قانتہ رابعہ۔ گوجرہ
یہ تو ہادیہ کو نہیں یاد کہ پہلی مرتبہ کس نے اسے بھاگوان کہا تھا مگر اس کا بچپن گزرتے گزرتے اُس کے دل و دماغ میں یہ بات بہت اچھی طرح راسخ ہوچکی تھی کہ وہ بہت خوش نصیب ہے۔
جس دن وہ پیدا ہوئی اُس دن اس کے ابا کو کاروبار میں پہلی بار منافع ہوا تھا۔
اور جس دن اس نے پاؤں پاؤں چلنا شروع کیا تو توتلی زبان میں ’’تھیر‘‘ (کھیر) مانگی۔ اِدھر اس کے منہ سے یہ لفظ نکلا اُدھر تیسرے محلے میں مقیم خالہ زیتون نے اپنی بہو کا ہاتھ کھیر میں ڈلوایا اور ٹرے میں بادام پستہ کی ہوائیوں سے سجی کھیر کا پیالہ اُن کے در پر پہنچ گیا۔
یہ منظر یہ ماجرا اس کی دادی نے ہر آئے گئے کے سامنے اتنی بار دہرایا کہ اس کی یادداشت میں نہ ہوتے ہوئے بھی اسے یہ واقعہ پل بھر پہلے کا محسوس ہوتا۔
’’میری ہادی اتنی بختوں والی ہے کہ اِدھر کھیر مانگی، اُدھر میرے سوہنے رب نے بھجوا دی۔‘‘
دو چار سال آگے گزرے۔
ایک دن گلی میں ہم عمر بچوں کے ساتھ ساتھ کھیلتے کھیلتے وہ کھیل چھوڑ کے بھاگی بھاگی گھر آئی اور بولنے لگی:
’’دادی! بارش… دادی بارش آئے گی۔‘‘
گو کہ اُس وقت بارش کا کوئی امکان نہیں تھا، روز ہی بزرگ بارش کی طلب کے لیے ہاتھ اٹھاتے مگر رحمت برستی نہ تھی لیکن اس کے بارش کہنے کی دیر تھی کہ ایک دم ہی کالے سیاہ بادل چاروں جانب سے امڈ آئے اور وہ برسے وہ برسے کہ دادی کی کٹیا بھی ڈوب چلی مگر دادی بہت خوش تھیں۔ بار بار اس کا منہ چومتیں کہ میری ہادیہ کی زبان بہت مبارک ہے۔
اس وقت ہادیہ کی عمر چار سال کی تھی اور اس کے دماغ کے کسی گوشے میں دادی کا محبت بھرا چہرہ اور میٹھی آواز محفوظ ہوگئی۔
دادی دنیا سے گئیں تو ابا نے یہ لاڈ اپنے ذمے لے لیا۔
ہر دو ایک سال میں کوئی نہ کوئی بات ایسی صادر ہوجاتی کہ باقی سب بہن بھائیوں میں ہادیہ معتبر ٹھہرتی۔ ایک دن امی سے کہنے لگی کہ آج کہیں سے کڑھی آئے گی میرا بہت دل چاہتا تھا۔
لو پھر کچھ ہی منٹ ہی میں کہیں سے کڑھی کا ڈونگا آگیا۔
ابا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
