اسٹاک مارکیٹ میں سبھی خوش ہیں کہ انڈکس اوپر جا رہا ہے۔ حکومتی بیانیہ زور وشور سے جاری ہے کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ پاکستان شاہراہ ترقی پر گامزن ہے۔ ایک طرف وہ معیشت ہے، اس کے اعداد وشمار ہیں جو اسکرین پر آکر جگمگا رہے ہیں، عوام کو نوید سنائی جا رہی ہے۔ اعداد وشمار کے ہجوم میں تالیاں بجائی جا رہی ہیں، اسٹاک مارکیٹ ہو یا معاشی شرح نمو ہو ہر طرف ‘سب اچھا ہے’ کے نغمے اچھالے جا رہے ہیں اور دوسری طرف وہ غریب مزدور ہے جس کے ہاتھ میں ماں کے دوا کی پرچی ہے۔ اس کی پیشانی پسینے سے شرابور ہے۔ فیکٹری کے دروازے پر خاموش کھڑا ہے۔ بینر لگا ہوا ہے۔ آج فیکٹری بند رہے گی کیونکہ مال کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ امریکی ٹیرف میں 19فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ دیگر ملکوں کے مقابلے میں جارحانہ ٹیکس بڑھ گئے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث کارخانہ دار کے لیے اب کارخانے کو تین شفٹ سے گھٹا کر دو شفٹ کردیا گیا تھا، پھر ایک شفٹ پر آگئی۔ مزدور ہنرمند تھا کاریگر تھا۔ اسے ایک شفٹ میں مزدوری مل جاتی تھی۔ ماں کے لیے ہفتے میں ایک دو دن کی دوا بھی آجاتی تھی لیکن آج فیکٹری ہی بند ہے۔ اب کیا ہوگا؟
دوسری طرف معاشی اسٹیبلائزیشن کا حکومتی بیانیہ، جس پر عالمی مالیاتی ادارے داد بھی دے رہے ہیں اور مزید شرائط لاد بھی رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے ملک میں دو معیشتی نظام چل رہا ہے۔ ایک طرف خوشنما حوصلہ افزا اعداد وشمار ہیں، اسٹاک مارکیٹ عروج پر ہے اور دوسری طرف فیکٹریاں زوال کا شکار ہیں۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جو ملک کی معیشت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ اگر بہت زیادہ غور سے دیکھا جائے تو اب ملک کی معیشت تین حصوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے۔ ایک طرف اسٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی مارکیٹ ہے جہاں پلاٹ، مکان، زمین، جائیداد، بند کارخانے، خالی گودام، غیرآباد سوسائٹیوں کے پلاٹ، رہائشی اور کمرشل کے نام سے، مختلف طور طریقوں سے دام بڑھا بڑھاکر فروخت کا عمل جاری ہے۔ پلاٹ ہے تو ویسٹ اوپن کے ریٹ بڑھ کر۔ بڑے روڈ، چھوٹے روڈ، پارک فیسنگ پلاٹ وغیرہ وغیرہ کرکے مہنگے سے مہنگے کرکے پلاٹوں کی قیمت لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک پہنچ گئی ہے۔
دوسری معیشت مزدور کی ہے، کاریگر کی ہے، کارخانوں میں کام ملنے کی ہے، آج مستری کو مکان بنانے کی ذمہ داری ملنے کی ہے، دیوار کھڑی کرنے کی ہے، صبح سے شام تک مزدوری کرتا ہے، شام کو پیسے ملتے ہیں، دکان پر جاتا ہے، کلو آٹا، پاؤ چینی، 50روپے کی پتی، 110روپے کا آدھا کلو دودھ، بچوں کے لیے کچھ ٹافی۔ ماں کے لیے دو چار گولیاں خریدتا ہے۔ اور تیسری معیشت دیہی معیشت ہے، جہاں فصل کاشت کر دی گئی، گائے بھینس کو چارہ ڈال دیا، ان سے وقت پر دودھ حاصل کیا، کسان کی بیوی نے اس دودھ سے مکھن نکالا،گھی بھی بنا لیا اور کسان نے گنے کے رس کا گڑ بنا لیا۔ سال بھر کا جمع ہوگیا۔ اچھا خاصا حصہ عزیز و اقارب گاؤں دیہات کے مکینوں کو پالک دیا گیا۔ گندم کی فصل آئی، گھر میں سال بھر کا جمع کرلیا، باقی اونے پونے بیوپاری کے ہاتھ فروخت کر دیے۔ اب جاکر کچھ پیسے ہاتھ لگے تو اگر کوئی شادی تیار ہے، اپنے بیٹے بیٹی کی ہو یا بھانجے بھانجی یا بھتیجی کی، وہاں پر حسب توفیق رقم دے دی۔ کپڑے جوتے خرید لیے۔ باقی سارا سال اگلی فصل کے انتظار میں تنگدستی میں گزار دیے۔ آٹے کی سال بھر فکر نہیں ہوتی کیونکہ گندم گھر میں موجود۔ باہر کھیت میں کچھ سبزیاں جو رکھی ہیں۔ وہ لاکر پکا ڈالی۔ گھی گھر کا۔ گڑ بھی گھر کا۔ باقی رہا چائے کی پتی کا معاملہ وہ جیسے تیسے خرید ہی لیتے ہیں۔ الغرض زندگی کی گاڑی چلائے رکھتے ہیں لیکن سب سے مشکل اور کٹھن زندگی اس کاریگر کی ہوتی ہے، اس مزدور کی ہوتی ہے جسے ہنر تو آتا ہے لیکن فیکٹری بند ہونے کی وجہ سے وہ بے روزگار ہو جاتا ہے، اس کی جیب میں کوئی رقم نہیں ہوتی کہ آج کا یا کل کا خرچہ چلا سکے۔
آئی ایم ایف کی پالیسیاں اپنا کر ان کی شرائط کو مان مان کر پاکستان اس موڑ پر آکھڑا ہوا ہے کہ اب کارخانہ داروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ وہ اپنی فیکٹریاں بند کر رہے ہیں اور دبئی، امریکا، لندن جاکر پراپرٹی کا یا کوئی اور کاروبار کر رہے ہیں لیکن وہ کاریگر اور مزدور کہاں جائے، وہ الیکٹریشن کہاں جائے جو فیکٹری میں کام کرتا تھا اور اسے پندرہ روز کے بعد یا مہینے کے بعد تنخواہ ملتی تھی، اس کے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی برآمدات 32ارب ڈالر سے آگے نہیں بڑھیں۔ آئی ایم ایف ملکی معیشت کو داد دیتی رہے۔ حکومت معاشی استحکام قرار دیتی رہے۔ جب تک مزدور، کسان، غریب عوام پر حقیقی خوشحالی، روزگار، آمدن کے ذرائع، کارخانوں کی پیداوار میں مسلسل اضافہ، برآمدات میں دگنا اضافہ اور کاروبار دوست ماحول نہیں ہوتا کیسے کہہ سکتے ہیں کہ معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔

