جویریہ انجم۔ کراچی
آج عثمان صاحب کو کہیں دعوت میں جانا تھا… ان کی بدحواسی تھی کہ بجائے کم ہونے کے بڑھتی جا رہی تھی۔
آج چھٹی تھی۔ صبح تاخیر سے اٹھے۔ ناشتے وغیرہ سے فارغ ہوئے زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ دعوت میں جانے کی تیاریوں کی فکر شروع ہوگئی۔ ان کے ایک دوست نے تمام دوستوں کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔ ظہر کی نماز وہاں پڑھنی تھی اور گھڑی ساڑھے بارہ بجا چکی تھی۔
صبح کی گئی بجلی اب تک نہ آئی تھی… شاید کوئی بڑا مسئلہ ہوگیا تھا… اس سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ عثمان صاحب کے کپڑے استری نہ تھے۔
’’افوہ! ایک تو یہ بجلی کا مسئلہ بھی آج ہی ہونا تھا۔ ‘‘ عثمان صاحب بڑبڑائے۔
جنریٹر دو دن سے خراب پڑا تھا۔ اسے ٹھیک کرانے کا کام بھی آج چھٹی والے دن پر پڑا تھا… سو ابھی جنریٹر سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا تھا۔
’’سنو بیگم! میں نہانے جا رہا ہوں۔ بجلی آجائے تو فٹا فٹ دعوت والے کپڑے استری کر دینا۔ ابھی تو میں الماری میں سے گھر والے کپڑے یونہی لے کر جا رہا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر کھٹ سے غسل خانے کا دروازہ بند کر لیا۔
’’ابھی تک نہیں آئی بجلی؟‘‘ غسل خانے سے نکلتے ہی باآواز بلند پوچھا گیا۔
’’ابھی ابھی محلے میں بجلی والوں کی گاڑی آئی ہے تار جوڑنے کو…‘‘ جواب ملا۔
گود کے منے کا باجا بھی ابھی بجنا تھا۔ انہوں نے گرمی سے پریشان ہوکر اپنے سُر بلند کیے ہی تھے کہ ان سے بڑے دو بہن بھائی آپس میں کھیلتے کھیلتے لڑ پڑے… بیگم صاحبہ بے چاری اکیلی جان، جھگڑتے بچوں کا جھگڑا نمٹائیں یا منے میاں کو چپ کرائیں۔ اسی اثناء میں بجلی آگئی۔
’’تم بچوں کو دیکھو، کپڑے میں خود استری کر لوں گا۔ ‘‘
الماری سے نیلی جرابوں کی جوڑی ڈھونڈتے ہوئے، ایک جراب ہاتھ میں پکڑے اور دوسرے کی تلاش میں ہلکان ہوتے عثمان صاحب نے کھٹ سے الماری بند کی۔ ہاتھ میں پکڑی جراب ایک طرف اچھالی اور کپڑے استری کرنے لگے۔ ابھی آستینیں ہی ہوئی تھیں کہ بجلی پھر غائب۔
’’لاحول ولاقوۃ… اب کیا ہوگیا؟‘‘
انہیں اب سچ مچ غصہ آنے لگا تھا۔ غصہ اور بے چارگی کی ملی جلی کیفیت سے گھڑی دیکھی۔
’’ہائے اﷲ! میں کیا کروں؟‘‘
’’شاید تھوڑی دیر میں آجائے تار لگا رہے ہوں گے۔ چلو اتنے میں سر میں تیل ہی لگا لوں…‘‘ خود کلامی کرتے ہوئے ہتھیلی میں تیل نکالا ہی تھا کہ فون بج اٹھا۔
’’السلام علیکم!… ہاں بھائی! تیار ہو؟ میں نکل رہا تھا۔ سوچا تمہیں بھی ساتھ لیتا چلوں۔ یاد ہے ناں ظہر وہاں پڑھنی ہے؟‘‘
’’وعلیکم السلام! ہاں بس تیار ہی ہوں۔ ایسا کرو، تم چلو، میں بھی بس آتا ہوں۔ ‘‘
کہہ کر موبائل میز پر رکھا اور جلدی جلدی سر میں تیل لگانے لگے تھے کہ اچانک دوبارہ بجلی آگئی… پلٹ کر دیکھا بیگم صاحبہ بچوں سمیت غائب تھیں۔ منے میاں کے سُر اب بھی کانوں میں پڑ رہے تھے اور منے کی اماں انہیں چپ کرا رہی تھیں۔
تیزی سے کپڑوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ دامن کے کنارے پکڑ کر جھٹکا مار کر قمیص سیدھی کرتے ہوئے بھول گئے کہ ابھی سر میں تیل لگا رہے تھے۔ یہ بات تب یاد آئی جب دامنوں کے آگے پیچھے چاروں کونوں پر ہلکے ہلکے چکنے دھبوں پر نظر پڑی۔