روز تو نہیں کبھی کبھار دکان سے آتے ہوئے ابا اسے چنے کی چاٹ یا سموسے لاکے دیتے۔ وہ سب کے بیچ میں بیٹھ کے مزے سے کھاتی۔ چھوٹے بہن بھائیوں کا دل للچاتا رہ جاتا مگر وہ کھانے میں مگن رہتی۔ اُس کے ذہن میں یہ بات پختہ ہوچکی تھی کہ وہ خاص ہے، نیک ہے، بھاگوان ہے۔ چونکہ سارے ایسے نہیں ہوسکتے تو فیض بھی کیسے پاسکتے ہیں…!؟
وہ اسکول میں دس جماعتیں مکمل کرچکی تھی۔ اسکول میں بھی کئی مرتبہ ملتے جلتے واقعات کی اُس کی سہیلیاں چشم دید گواہ تھیں۔
ایک دن کہا کہ آج آلو کی ٹکیاں املی کی چٹنی کے ساتھ کھانے کو دل چاہتا ہے، اور بریک ختم ہونے سے چند منٹ قبل شازیہ کی امی نے ملازمہ کے ہاتھ ڈھیر ساری آلو کی ٹکیاں املی کی چٹنی کے ساتھ بھیج دیں۔
ہاں اب وہ عمر کے اس دور میں داخل ہوچکی تھی کہ ایسا کوئی واقعہ پیش آتا تو اس کے چہرے پر فخر کی تحریر درج ہوتی۔ دل چاہتا ایک ایک کو پتا چلے کہ دیکھو دیکھو اُس نے ابھی منہ سے یہ فرمائشی پروگرام نکالا اور ابھی کے ابھی پورا ہوگیا۔
سہیلیاں اس سے اچھے نمبروں کی دعا کہنے آتیں، کوئی ہاتھ کی ہتھیلی اس کے آگے پھیلاتی کہ بتاؤ میری قسمت میں کیا ہے؟
وہ تکے لگاتی۔ پورا ہونے پر انعام واکرام کی بارش اور نہ پورا ہو تو ’’میں نے کب کہا تھا کہ ایسے ہوگا!‘‘ کہہ کر جان چھڑا لیتی۔
آپی کی شادی ہوئی اور دو چار سال کے بعد وہ اپنے دیور کے لیے اس کا رشتہ لے آئیں۔
آپی کے سسرال والے بھی آپی سے اُس کی باتیں سن سن کر اس کے پکے معتقد ہوچکے تھے۔
آپی کے میاں کی نسبت دیور کا مزاج اور عادات مختلف تھیں۔ آپی کے میاں خوش مزاج تھے اور رونق میلہ پسند کرتے تھے۔ بیوی کو گھمانے پھرانے کا شوق شادی کے چار سال بعد بھی جوں کا توں تھا۔ کاغان ناران، کراچی، کوئٹہ، پشاور سب شہر اُن دونوں میاں بیوی کے اِن چار برسوں میں کئی مرتبہ میزبانی کرچکے تھے۔ ہاں ان کے دیور مستنصر کا معاملہ مختلف تھا۔ خاموش طبع، مطالعے کا شوقین، سنجیدہ، بردبار۔
رشتہ کے لیے چار چھے ماہ ہاں کرنے میں لگے۔ جب ہاں ہوگئی تو رخصتی میں چند ہفتے بھی نہ لگے۔
’’مجھے زیادہ ہلا گلا پسند نہیں۔‘‘ آرام سے اس نے کہا اور چار بندوں کی موجودگی میں ہادیہ کو نکاح کروا کے لے گیا۔
بہت مرتبہ شادی کے بعد بھی ہادیہ کے ساتھ ماضی والا معاملہ ہوا۔ ساس دادی صدقے جاتیں، آپی بھی ساتویں نہ سہی چھٹے آسمان پر جا پہنچتیں کہ دیکھا میری بہن ہے ناں!
