ظفراقبال اعوان
اگلے روز پھر ڈیوڑھی میں شور سنائی دیا۔باہر نکلے تو ساتھ والے احاطے میں کوئی اونچی اونچی آواز میں سنتری سے لڑ رہا تھا۔
’’دیکھ پانڈے… ہمارا راستہ چھوڑ دے… ہمیں جیل کی دیواریں نہیں روک سکتیں۔‘‘
’’سمجھو سائیں… کیوں ہمارا نوکری برباد کرتا ہے… ہم تم کو نہیں جانے دے گا۔‘‘
’’ہم کہتا ہوں درواجہ کھول… نئیں تو ٹھاکر تیرا سر کھول دے گا۔‘‘
یہ بحث جاری تھی کہ میں نے آواز لگائی۔
“بھائی! کیا ہو گیا ؟ کیا مسئلہ ہے ؟ کیوں لڑ رہے ہو ؟‘‘
’’ہم بھوپت ہے… بھوپت ڈاکو… ‘‘ دیوار کے پیچھے سے آواز آئی۔
’’بھوپت ؟؟ تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟‘‘
’’ہم تمہارے پاس آنا چاہتا ہے… یہ پُلس والادرواجہ نہیں کھولتا۔ ‘‘
بھوپت ڈاکو ہماری بیرک کے ساتھ والے احاطے میں شفٹ ہو چکا تھا۔جیل سرکار نے اس کی بیرک تبدیل کر دی تھی۔ دونوں احاطوں کے بیچ ایک دروازہ تھا۔ اب وہ ہمارے پاس آنے کے لیے سنتری سے لڑ رہا تھا۔
’’دیکھو بھوپت!‘‘ میں نے کہا۔’’یوں لڑنا بالکل ٹھیک نہیں۔ ہم بھی تمہاری طرح قیدی ہیں۔ ہم کل سپرنٹنڈنٹ سے بات کریں گے۔ وہ آپ کو ہم سے ملنے کی اجازت دے دے گا۔ ‘‘
جیل سپرنٹنڈنٹ شیخ اللہ بخش شریف انسان تھے۔اگلے ہی روز ہماری کوٹھڑی میں تشریف لائے تو ہم نے ان سے بات کی۔
’’دیکھو اللہ بخش !مانا کہ بھوپت ایک خطرناک ڈاکو ہے ، لیکن بہرحال ایک انسان ہے۔ اسے ہمارے پاس آنے دو۔ کیا معلوم اللہ پاک اسے کلمے کی نعمت نصیب کر دے اور وہ ایک اچھا انسان بن جائے۔‘‘
سپرنٹنڈنٹ سوچ میں پڑ گیا، پھر بولا: ’’سائیں ! سرکاری طور پر تو اجازت نہیں دے سکتا ،مگر تمہاری بات کا انکار کر کے گنہگار بھی نہیں ہونا چاہتا ، بہرحال کچھ کرتے ہیں۔‘‘
اگلے روز بھوپت کا وارڈن تبدیل کر کے نسبتاً ایک نرم مزاج سنتری لگا دیا گیا۔ اس نے روزانہ کچھ دیر بھوپت کو ہمارے پاس آنے کی اجازت دے دی۔ اور یوں ہماری کہانی میں ایک نیا کردار شامل ہو گیا… بھوپت!
بھوپت کسی دور میں ایک بہادر سپاہی تھا۔ ہندوستان میں کانگریس انگریز کے کاسہ لیس جاگیرداروں اور نوابوں کے خلاف پہلی عوامی تحریک بن کر اُٹھی تو جاگیرداروں کو اپنا مستقبل ڈوبتا نظر آیا۔ انہوں نے کانگریس کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔ انہیں بھوپت جیسے بہادر اور جذباتی افراد کی اشد ضرورت تھی۔ بھوپت کے دماغ میں یہ با ت ڈالی گئی کہ کانگریس بنیا لوگوں کی جماعت ہے جو گاندھی ٹوپی اور کھدر پہن کر جاگیرداروں کو شودر بنانا چاہتی ہے۔ اس سوچ نے بھوپت کے دل میں وہ چنگاری بھری کہ وہ اپنی سرکاری رائفل سونت کر کانگریس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ بھوپت کا نشانہ بہت اچھا تھا اور رائفل اس کے نزدیک ایک کھلونے سے زیادہ اہمیت نہ رکھتی تھی۔
جلد ہی بھوپت ڈاکو کانگریسیوںکے لیے دہشت کی علامت بن گیا۔ وہ اکیلا کسی بھی جلسے میں گھس کر اسے الٹ کر رکھ دیتا اور ہر طرف سراسیمگی پھیلا دیتا۔ وہ رائفل اٹھا کر سیدھا اسٹیج پر چڑھ آتا اور ہوائی فائرنگ کر کے کانگریسی لیڈر کو بھگا دیتا، پھر چندے کا بکسہ اٹھا کر عوام کے سامنے اٌلٹ دیتا۔ وہ کانگریس کو چندہ دینے والے سیٹھوں کے گھروں میں گھس کر انہیں لوٹتا، پھر یہ پیسہ لوگوں میں تقسیم کر دیتا۔ اس کی بہادری کے قصّے دور دور تک پھیل گئے ۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے چوپال میں بیٹھ کر بھوپت کی کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
پولیس نے بارہا اس کا پیچھا کیا لیکن بھوپت ہر بار جل دے کر نکل جاتا۔ وہ جس گاؤں میں داخل ہو جاتا لوگ سہم کر دروازے بند کر دیتے ۔ بھوپت کے ساتھی شراب کے رسیا تھے، سو ایک ایک کر کے پولیس مقابلوں میں مرنے لگے لیکن بھوپت شراب اور عورت سے ہمیشہ دور رہتا تھا۔ ایک طویل مدت تک کانگریس اور ہندوستانی پولیس کو ناکوں چنے چبوانے کے بعد بالآخر وہ ایک پولیس مقابلے میں زندہ پکڑا گیااور اب ہمارے پاس رونق جمائے بیٹھا تھا۔
ہمیں جیل خانے میں فرصت ہی فرصت تھی۔ بھوپت ہمارے لیے ایک ناول کی حیثیت رکھتا تھا جسے ہم روز پڑھتے تھے ۔ اتفاق سے وہ جب بھی ہمارے پاس آتا ہم نماز میں مشغول ہوتے۔ وہ جوتے اتار کر صف پر باادب بیٹھ جاتا اور ہمیں بڑے غور اور عقیدت سے دیکھتا رہتا۔ ہم نے اسے ایک دن بھی تبلیغ نہ کی، لیکن اخلاق کا ہتھیار بہرحال ہمارے پاس موجود تھا۔
ایک دن وہ اچانک کہہ اٹھا:’’مولوی صاحب! ہم کو بھی نماز سکھا دو… ہمارا بہت جی کرتا ہے۔ ‘‘
میں نے کہا: ’’ٹھاکر !یہ عقیدے کی بات ہے… پہلے عقیدہ آتا ہے پھر نماز۔ ‘‘
وہ سادگی سے بولا: ’’یہ عقیدہ کیا ہوتا ہے مولبی ساب ؟؟‘‘
پھر مولانا لال حسین اختر نے اسے آہستہ آہستہ اسلام کا تعارف کرانا شروع کیا۔ وہ جاہلوں کی طرح سوال کرتا اور عقلمندوں کی طرح غور سے ایک ایک بات سنتا۔ وہ اسلام کی طرف مائل ہونے لگا۔ داڑھی اس نے پہلے ہی رکھی ہوئی تھی۔
میں نے کہا:’’ٹھاکر! اسلام بہادر لوگوں کا مذہب ہے۔ بہادر لوگوں کے دل میں خود بخود اترتا ہے… اور بزدل لوگوں کے حلق سے کبھی نہیں اترتا۔ ‘‘
ایک دن ہم صبح اٹّھے تو بھوپت اپنی داڑھی صاف کر چکا تھا۔
میں نے کہا :’’ٹھاکر! یہ کیا کیا ؟ داڑھی تو عزت کی علامت ہوتی ہے۔‘‘
وہ افسردگی سے بولا: ’’مولبی ساب… اب اس عزت کو کھترہ ہے… دشمن جب بے عزتی پر اترتا ہے تو پہلے داڑھی کا صفایا کرتا ہے… پھر گردن کاٹتا ہے۔‘‘
’’ آخر ہوا کیا ہے ؟ کون ہے تمہارا دشمن؟‘‘ میں نے حیرت سے سوال کیا۔
’’پاکستانی سرکار مجھے ہندوستان کے حوالے کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے … اورہندوستان میں کانگریس کی حکومت ہے… لیکن مجھے یہ فیصلہ قبول نہیں … جان دے دوں گا لیکن خود کو دشمن کے حوالے کبھی نہیں کروں گا۔‘‘
میں نے کہا :’’اس وہم کو دل سے نکال دو… اللہ نے چاہا تو تمہیں کوئی ہندوستان نہیں بھیجے گا… تم یہاں کے شریف شہری بن جاؤ، پھر کوئی تمہاری طرف میلی آنکھ سے بھی نہ دیکھے گا۔‘‘
کچھ ہی روز بعد اس کی بیرک تبدیل کر دی گئی لیکن جو آگ اس کے من میں جل چکی تھی ، پھر کبھی نہ بجھ سکی ۔ وہ پڑھا لکھا تو تھا ہی، اپنی بیرک میں جا کر اس نے اسلام کا باقاعدہ مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔
وہ جیل حکام کی منتیں ترلے کر کے اسلامی کتب منگواتا اور دن رات مطالعے میں غرق رہتا۔ اس نے رب تعالیٰ سے رو رو کر دعا کی اور اللہ نے آسانی پیدا فرما دی۔ حکومت ہندوستان نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کچھ ہی عرصہ بعد مرکز سے اس کی رہائی کے احکامات بھی آ گئے۔
ہماری بھوپت سے پھر کبھی ملاقات نہ ہوئی۔البتہ شیخ اللہ بخش کی زبانی معلوم ہوا کہ جیل سے باہر آتے ہی اس نے مولانا محمد یوسف کلکتوی کے ہاتھ پر باقاعدہ اسلام قبول کیا اور ایک شریف شہری بن کر کسب روزگار کرنے لگا۔
(یہ کہانی احرار الاسلام کے ممتاز لیڈر ماسٹر تاج الدین صاحب نے بیان فرمائی جو ختم نبوت تحریک 1953ء کی پاداش میں حیدر آباد جیل میں قید تھے)