’’کیا مصیبت ہے…‘‘
چکنے دھبوں اور دوبارہ بجتے موبائل پر اسی دوست کے نمبر پر ایک کے بعد ایک نظر پڑی تھی۔
’’کیا ہوا ابھی تک گھر سے باہر نہیں نکلے؟ کب سے تمہارے گھر کے باہر کھڑا ہوں۔ جلدی آئو، اذانیں شروع ہوگئی ہیں۔ ‘‘
’’ہاں بابا! آرہا ہوں بس دو منٹ…‘‘
ان کے تو سچ مچ ہاتھ پیر پھول گئے۔ پائنچوں پر الٹا سیدھا استری کا ہاتھ مارا۔ جلدی جلدی کپڑے بدلے، ہاتھ ڈالتے آستین میں تھے، نکلتا گلے میں سے تھا۔ تیل لگے بال یونہی ایک دو ہاتھ مار کر سنوارے اور ٹوپی نکالی۔
ڈریسنگ ٹیبل پر سے جو تیزی سے دستی گھڑی اٹھائی تو ڈھکنا کھلی تیل کی شیشی کھٹ سے نیچے جاگری۔ ایک لمحے کو پلٹ کر تیزی سے جذب ہوتے تیل اور قالین کی سیرابی کو دیکھا تو گھر کے دروازے کے باہر پیپ پیپ… پیپ پیپ کی آواز نے متوجہ کرلیا۔ بغیر موزوں کے ہی جوتوں میں پیر اڑسے… اور ہانپتے کانپتے دروازہ پار کرگئے۔
پتا نہیں کیوں!
بنت مولوی شبیر احمد۔ وہاڑی
۱۔ ماما 9 مہینے اٹھاتی ہیں، بابا پچیس سال اٹھاتے ہیں، دونوں برابر ہیںپھر بھی ماں کی نسبت بابا کیوں پیچھے ہیں؟
۲۔ ماما گھر والوں کے لیے بغیر تنخواہ کے کام کرتی ہیں، بابا اپنی ساری تنخواہ فیملی کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ دونوںکی کوششیں برابر ہیں۔ پھر بھی پتا نہیں کیوں بابا پیچھے رہ گئے؟
۳۔ ماما جو چاہے پکاتی ہیں، بابا جو چاہیں سب کے لیے خریدتے ہیں دونوںکی محبت برابر ہے لیکن محبت کی برتری میں ماما آگے کیوں ہیں؟
۴۔ جب آپ فون پر بات کرتے ہیں تو آپ سب سے پہلے ماما سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو آپ ماما کو پکارتےہیں۔ آپ بابا کو تب ہی یاد کریں گے جب آپ کو ان کی طرف سے احسان یا پیسے کی ضرورت ہوگی لیکن بابا کو کبھی برا نہیں لگتا کہ آپ ان کو ہر وقت یاد کیوں نہیں کرتے؟ جب اولاد سے پیار ملنے کی بات آتی ہے تو نسل در نسل پتا نہیں کیوں بابا ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں؟
۵۔ الماری رنگ برنگے کپڑوں اور بچوں کے بہت سے کپڑوں سے بھری ہوگی لیکن بابا کے کپڑے بہت کم ہیں۔ انہیں اپنی ضرورتوں کا خیال نہیں ۔پھر بھی پتا نہیں کیوں بابا پیچھے رہ گئے ہیں۔
۶۔ ماما کے پاس سونے کے کئی زیورات ہیں، لیکن بابا کے پاس صرف ایک انگوٹھی ہے جو ان کی شادی کے دوران دی گئی تھی۔ پھر بھی ماما کو زیورات کم ہونے کی شکایت رہتی ہے اور بابا کو نہیں۔ پھربھی پتا نہیں کیوں بابا پیچھے رہ گئے؟
۷۔ بابا ساری زندگی خاندان کی دیکھ بھال کے لیے بہت محنت کرتے ہیں، لیکن جب پہچان کی بات آتی ہے تو نہ جانے کیوں وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں؟
۸۔ والدہ کہتی ہیں ہمیں اس مہینے کالج کی فیس ادا کرنی ہے، براہِ کرم فیسٹیول کے لیے میرے کپڑے مت خریدیں، جبکہ والد صاحب نے کبھی نئی چیزوں، نئے کپڑوں کا سوچا تک نہیں، دونوں کی محبت برابر ہے پھر بھی پتا نہیں کیوں بابا پیچھے ہیں۔
بابا پیچھے ہیں کیونکہ وہ خاندان کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم سیدھے کھڑے ہوسکتے ہیں ۔شاید اسی لیے کہ وہ ہمیشہ ’پیچھے‘ رہتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے جاتے ہوئے بھی گھر والوں کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ جاتے ہیں۔
٭٭٭