مگر مستنصر کا معاملہ عجیب تھا۔
وہ سنتا اور خاموش رہتا، اور تو اور آنکھوں میں بھی ستائش کی چمک نہ ہوتی۔ ہادیہ نے اب تک من بھاتے تبصرے ہی اپنے متعلق سنے تھے، اسے میاں کا یہ خشک سپاٹ سا رویہ اچھا نہ لگتا، وہ بجھ سی جاتی مگر یہ بے نیازی کا رویہ صرف اسی ایک معاملے میں تھا۔ باقی وہ ہر معاملے میں بہت آگے تھا۔ ہادیہ کی ہر خواہش کو پورا کرتا۔ اسے خوش رکھتا۔ وہ جیسا بھی کھانا بناتی، تعریف کرتا لیکن یہاں آکر اس کی زبان کو پانچ من وزنی تالا لگ جاتا۔
انھیں اللہ نے بچے بھی آگے پیچھے دو دے دیے۔ زندگی بہت بدل گئی تھی۔ میاں کے مزاج کو وہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔ اب اس کی اپنی طبیعت میں بھی قدرے ٹھہراؤ آگیا تھا۔ وہ بھی ہلے گلے کو ناپسند کرنے لگی۔ کبھی کبھار میاں کے زیر مطالعہ کتاب کو ہاتھ میں لے کے ورق گردانی بھی کرلیتی۔ یہ تبدیلی اوروں کو بھی محسوس ہوتی۔ بہرحال دن گزر رہے تھے۔ دونوں اپنی زندگی سے مطمئن تھے۔ آپی ابھی تک اولاد سے محروم تھیں۔ ان کے شوق مشاغل بھی بدل چکے تھے۔ وہ زیادہ تر اب خاموش رہتیں۔ ایک سب کچھ پا کے میاں کی پسند میں ڈھل گئی تھی۔ دوسری احساس محرومی پر لوگوں کی سوالیہ نظروں سے بچنے کے لیے خود ترسی کا شکار۔
ہادیہ کی بیٹی فروہ چار ساڑھے چار سال کی ہوچکی تھی۔ ایک دن وہ سو کے اٹھی اور آنکھیں ملتے ہوئے اُس نے آواز لگائی:
’’ماما! مجھے ابھی مینگو کی آئس کریم چاہیے، بڑے والا کپ…!‘‘
فقرہ ابھی اس کے کانوں میں پہنچا ہی تھا کہ دروازہ کھلا اور ہادیہ کے ابو مینگو آئس کریم کے چار پانچ کپ لیے داخل ہوئے۔
لاؤنج میں مستنصر، آپی، ہادیہ سب موجود تھے۔ سب حیران ہو گئے۔ سب سے پہلے آپی نے فروہ کا منہ چوما۔
’’دیکھو اِدھر تم نے آئس کریم مانگی اُدھر نانا ابو لے آئے۔
مستنصر کے ہونٹ ہلے۔ اس کی آواز سب کے کانوں سے سنی، وہ بیٹی کو پیار سے سمجھا رہا تھا: ’’فروہ! آپ بہت خوش ہو ناں۔‘‘
اس نے فروہ کا ماتھا چوما۔
’’جی بابا میں نے ابھی آئس کریم مانگی اور ابھی مجھے نانا نے لا بھی دی۔‘‘
’’میری پری! کیا آپ چاہتی ہو کہ آپ کو اور بھی اچھی اچھی چیزیں ملیں بلکہ جو مانگو وہ بھی ملے اور جس کو دل چاہے وہ بھی؟
تو میرے بیٹے! پھر آپ اللہ کا بہت شکر ادا کیا کرو اور اگر کبھی مانگنے پر بھی کچھ نہ ملے تو بھی اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ وہ چیزیں اللہ جی ہمیں جنت میں دیں گے لیکن اگر کبھی آپ نے چیزیں بھی اللہ جی سے لے لیں اور شکر بھی ادا نہ کیا تو پتا ہے کیا ہوگا؟‘‘
مستنصر کی آواز ایک دم بھرا گئی۔
’’پھر اللہ جی یہیں چیزیں دے دیا کریں گے ہمیں، اگلی دنیا میں کچھ بھی نہیں ملے گا، اس لیے کہ ہم اپنا حصہ یہیں لے کے فارغ ہوگئے ہوں گے اور…‘‘
مستنصر بیٹی کو بازوؤں کے حلقے میں لیے چومے جا رہا تھا۔ اُس کی موٹی آنکھیں اشک بار تھیں اور ہادیہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔
خاموشی کے سارے بھید اسرار کھل کے سامنے آگئے تھے۔ اس کے وجود میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی۔ کتنی بے خبر تھی وہ اس نکتے پر۔ اس کے اندر سے آنسوؤں کا گولا سا آنکھوں سے باہر نکلا۔ اشکوں میں ہر چیز دھندلی دھندلی نظر آرہی تھی۔ بس مستنصر کا چہرہ صاف شفاف تھا کسی نور کے پیکر کی طرح…!
٭٭٭