سڈنی فائرنگ کیس، چار اہم پہلو

آسٹریلیا کے سب سے بڑے شہر سڈنی کے معروف بونڈائی ساحل پر ہونے والی فائرنگ جس میں پندرہ کے لگ بھگ شہری ہلاک ہوئے، محض ایک دہشت گردی کا سانحہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک ایسا واقعہ بن گیا جس نے مغربی معاشروں میں پھیلے کئی گہرے تضادات کو ایک ساتھ بے نقاب کر دیا۔ اس ایک واقعے کے بعد اسلاموفوبیا، میڈیا کا سنسنی خیز بیانیہ، ریاستی سکیورٹی اور اخلاقی جرات، یہ چاروں سوال ایک ہی جگہ آ کھڑے ہوئے۔ بظاہر یہ ایک فرد کی کارروائی تھی، مگر ردعمل میں الزامات، جھوٹے پروپیگنڈے اور تعصبات کی وہ پرانی لہر دوبارہ اٹھتی دکھائی دی جو ہر ایسے واقعے کے بعد دیکھی جاتی ہے۔

خبر کی تفصیل سے آپ سب واقف ہی ہوں گے۔ دو باپ بیٹا نے سڈنی کے ساحل بونڈائی پر ہونے والی یہودیوں کی ایک تقریب پر فائرنگ کر دی تھی جس سے پندرہ لوگ ہلاک ہوگئے جبکہ سکیورٹی حکام کی فائرنگ سے ایک ملزم مارا گیا جبکہ اس کا بیٹا شدید زخمی حالت میں گرفتار ہوگیا۔ تاہم بونڈائی فائرنگ کیس کو محض ایک خبر نہیں، بلکہ چند اہم پہلوؤں کے ساتھ دیکھنا ضروری ہے۔

سب سے پہلا پہلو اسلامو فوبیا کا ہے جس سے مغرب دوچار ہے۔ یہ حملہ ایک فرد کی کارروائی تھی، جو داعش سے متاثریا رابطے میں تھا، مگر ردعمل میں اسلام اور مسلمانوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ جیسے ہی فائرنگ کا واقعہ رپورٹ ہوا اور یہ اطلاع ملی کہ حملہ آور دو باپ بیٹا مسلمان ہیں، تو فوری طور پر سوشل میڈیا پر ”مسلم ٹیرر”، ”اسلامک وائلنس”، ”مسلم ڈینجرس فار ویسٹ” جیسے ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ کے ساتھ خطرناک بیانیے گردش کرنے لگے۔ حالانکہ آسٹریلوی سکیورٹی اداروں نے فوری طور پر اسے انفرادی ریڈیکل ازم قرار دیا تھا۔ یہ بھی پتہ چل گیا کہ کوئی مسلم تنظیم، کمیونٹی یا مسجد اس میں شامل نہیں تھی۔ اس کے باوجود پروپیگنڈا کی ایک لہر آئی جو آسٹریلیا سے لے کر یورپ اور امریکا تک پھیل گئی۔ یہ مغرب میں پرانا پیٹرن ہے اگر حملہ آور مسلمان ہو تو اس کا مذہب زیرِ بحث لے آئیں گے۔ اگر حملہ آور غیر مسلم ہو تو پھر ذہنی بیماری، نفسیاتی مسائل کا ذکر ہوگا اور اسے ایک انفرادی فعل کہا جائے گا۔ یہی اسلاموفوبیا کا اصل مکینزم ہے۔ فرد کے جرم کو مذہب کے کھاتے میں ڈال دینا۔ یہ حملہ دہشت گرد تنظیم داعش سے متاثر ایک فرد نے کیا، مگر سزا ایک بار پھر پوری مسلم کمیونٹی کو دینے کی کوشش کی گئی۔

دوسرا پہلو پاکستان مخالف بیانیہ اور بھارتی واسرائیل کا شرانگیز پروپیگنڈا ہے۔ حملے کے فوری بعد اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ ملزم باپ بیٹا پاکستانی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی اور انڈین سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا شروع ہوگیا۔ مبینہ طور پر پرو را انڈین سوشل میڈیا ہینڈلز مسلسل اور متواتر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہے۔ یہ اور بات کہ دو دن بعد ملزم انڈین نیشنل نکلا اور اس کے پاس پاسپورٹ بھی انڈین ہی تھا۔

اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے خلاف اس پروپیگنڈے کے باوجود آسٹریلین حکام نے اصل حقیقت چھپائے رکھی۔ تفتیش کانام لے کر اس بنیادی معلومات کو بھی پریس کے سامنے نہیں لایا گیا۔ یہ تو فلپائنی حکام نے جب پریس کانفرنس کر کے بتایا کہ ملزم اسد اکرم انڈین پاسپورٹ پر فلپائنی دارالحکومت منیلا پہنچا تھا جبکہ اس کے بیٹے کے پاس آسٹریلین پاسپورٹ تھا۔ تب آسٹریلین حکومت نے بھی مجبوراً اس کی تائید کی اور پھر انڈین پولیس حکام کو بھی ماننا پڑا کہ ملزم انڈین ہی ہے۔ ساجد اکرم نے انڈین پاسپورٹ پر سفر کیا۔ اس سے پہلے دو دنوں تک یروشلم پوسٹ اور انڈین سوشل میڈیا اکاؤنٹس پاکستانی ٹیرر نیٹ ورک اور آئی ایس آئی اینگل جیسے ہیش ٹیگ کے تحت شور مچاتے رہے۔ یہ دراصل محض غلطی نہیں بلکہ منفی بیانیہ سازی تھی۔ بھارت کا پرانا طریقہ ہے جہاں مسلمان، وہاں خطرہ اور جہاں خطرہ وہاں پاکستان۔ جب حقیقت سامنے آئی، تو خاموشی یا خبر کو دبا دینا۔

اب یہ کنفرم ہو چکا ہے کہ مارا جانے والا ملزم ساجد اکرم بھارتی شہر حیدرآباد (صوبہ تلنگانہ) کا مکین تھا، وہ انیس سو اٹھانوے میں آسٹریلیا گیا تھا مگر اسے شہریت نہیں مل پائی، وہ رہائشی ویزے پر وہاں مقیم تھا جبکہ اس کا بیٹا نوید اکرم چونکہ پیدا ہی سڈنی میں ہوا، اس لئے وہ آسٹریلوی شہری تھا۔ تلنگانہ پولیس کے مطابق پچھلے چند برسوں میں ساجد اکرم نے بھارت کے چھ وزٹ کئے تھے، اپنے خاندان والوں سے ملاقاتوں کے لئے۔ بھارتی پولیس اب بے تابی سے وضاحتیں کر رہی ہے کہ یہ عام وزٹ تھے اور کسی قسم کی دہشت گردی کے ساتھ ان کا کنکشن نہیں۔ تاہم غیر جانبدار انکوائری ہوئی تو شاید اصل حقائق سامنے آئیں۔ آسٹریلوی پولیس کا اندازہ ہے کہ دونوں باپ بیٹا فلپائن کے ایک جزیرے میں شدت پسندی کی ٹریننگ لینے گئے تھے، وہ چار ہفتے وہاں قیام کے بعد اٹھائیس نومبر کو واپس سڈنی پہنچے۔

تیسرا پہلو اس واقعے میں ہیرو بن جانے والا ایک شامی مسلمان احمد الاحمد ہے۔ دراصل احمد الاحمد ہی وہ شخص ہے جس نے اسلامو فوبیا کا بیانیہ توڑ دیا۔ احمد الاحمد دو بچوں کا باپ ایک عام دکاندار ہے۔ وہ موقع پر موجود تھا، اس نے حملہ آور کو اندھادھند فائرنگ کرتے دیکھا تو دیوانہ وار چھلانگ لگا کر اپنی جان داؤ پر لگاتے ہوئے ملزم کو قابو پا لیا، اس کی گن چھین لی، اگرچہ اسے تین چار گولیاں لگ گئیں، مگر اس کی کوشش ہی سے قاتل حملہ آور نہتا ہوگیا، ورنہ نجانے کتنے لوگ مزید مارے جاتے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم اور میڈیا نے اسے قومی ہیرو قرار دیا۔ صدر ٹرمپ جیسے ٹیڑھے شخص نے بھی احمد کی تعریف کرتے ہوئے اسے شاندار انسان قرار دیا ہے۔ احمد الاحمد ہسپتال میں زیرعلاج ہے، آسٹریلوی وزیراعظم اس کی عیادت کر چکے ہیں، اس کے علاج معالجے کے لئے عوامی سطح پر ایک بڑی کمپین چل رہی ہے، بے شمار انعامات کا اعلان ہو چکا ہے۔ احمد کے والد کا بیان آیا ہے کہ میرے بیٹے نے بہت سی جانیں بچائیں، یہ وہ کام ہے جو اسلام ہر مسلمان کو تلقین کرتا ہے، انسانیت کی فلاح وبہبود۔ یہ وہ حقیقت ہے جو اسلاموفوبیا کو بے نقاب کرتی ہے۔ اگر مذہب تشدد سکھاتا تو احمد پیچھے ہٹ جاتا مگر اس نے انسانیت کو چُنا، اپنی جان داؤ پر لگا کر دوسروں کی جان بچانے کو ترجیح دی۔ درحقیقت بونڈائی بیچ پر اسلام کی نمائندگی کسی دہشت گرد نے نہیں، ایک زخمی مسلمان نے کی۔

اس پورے معاملے کا چوتھا پہلو آسٹریلیا کے گن لاز اور سکیورٹی کی ناکامی کا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکا کے برعکس آسٹریلیا دنیا کے سخت ترین گن قوانین رکھتا ہے۔ وہاں بغیر لائسنس گن نہیں رکھی جا سکتی اور لائسنس بہت سی کڑی شرائط، چیکنگ اور چھان بین کے بعد دیا جاتا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوا کہ ایک مشکوک شخص اور اس کے والد کو بڑی گنیں رکھنے کے چھ لائسنس دے دئیے گئے؟ امریکا میں سیلف ڈیفنس یعنی اپنی حفاظت کے لئے گن لائسنس مل جاتا ہے، آسٹریلیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں سیلف ڈیفنس کوئی دلیل نہیں۔ لائسنس، رجسٹریشن، بیک گراؤنڈ چیک لازمی ہوتا ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ملزم نوید اکرم کی چھ سال پہلے تفتیش ہو چکی تھی کہ اس کا داعش کے کسی کمانڈر سے تعلق ہے، تاہم سکیننگ کے بعد اسے کلیئر کر دیا گیا۔ سوال یہ نہیں کہ قوانین سخت تھے یا نہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ انٹیلیجنس الرٹس، انتہاپسندانہ رجحانات اور آن لائن سرگرمی کو لائسنسنگ سے کیوں نہیں جوڑا گیا؟ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے صرف قانون کافی نہیں بلکہ مسلسل نگرانی ضروری ہے۔ یہ بھی کہ تیسری دنیا کے پاکستان جیسے ممالک کے کمزور نظام کے باعث دہشت گردی ہو جاتی ہے تو آسٹریلیا کا جدید ترین نظام بھی ناکام ہوجاتا ہے۔

بونڈائی بیچ فائرنگ کیس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا نقصان صرف جانوں کا ضیاع نہیں ہوتا، بلکہ سچ کا بکھر جانا بھی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو بغیر تصدیق کے الزام پاکستان اور مسلمانوں کی طرف موڑنے میں مصروف رہے، اور دوسری طرف وہ دلیر، باہمت مسلمان تھا جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر قاتل کو روکا۔ اگر یہ واقعہ کسی ایک بات کی واضح شہادت ہے تو وہ یہ کہ دہشت گردی کا مذہب نہیں ہوتا، مگر انسانیت کا ایک واضح چہرہ ضرور ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے وہ چہرہ اکثر اسلاموفوبیا کے شور میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر بونڈائی کے ساحل پر وہ چہرہ ایک بار پھر پوری شدت سے سامنے آ گیا۔