Hajj

عجیب شادی

انتخاب: اقصیٰ عبیدالرحمن درخواستی

حضرت جُلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک انصاری صحابی تھے۔ مالدار تھے نہ کسی مشہور خاندان سے تعلق تھا۔ صاحب منصب بھی نہ تھے، رشتے داروں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔ رنگ بھی سانولا تھا لیکن دل اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے سرشار تھا۔ بھوک کی حالت میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ علم سیکھتے اور فیض یاب ہوتے۔ ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفقت کی نظر سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:

یاجُلَیْبِیْب اَلَا تَتَزَوَّجُ!
’’اے جلیبیب تم شادی کیوں نہیں کرتے؟‘‘

حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھ جیسے آدمی سے بھلا کون شادی کرے گا؟ میری شکل بھی اچھی نہیں نہ میرا خاندان بڑا ہے اور نہ میں مال و دولت رکھتا ہوں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ یہی ارشاد فرمایا اور انھوں نے تینوں بار وہی جواب دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’فلاں انصاری کے گھر جائو اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھیں سلام کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کردو۔‘‘

حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوشی خوشی اس انصاری کے گھر گئے اور دروازے پر دستک دی۔ گھر والوں نے پوچھا کون؟ کہا: جلیبیب۔ اندر سے آواز آئی۔ ہم تو آپ کو نہیں جانتے۔ خیر گھر کا مالک باہر نکلا۔ پوچھا کیا چاہتے ہو؟ کدھر سے آئے ہو؟

فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔
یہ سننے کی دیر تھی کہ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سلام بھیجا ہے۔

حضرت جلیبیب پھر کہنے لگے: ’’آگے بھی سنیے! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردیجیے۔
صاحبِ خانہ نے کہا: ’’ذرا انتظار کریں، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں۔‘‘

اندر جاکر لڑکی کی ماں کو پیغام پہنچایا اور مشورہ پوچھا۔

وہ کہنے لگی: نہیں، اللہ کی قسم میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی، نہ خاندان، نہ شہرت، نہ مال و دولت۔

نیک سیرت بیٹی بھی گھر میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھی اور جان گئی تھی کہ ارشاد کس کا ہے؟ مشورہ کس کا ہے؟ اس نے والدین کی طرف دیکھا اور کہا:

’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی بات ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کردیں (وہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہیں میری شادی کردیں)، کیونکہ وہ ہرگز مجھے ضائع نہیں ہونے دیں گے اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ

’’اور دیکھو! کسی مومن مرد اور عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے امور میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘

لڑکی کے والد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:

’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کا حکم سر آنکھوں پر، میں شادی کے لیے راضی ہوں۔‘‘

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لڑکی کے پاکیزہ جواب کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:
اَللّٰہُمَّ صُبَّ الْخَیْرَ عَلَیْھَا صُبًّا وَّلَاتَجْعَلْ عَیْشَھَا کَدًّا

(مفہوم) ’’اے اللہ! اس بچی پر خیر اور بھلائی کے دروازے کھول دے اور اس کی زندگی کو مشقت اور پریشانی سے دور رکھ۔‘‘
پھر حضرت جلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مومنہ کی شادی ہوگئی۔

مدینہ منورہ میں ایک اور گھرانا آباد ہوگیا، جس کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر تھی، جس کی چھت محتاجی تھی ،جس کی آرائش و زیبائش تکبیر و تہلیل اورتسبیح و تحمید تھی۔ اس مبارک جوڑے کی راحت نماز اور دل کا اطمینان تپتی دوپہروں کے نفلی روزوں میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے یہ شادی بہت بابرکت ثابت ہوئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مالی حالات اِس قدر اچھے ہوگئے کہ انصاری گھرانوں کی خواتین میں سب سے کشادگی والا گھرانا اُس صحابیہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کا تھا۔
ایک جنگ میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے پوچھا: ’’دیکھو تمھارا کوئی ساتھی بچھڑ تو نہیں گیا؟‘‘

مطلب یہ تھا کہ کون کون شہید ہوگیا؟

صحابہ نے عرض کیا: ’’فلاں فلاں حضرات موجود نہیں ہیں۔‘‘
پھر ارشاد فرمایا: ’’کیا تم کسی اور کو گم پاتے ہو؟‘‘

صحابہ نے عرض کیا: ’’نہیں۔‘‘
آپ نے فرمایا:’لٰکِنِّي أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا فَاطْلُبُوہُ‘

’’لیکن مجھے جُلیبیب نظر نہیں آرہا ،اس کو تلاش کرو۔‘‘
چنانچہ ان کو میدان جنگ میں تلاش کیا گیا۔

وہ منظر بڑا عجیب تھا۔
میدان جنگ میں ان کے ارد گرد سات کافروں کی لاشیں تھیں، گویا وہ اِن ساتوںسے لڑتے رہے اور پھر ساتوں کو جہنم رسید کرکے شہید ہوئے ۔

اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خبر دی گئی۔ رؤف و رحیم پیغمبرتشریف لائے۔ اپنے پیارے ساتھی کی نعش کے پاس کھڑے ہوئے، منظر کو دیکھا، پھر فرمایا:
’قَتَلَ سَبْعَۃً ثُمَّ قَتَلُوہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ۔‘

’’اس نے سات کافروں کو قتل کیا،پھر دشمنوں نے اسے قتل کردیا۔یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘
’فَوَضَعَہُ عَلَی سَاعِدَیْہِ لَیْسَ لَہُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيَّ ﷺ‘۔

’’پھر آپ نے اپنے پیارے ساتھی کو اپنےہاتھوں میں اٹھایا اور شان یہ تھی کہ اکیلے ہی اس کو اٹھایا ہوا تھا۔ صرف آپ کو دونوں بازوئوں کا سہارا میسر تھا۔‘‘
جُلیبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے قبر کھودی گئی ، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے انھیں قبر میں رکھا۔ (صحیح مسلم)

٭٭٭