مسئلہ فلسطین اور سلامتی کونسل کی آمریت

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں غیر مشروط طور پر فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا گیا۔یہ قرارداد واضح اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی، قرارداد کے حق میں 164 ممالک نے ووٹ دیا، جبکہ صرف آٹھ ممالک نے مخالفت کی اور نو ممالک نے ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ قرارداد کے متن میں جولائی 2024ء میں عالمی عدالت انصاف کی رائے کا حوالہ دیا گیا، جس میں کہا گیا کہ قابض اسرائیل کی فلسطینی زمینوں پر موجودی غیر قانونی ہے اور اسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت پر شدید منفی اثر ڈالتی ہے۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کے فیصلے قانونی طور پر لازمی نہیں ہوتے، تاہم یہ قابض اسرائیل کی فلسطینی زمینوں پر مسلسل قبضے کے باعث اسے بین الاقوامی فورمز میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی تنہائی کا واضح اظہار ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کے حمایت میں بھاری اکثریت سے منظور ہونے والی یہ قرارداد محض ایک سفارتی پیشرفت نہیں، بلکہ عالمی ضمیر کی اجتماعی گواہی ہے۔ ایک سو چونسٹھ ممالک کا اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینا اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ دنیا کی غالب اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنا، انہیں بے وطن اور بے گھر کرنا اور ان کے قومی وجود سے انکار کرنا ناجائز، غیر منصفانہ اور اخلاقی و قانونی طور پر ناقابل قبول ہے۔ یہ ووٹ دراصل اس بیانیے کی شکست ہے جو طاقت، جبر اور قبضے کو سلامتی اور دفاع کے نام پر جائز قرار دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔یہ قرارداد اس بنیادی اصول کی توثیق ہے کہ فلسطینی عوام کو ایک آزاد، خود مختار ریاست کے قیام کا پورا حق حاصل ہے اور اس حق میں رکاوٹیں کھڑی کرنا بین الاقوامی قانون، انسانی اقدار اور اقوام متحدہ کے منشور کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے مسلسل غیر قانونی یہودی آباد کاری، زمینی حقائق کو بزور طاقت تبدیل کرنے کی پالیسی اور فلسطینی ریاست کے قیام کو ناممکن بنانے کی کوششیں اب عالمی برادری کی نگاہ میں غیر قانونی اور غیر اخلاقی تسلیم کی جا رہی ہیں۔ جنرل اسمبلی کا یہ ووٹ اسی اجتماعی شعور کا اظہار ہے۔یہ قرارداد اس بات پر بھی مہرِ تصدیق ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد منصفانہ اور پائیدار حل آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ یہی پاکستان کا سرکاری اور قومی موقف ہے، یہی عالمِ اسلام کی اجتماعی آواز ہے اور یہی وہ اصولی موقف ہے جس پر دنیا کے بیشتر ممالک عرصہ دراز سے قائم ہیں۔ اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سب سے نمائندہ اور موقر فورم نے بھی اس موقف کی کھلے الفاظ میں تائید کر دی ہے، جس سے اس جدوجہد کو اخلاقی اور سیاسی طور پر مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ جاتی ڈھانچے میں جنرل اسمبلی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ وہ واحد فورم ہے جس میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک شریک ہوتے ہیں، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، طاقتور ہوں یا کمزور سب کے سب جنرل اسمبلی میں برابری کی بنیاد پر شریک ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر جنرل اسمبلی کو اقوام متحدہ کا سب سے نمائندہ اور جمہوری فورم سمجھا جاتا ہے اور اس فورم کی اکثریتی آواز کو پوری دنیا اور دنیائے انسانیت کی مشترکہ آواز سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جنرل اسمبلی سے فلسطینیوں کے حق میں آنے والا یہ فیصلہ دراصل عالمی رائے عامہ کا آئینہ دار ہے۔اس کے باوجود المیہ مگر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے اسی سب سے موقر اور نمائندہ فورم کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کا اختیار نہیں، کیونکہ اصل طاقت سلامتی کونسل کے پاس ہے، جس کے صرف پندرہ ارکان ہیں اور ان میں بھی حقیقی اختیار صرف پانچ مستقل ارکان کے ہاتھ میں ہے جو ویٹو پاور رکھتے ہیں۔ سلامتی کونسل کا یہ ڈھانچہ نہ صرف جمہوری اصولوں کے منافی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے بنیادی مقاصد سے بھی متصادم ہے۔ دنیا آج جمہوریت کے دور میں سانس لے رہی ہے۔ عالمی طاقتیں بھی خود کو جمہوریت کی علمبردار کہتی ہیں، مگر سلامتی کونسل کو ایک ایسے آمرانہ انداز میں چلایا جا رہا ہے جو پوری انسانیت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

سلامتی کونسل کی اس آمریت کے پس منظرمیں ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کا یہ جملہ غیر معمولی معنویت رکھتا ہے کہ ”دنیا پانچ سے بڑی ہے۔” حقیقت یہی ہے کہ دنیا کی تقدیر کو پانچ ویٹو پاور رکھنے والی ریاستوں کی مرضی کے تابع کر دینا انسانیت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ دنیا کے کئی بڑے سیاسی اور جغرافیائی تنازعات آج بھی لاینحل ہیں اور ان کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ویٹو پاور اور سلامتی کونسل کا یہی غیر جمہوری ڈھانچہ ہے۔ کشمیر ہو، فلسطین ہو، برما ہو، یوکرین ہو یا سوڈان، جب بھی عالمی برادری کسی مسئلے کے منصفانہ حل کیلئے متفقہ لائحہ عمل تیار کرتی ہے اور اسے سلامتی کونسل میں پیش کیا جاتا ہے، تو پانچ بڑی طاقتوں میں سے کوئی ایک اسے اپنے مفادکی بنیاد پر ویٹو کر دیتی ہے۔ یوں پوری دنیا کی اجتماعی خواہش ایک ہاتھ کے اشارے پر ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ اس غیر منصفانہ نظام کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ پوری دنیا جب کسی نہ کسی شکل میں فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق کرتی ہے تو سلامتی کونسل میں امریکا اسرائیل کی غیر مشروط حمایت میں اس راستے کو بند کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود مسئلہ فلسطین آج بھی حل طلب ہے اور انسانیت مسلسل خون ریزی کا سامنا کر رہی ہے۔

اقوام متحدہ کا قیام دوسری جنگ عظیم کے بعد اس مقصد کیلئے عمل میں آیا تھا کہ انسانیت کو دوبارہ جنگوں کا ایندھن بننے سے بچایا جائے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ادارہ اپنے اس مقصدِ وجود میں کامیاب ہو سکا؟ حقیقت یہ ہے کہ سلامتی کونسل کے غیر جمہوری ڈھانچے اور ویٹو پاور کی آمریت نے اقوام متحدہ کو اس کے اصل مشن سے دور کر دیا ہے۔ جنرل اسمبلی کی جانب سے فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کے حق میں منظور کی گئی اس قرارداد کا ہم دلی خیر مقدم کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ماننا ہوگی کہ محض قراردادیں کافی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقوام متحدہ اپنے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کرے، سلامتی کونسل کی آمریت کا خاتمہ کیا جائے اور فیصلوں کو اکثریت کی مرضی کے تابع بنایا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے انسانیت کو اسلحہ کے بیوپاریوں کے رحم و کرم سے نجات مل سکتی ہے، فلسطین سمیت دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور یہ دنیا ہر رنگ، نسل، زبان اور مذہب و ملت کے انسانوں کے لیے امن و سکون سے رہنے کی جگہ بن سکتی ہے۔