپنی ٹیوٹر سے کیوں نہیں کہا۔ میں کیسے لکھوا سکتی ہوں؟

مما آپ ہی نے ٹیچر سے کہا تھاوہ دوسرے مضامین کو ٹائم دیں۔ اسلامیات صرف یاد کرنا ہوتی ہے آسان ہے آپ مجھے خود ہی تیاری کروائیں گی۔مما لکھوادیں اس کے مارکس بھی ہیں پلیز!

میں عجیب کشمکش میں ہوں۔ کیسے لکھوائوں کیا لکھوائوں؟

کیا آپ کو نہیں معلوم کہ صراطِ مستقیم کسے کہتے ہیں؟

مما !یہ وہی ہے جو قاری صاحب ناظرہ پڑھانے سے پہلے روزانہ پڑھتے ہیں۔ جس کے بعد ہم آمین کہتے ہیں۔ وہ سورۂ فاتحہ کا بتا رہی تھی۔ میں اب بھی خاموش تھی۔
اچھا ہانیہ ایسا کرو یہ فون پکڑو اپنی کسی فرینڈ سے کہو وہ آپ کو لکھوادے۔

ہانیہ کاپی لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ مجھے امید تھی کہ واٹس ایپ پر اسے صراط مستقیم پر پانچ جملے اس کی کوئی دوست ضرور بتادے گی۔
یونہی ہانیہ نے اپنے پاپا کے سامنے مجھے شرمندہ کردیا۔ابھی کچھ ہی دیر پہلے تو میں خود ہی اپنی قابلیت و ذہانت پر فخریہ تقریر کر رہی تھی۔ خیر اگلا دن بھی عام دنوں جیسا ہی تھا۔ ہانیہ اور بچے اسکول سے معمول کے مطابق ہی آئے تھے۔ ہانیہ کا موڈ نہ صرف خراب تھا بلکہ وہ رو بھی رہی تھی۔

پہلے اس نے کھانا کھانے سے انکار کیا پھر میرے سوال کرنے پر بتانے لگی۔ مما میں کلاس ٹیسٹ میں فیل ہوگئی ہوں۔ میری کسی فرینڈ نے مدد نہیں کی۔ میں ’صراطِ مستقیم‘ پر ایک جملہ بھی نہیں لکھ سکی۔صرف یہ ہی نہیں۔ مجھے نمازوں کی تعداد اور رکعت کے بارے میں بھی کچھ نہیں معلوم اور وضو کے چار فرائض بھی نہیں پتا تھے۔ ٹیچر نے مجھے ڈانٹا بلکہ یہ بھی کہا لگتا ہی نہیں کہ مسلمان گھرانوں کے بچے ہیں، بنیادی باتیں بھی نہیں جانتے۔مما It was too insulting for me

اگلا ٹیسٹ کل ہے۔ آج مجھے آپ تیاری کروائیں گی۔ نماز بھی یاد کروائیں گی۔ کلمے بھی اور درود بھی۔

اچھا قاری صاحب؟ میں نے دل ہی دل میں سوچا۔
مما کیا سوچ رہی ہیں؟

کچھ نہیں میں سوچ رہی تھی یہ نمازیں اور کلمے اور درود تو قاری صاحب بھی یاد کروادیں گے۔ ہانیہ نے مجھے یاد دلایا۔ مما آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آدھے گھنٹے میں تینوں کو ناظرہ پڑھائیں کیونکہ پھر ٹیوٹر کا ٹائم ہوگا۔

تو وہ مشکل سے ہم تینوں کو دس دس منٹ ہی دے پاتے ہیں۔

بتائیں آپ تیاری کروائیں گی نا؟

ہانیہ نے مجھ سے وعدہ لیا اور میں نے اپنے آپ سے!!
آج شام پڑوس میں ہونے والے درس کا موضوع بھی ’صراطِ مستقیم‘ تھا۔ اس محفل میں شرکت بہت ضروری تھی۔ جانا تو آج شام مجھے اپنی ایک دیرینہ دوست کے گھر پر تھا۔ سب پرانی دوستیں جمع ہو رہی تھیں مگر وہاں پر کوئی بھی اس قابل نہ تھا جو مجھے اور میری بیٹی کو اس شرمندگی سے بچاتا جو آج ہانیہ سے زیادہ مجھے ہوئی تھی۔ میں نہیں چاہتی کہ ہانیہ کی آنکھوں میں پھر سے ناکامی کے آنسو آئیں اور میرا دل یہ سن کر ندامت محسوس کرے کہ کیسے بچے ہیں لگتا ہی نہیں مسلمان گھرانے کے بچے ہیں!

تو آج ٹیوٹر کے جانے کے بعد میں نے پڑوس کے گھر کا رخ کرنا ہے۔
اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے!