السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ!
nپچھلے دنوں ہر دل عزیز چاچو مدیر جی نے لکھنے کی ابتدا کے لیے نہایت ہی عمدہ نصیحت کی کہ اپنے روز مرہ کے حالات و واقعات کو اپنی ڈائری میں لکھا کریں تو آپ کے پاس کچھ ہی برسوں میں اچھا خاصا مواد جمع ہوجائے گا اور اس میں سے کچھ نہ کچھ اگر آپ ارسال کریں تو اللہ تعالیٰ کے کرم سے وہ چھپ بھی جائے گا۔ اسی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ڈائری لکھنے کا آغاز کیا۔ اور یقین کیجیے کہ ابھی چند ہی صفحے لکھے تھے کہ بہت سارے واقعات جمع ہوگئے۔ ایک واقعہ تو فورا لکھنے اور بھیجنے کے لیے دل مچلنے لگا، بھیج رہے ہیں۔اللہ کرے چھپ جائے۔ (محمد رویفع خان۔ ملتان)
ج: ماشاء اللہ بہت خوب۔ اللہ تعالیٰ نے چاہ لیا اور اسی شمارے میں چھپ بھی گیا۔
nکافی مصروفیات کی بنا پر کچھ وقت سے شماروں کا مطالعہ نہ ہوسکا تھا اور اب ایک ساتھ ہی شمارہ ۷۹۰۱سے۱۰۱۱تک پانچ شماروں کا مطالعہ کیا۔ ماشاء اللہ ایک سے بڑھ کر ایک تھیں سبھی کہانیاں، لیکن قلم اٹھانے پر جن تحریروں نے مجبور کیا،وہ ہیں ان شماروں کی سلسلہ وار تحاریر جن میں میر حجاز سرفہرست ہے۔ بہترین انداز اور اسلوب ہے۔ ہر ہر واقعے کو بہت مختصر اور جامع انداز میں بیان کیا ہے اور پھر چار پانچ اقساط ایک ساتھ پڑھنے کا الگ ہی مزہ تھا۔ دوسرے نمبر پر سفر نامہ ان کے کوچے میں۔ لاجواب سفرنامہ ہر ایک واقعے اور جگہ کی مکمل تفصیل اور معلومات کے ساتھ کسے پڑھتے ہوئے رکنے کا دل ہی نہ چاہتا تھا۔ تیسرے نمبر پر حافظ عبد الرزاق خان کے قلم سے بہترین تحریریں۔ غرض شماروں کو ایک ساتھ پڑھنے کا بھی الگ ہی مزہ ہوتا ہے۔ (نورالہدیٰ شاہ نورالنبی شاہ ٹنڈوالہ یار)
ج: اب اس لطف کی خاطر کہیں شمارے جمع کرکے نہ پڑھنا شروع کردیجیے گا! پانچ شماروں پر ایک ساتھ تبصرہ چھاپنا مشکل ہوجائے گا۔
nجب بھی میں شمارے خریدنے کے لیے چالیس کلو میٹر کا سفر طے کرکے جھنگ جاتا ہوں تو سب سے پہلے شماروں کی ورق گردانی کرنے لگتا ہوں۔اگر ہماری کوئی تحریر یا خطوط وغیرہ شائع ہوئے ہوں تو ایک سے زیادہ شمارے خرید لیتا ہوں۔ ایک شمارہ اپنے پاس محفوظ کرلیتا ہوں، باقی شمارے اپنے جاننے والوں کو ہدیہ کردیتا ہوں۔ اس بار بچوں کا اسلام شمارہ ۶۹۰۱ خرید کر اپنے گھر پہنچا تو شمارہ بیٹی منیبہ جاوید کو دیا اور کاموں میں مشغول ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد بیٹی بڑے زور و شور سے ابو جی ابو جی پکارتے ہوئے کہنے لگی کہ پہلے مجھے مشروب پلائیں پھر آپ کو بڑی خوش خبری سناؤں گی۔ کہنے لگی چاچو حاجی نے اپنی دستک میں آپ کا نام لکھا ہے!”ان کے کوچے میں“ پڑھ کر مجھے وہ دن یاد آنے لگے، جب ہم بھی عصر کی نماز کے بعد جنازے کے ساتھ جنت البقیع جایا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے مجھے پھر بلائے، آمین! آمنے سامنے میں انیس بہن بھائیوں سے ملاقات ہوئی، کمی تھی تو صرف ہماری اور منیبہ جاوید کی۔ (حاجی جاوید اقبال ساقی۔ چک احمد آباد، اٹھارہ ہزاری، جھنگ)
ج:اس بار آپ کو کمی محسوس نہ ہوگی۔
nشمارہ ۰۹۰۱ رنگا رنگ کہانیوں کے سرورق کے ساتھ ہاتھوں میں ہے۔ ’بچوں کا اسلام اور آل پاکستان ٹور‘ نے تو ہمیں ”خیالی پلاؤ‘ کے مزے کرادیے۔ ویسے پندرہ روزہ سفر کے بارے میں بتاتے تو چلیں کہ کیسا گزرا؟(لکھنا تھا مگر حسب عادت موخر ہوتا جارہا ہے) ’ایک لکیر، ایک سبق‘ دوسروں کو نیچا دکھائے بغیر، اپنا آپ پیدا کرنے کا ہنر سکھاتی یہ تحریرکمال ہے۔ ’میر حجاز‘ نجاشی کے دربار تک رسائی تو حاصل کرلی کفارِ مکہ نے مگر منصف بادشاہ نے یکطرفہ فیصلہ کرنے کی سختی سے مذمت کردی۔ یہ ہوتی ہے اصل پسپائی! ’’اذان‘ کیا ہی قابلِ رشک موت پائی موذن صاحب نے۔’ان کے کوچے میں‘ معلوماتی تحریر رہی۔ کعبۃ اللہ میں بارش کا خوب صورت منظر دیکھنے کی سعادت ہر کسی کو نصیب ہو۔ آمین! ’مسکراہٹ کے پھول‘ بھلکڑ پروفیسر نے تو حد ہی کردی۔ ’آمنے سامنے‘ میں ہمارے خط کے جواب میں آپ نے جو کہا اس نے ہمیں ’کوئی بات نہیں جی‘ کہنے پر مجبور کردیا۔ 17 خطوط کے سنگ خوب صورت محفل اختتام پذیر ہوئی اور ہم چلے اگلی محفل تک کے انتظار میں۔شمارہ 1091 میں ’ایک تصوراتی سفر کی روداد‘ جگہ جگہ پڑاؤ کی مختصر مگر دلکش روداد ہے گویا چشمِ تصور میں ہم بھی محوِ سفر ہیں۔ ڈاکٹر نوید احمد کی یاد میں‘ لکھی تحریر غمزدہ کر گئی۔ بھائی نے ہمیں ان کی وفات کے فوری بعد ہی اطلاع دی تھی مگر ہمیں بالکل یقین نہ آیا۔ اللہ جی اس مشکل وقت میں ان کے خاندان کا سہارا بن جائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں، آمین! ’مسکراہٹ کے پھول‘ مزے دار رہے۔ یہ وزارت کافی عرصے سے خالی پڑی تھی، اقصیٰ بہنا نے بڑی ذمے داری سے یہ فرض اپنے ذمے لیا ہے۔(اقرأ فرید۔ پنڈی گھیب، اٹک)
ج: اللہ تعالیٰ ان کی ہمت سلامت رکھیں، آمین!
n شمارہ نمبر۳۰۱۱ میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کی ترغیب دی گئی۔ ’سکہ رائج الوقت‘ہماری روز مرہ زندگی میں پیش آنے والی واقعات کی آئینہ دار رہی، آخر میں سبق بہت عمدہ دیا گیا۔ ’میں بڑا ہو کر کیا بنوں؟‘ بچوں کی نفسیات کو اجاگر کرتی تحریر رہی۔ دستک میں الف نمبر کے مقالے کی خبر ملی جو بلاشبہ اس عظیم الشان شمارے کے لیے بہت اہم بات ہے کہ اب یہ یہ نمبر سرکاری ریکارڈ میں بھی محفوظ ہو گیا ہے۔’سونے کی اینٹ‘ زندگی کی حقیقت کو اجاگر کرتی تحریر رہی۔’وہ ایک قدم‘ علی اکمل تصور صاحب کی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی کہانی تھی، ہم ہر وقت اپنے ملک کے بارے میں شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمارا کردار اس ملک کی ترقی کے حوالے سے کیا ہے؟ ’سورج کی کرن نے کیا دیکھا؟‘خوبصورت انداز میں لکھی گئی تحریر جس میں عمدگی سے صبح جلدی اٹھنے کے بارے میں اچھا سبق دیا گیا۔’بڑے قد والا‘ رلا دینے والی تحریر رہی۔ماحول سے مطابقت اچھا سائنسی مضمون رہا۔(محمد دانیال حسن چغتائی کہروڑپکا ضلع لودھراں)
ج:جی ہاں! اَلْف نمبر کا یہ بھی ایک ریکارڈ بن گیا ہے الحمدللہ!