Mimbar Ayubi

منبرِ ایوبی

ام محمد عبداللہ

”عمر! تمھیں اپنے کام میں کامیابی ہوئی؟“
اسد نے تجسس سے اپنے چچا زاد بھائی عمر کو لکڑیوں اور ایک چھوٹی آری کے ساتھ کام کرتے دیکھ کر کہا۔

عمر کے والد بہت ماہر بڑھئی تھے۔ اُن کی مارکیٹ میں اپنی دکان تھی۔اسکول سے آنے کے بعد شام میں عمر دُکان میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے آجاتا تھا۔ اب تو وہ کافی کام سیکھ چکا تھا۔
عمر پچھلے کئی دنوں سے اِن لکڑیوں کو جوڑ کر کچھ بنانا چاہ رہا تھا مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہوا تھا۔

”نہیں، ابھی تک تو نہیں۔“عمر نے نفی میں سر ہلایا۔
”لیکن مجھے امید ہے کہ میں جلد ہی کامیاب ہو جاؤں گا ان شاء اللہ تعالیٰ!“

اس نے پر امید لہجے میں جواب دیا۔
”اچھا! آج تو بتاؤ ہی دو کہ آخر بنا کیا رہے ہو؟ کیا اسکول سے کوئی پراجیکٹ ملا ہے؟“

اسد نے اشتیاق سے پوچھا۔ویسے اس کی یہ عادت اچھی تھی کہ جب تک کوئی خود سے کوئی بات نہ بتائے وہ پوچھتا تھا نہ تجسس کرتا تھا، کئی دن سے عمر کا اچھا دوست ہونے کے باوجود اس نے یہ بات نہیں پوچھی تھی مگر آج اشتیاق غالب آگیا تھا۔ وہ دونوں اچھے دوست تھے۔ ہم عمر اور نویں جماعت کے طالب علم تھے مگر دونوں کے اسکول الگ تھے۔
”نہیں! اسکول کا پراجیکٹ تو نہیں ہے۔“ عمر نے اسد کی جانب دیکھا۔ ”کسی نے ایک امانت حوالے کی تھی، اُس کی حفاظت نہیں ہو پائی لیکن اب وہ امانت لوٹانی ہے۔“

عمر کے چہرے پر غم و فکر کے سائے لہرا کر رہ گئے تھے۔
”اچھا چلو مجھے امی جان نے مارکیٹ سے کچھ سودا لانے کا کہا ہے، تم بھی میرے ساتھ چلو۔“

اسد نے مزید کریدنے کی بجائے بات بدل دی۔
پھر وہ دونوں مارکیٹ کی جانب چل پڑے۔

٭……٭
”عمر بیٹا!آپ ابھی تک جاگ رہے ہیں! بس اب بتی بند کر کے سو جائیں۔“

امی جان نے عمر کے کمرے سے روشنی آتی دیکھی تو اس کے پاس چلی آئیں۔
عمر اپنے بستر پر بیٹھا تکیے سے ٹیک لگائے کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔

”امی جان!“اس نے سر اٹھا کر امی جان کی طرف دیکھا تو اس کی سرخ بھیگی آنکھیں دیکھ کر امی جان کا تو دل ہی کانپ کر رہ گیا۔
”کیا ہوا عمر؟ تم رو کیوں رہے ہو؟“

”اگست کا مہینہ شروع ہوتا ہے ناں امی جان! تو میرا دل بہت اداس اور بوجھل ہو جاتا ہے۔ میں اپنے آپ کو بہت کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ میں اکثر اپنے کمرے میں بند ہو کر رو بھی پڑتا ہوں۔“ وہ بہت اداس تھا۔
امی جان نے ایک گہری ٹھنڈی سانس بھری۔ وہ اس کا دُکھ سمجھ رہی تھیں۔

کچھ عرصہ پہلے عمر کی آن لائن ایک تیرہ سالہ فلسطینی بچے نائل سے ملاقات ہوئی تھی جس کے سب گھر والے اسرائیلی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کیے جا چکے تھے اور ترکی کی ایک فلاحی تنظیم کے بے اولاد رُکن نے اس بے یارو مددگار بچے کو گود لے لیا تھا۔ یہ بچہ اب نہ صرف ترکی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا بلکہ فلسطین سے متعلق نیٹ پر اپنا ایک پیج بھی چلا رہا تھا اور دنیا بھر میں اپنے ہم عمر بچوں کو فلسطینی بچوں کے دکھ سے بھی آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ نائل کی انہی کوششوں کے باعث عمر اہلِ فلسطین کے دکھ اور امت کی غفلت کو محسوس کر رہا تھا۔
”مگر امی جان! اس مرتبہ میں نے عزم کیا ہے کہ بے بسی کا یہ احساس اتار پھینکوں گا اور ضرور ضرور کچھ کروں گا۔“

اب عمر کی آواز و انداز میں امید اور اعتماد تھا۔
امی جان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، اس کی کامیابی کی دعا کی اور سو جانے کی تلقین کرتے ہوئے بتی بجھا کر چلی آئیں۔

٭……٭
عمر کے اسکول میں صبح کی اسمبلی ہو رہی تھی۔ آج اسمبلی کروانے کی باری عمر کی جماعت کی تھی اور اسمبلی میں پریزینٹیشن عمر نے دینی تھی۔

اپنی باری پر وہ اعتماد سے چلتا ہوا اسٹیج تک آیا۔
سب طلبہ حیران تھے کہ عمر اپنے ساتھ کیا لے کر آیا ہے؟

”عزیز ساتھیو! آپ حیران ہیں کہ اپنے ساتھ میں کیا لے کر آیا ہوں؟ تو سنیے یہ منبر صلاح الدین ایوبی کا لکڑی سے بنایا گیا ایک ماڈل ہے۔ اِسے میں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔“
”منبر صلاح الدین ایوبی!؟“

کچھ لڑکے بڑبڑائے۔ اُن کے لیے یہ سب بہت نیا تھا۔
”جی ہاں منبر صلاح الدین ایوبی۔ عزیز ساتھیو! ہم سب کو تمام انبیائیکرام اور بالخصوص اپنے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بے انتہا عقیدت و محبت ہے۔ آپ سے وابستہ ہر شے ہمیں عزیز تر ہے، یہی وجہ ہے کہ جب پہلی صلیبی جنگ(The First Crusade)گیارہویں صدی عیسوی کے آخرمیں مسیحی یورپ کی جانب سے مسلمانوں پر مسلط کی گئی اور جس کے نتیجے میں ۵۱جولائی ۹۹۰۱ء میں القدس شہر اور مسلمانوں کی تیسری مقدس ترین مسجد، وہ مسجد جہاں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شبِ معراج میں تمام انبیا کرام علیہم السلام کی امامت کروائی اور جہاں سے آپ سفر معراج پر روانہ ہوئے، پر صلیبیوں نے قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کا بے دریغ خون بہایا تو انبیاء کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کا دَم بھرنے والوں کی آنکھوں سے نیندیں اور لبوں سے مسکراہٹیں غائب ہو گئیں۔ اگر کوئی فکر باقی بچی تو بس وہ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ کی آزادی کی فکر تھی۔“

اسمبلی ہال میں موجود سب بچے روانی سے بولتے عمر کو دَم سادھے سن رہے تھے۔ وہ جو ہمہ وقت اسپورٹس چینلز کے زیر سحر تھے، ایک یکسر مختلف موضوع سن رہے تھے۔
”یہی وجہ تھی کہ سلطان نور الدین زنگی اور اُن کے دست راست اور جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی نے پختہ عزم کیا کہ وہ بیت المقدس کو کفار کے تسلط سے آزاد کروا کے ایک بار پھر وہاں اسلام کا عَلم بلند کریں گے۔

سلطان نور الدین زنگی جذبہئ جہاد سے سرشار یہ پختہ یقین رکھتے تھے کہ ایک نہ ایک دن وہ ضرور مسجد الاقصیٰ کو آزاد کروا لیں گے اور سرزمینِ اقصی ایک بار پھر مومنین کے سجدوں سے منور ہوگی۔ اسی لیے انھوں نے اس محبوب و مسجود الانبیا مسجد کی آزادی کے لیے جہاں سرفرشوں کا لشکر تیار کیا وہیں مسجد میں نصب کرنے کے لیے ایک منبر بھی تیار کرنے کا حکم دیا۔ یہ منبر شام کے شہر حلب میں تیار ہوا تھا۔ اُس کو جوڑنے کے لیے کسی قسم کی گوند یا کیل استعمال نہیں ہوئے تھے بلکہ لکڑی کو ہی مختلف طریقوں سے خوب صورتی اور مہارت سے تراش کر بنایا اور جوڑا گیا تھا۔
”دوستو! یہ میں نے اسی منبر کا ماڈل تیار کرنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ تعالیٰ کو قوی امید تھی کہ وہ بیت المقدسٰ آزاد کروا کے دَم لیں گے، آج میں بھی ایسے ہی عزم کرتا ہوں کہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے اپنا تن، من دھن وار دوں گا۔“

جوش سے عمر کی آواز بھرا گئی تھی۔
اسمبلی ہال اللہ اکبر کے نعروں سیگونج اٹھا تھا۔

سب کی نگاہیں عمر کے بنائے گئے منبر کے ماڈل پر مرکوز تھیں۔
”مگر دوستو!سلطان نور الدین زنگی کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ بیت المقدس کی آزادی سے پہلے ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اُن کے بعد ان کے جانشیں اور مسلم قوم کے بہادر و غیور سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے بہادری اور ملی غیرت کی شاندار تاریخ رقم کرتے ہوئے ایک طویل اور ان تھک جدوجہد کے بعد ۷۸۱۱ء میں مسجد اقصیٰ پر۸۸سالہ صلیبیوں کے غاصبانہ قبضے کا خاتمہ کیا اور اس عظیم الشان منبر کو محرابِ مسجد کے قریب نصب کر کے دنیائے عالم پر ثابت کیا کہ مسجداقصیٰ کے حقیقی وارث امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا کوئی اور نہیں ہیں۔“

ہال ایک بار پھر نعرہ تکبیر سیگونج اٹھا۔
ایک بچے کے جذبہ ایمانی سے مغلوب ہو تمام اساتذہ اور ہیڈماسٹر کی آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔

”لیکن دوستو! اس منبر کی کہانی ابھی باقی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ناجائز یہود ریاست اسرائیل نے فلسطین کے عوام پر ظلم و ستم اور غیر انسانی سلوک کی انتہا کر رکھی ہے۔ گاہے بگاہے مسجد اقصیٰ اور اس سے منسوب ہر شے ان کے بغض و عناد کا شکار ہو رہی ہے۔۱۲ اگست ۹۶۹۱ء کو آسٹریلوی نژاد یہودی دہشت گرد ڈینس مائیکل روہن نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگا دی جس میں دیگر نقصانات کے ساتھ ساتھ مسلم تاریخ کا یہ نایاب و شاندار منبر کہ جو سات صدیوں سے مسلم کاریگری و ہنر مندی کے ساتھ ساتھ اُن کی غیرت و حمیت اور بہادری و شجاعت کا منہ بولتا ثبوت چلا آ رہا تھا، جلا دیا گیا۔“
عمر نے لمحہ بھر کو رک کر گہری سانس لی۔

سب طلبہ کے چہروں پر دُکھ کا سایہ سا لہرا گیا تھا۔
”جی ہاں عزیز ساتھیو! وہ منبر تو جل گیا مگر اس کی راکھ ہمیں پکارتی ہے کہ اے فاتح بیت المقدس حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالیٰ کے جانشینو!

اے سپہ سالار فتوحاتِ شام امین الامت حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ تعالیٰ کے وارثو!
اٹھو……!“

عمر اپنے ہم عمروں اور ہم جماعتوں کو جذبے اور جوش سے پکار رہا تھا۔
”بیت المقدس کی آزادی اور تحفظ کے لیے، مظلوم فلسطینیوں کے حقوق کے لیے غفلت کی نیند سے جاگ اٹھو، کھیل تماشوں کو چھوڑ کر اپنے اسلاف کی وراثت سنبھالو۔“

عمر نائل اور اُس جیسے بے شمار فلسطینی بچوں کے دُکھ کی آواز بن کر اسکول ہال میں گونج رہا تھا۔ اس کی آواز مسجدِ اقصیٰ کے وارثوں، پاکستانی بچوں کے دلوں پر دستک دے رہی تھی:
”میرے ساتھیو! بیت المقدس کے حقیقی وارث امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سوا، ہمارے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ آؤ ہم بھی سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ کی مانند مسجد اقصیٰ میں نصب کرنے کے لیے کوئی منبر تیار کریں، ہم میں سے بھی کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرح وہ منبر ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھیں اور مسجد اقصیٰ میں اسے نصب کر کے دَم لیں، ہم میں سے بھی کوئی تو اٹھے، کوئی تو…………“

عمر کی آواز شدت غم سے بھرا گئی تھی۔ وہ یکایک چپ ہوگیا۔
ہال میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی، جسے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آواز نے توڑا:

”پیارے عمر! میں تمھارے علم اور جذبے کو سلامکرتا ہوں اور تمھارے درد کی پزیرائی کرتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ اسکول میں اب مسجد اقصیٰ آگہی مہم شروع کی جائے گی، جس میں ہم قرآن و حدیث سے اس عظیم مسجد اور سرزمین کی اہمیت و فضیلت اور اس کی تاریخ کے بارے میں جانیں گے، اس کی موجودہ صورت حال اور اس کو لاحق خطرات کے بارے میں جانیں گے، اور یہ بھی دیکھیں گے کہ ارضِ فلسطین کی آزادی کے لیے ہم سب کیا عملی اقدامات اٹھا سکتے ہیں؟“
ہیڈ ماسٹر صاحب کے اعلان پر جہاں عمر خوشی سے سرشار ہوا تھا، وہیں ہال ایک بار پھر پورا ہال نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا تھا۔
اس بار اساتذہ کی آواز طلبہ سے بھی زیادہ بلند تھی۔

٭٭٭