طالبان حکومت افغان عوام کو نئی آزمائش میں نہ ڈالے

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ پاکستان جب بھی حملہ کرتا ہے تو علانیہ کرتا ہے اور کبھی سویلین پر حملہ نہیں کرتا۔ آئی ایس پی آر کے انہوں نے بریفنگ میں بتایاکہ ہماری نظرمیں کوئی گڈ اور بیڈ طالبان نہیں ہیں، دہشت گردوں میں کوئی تفریق نہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ پاکستان جب بھی حملہ کرتا ہے تو علانیہ کرتا ہے اور کبھی سویلین پر حملہ نہیں کرتا، ہم ریاست ہیں، ریاست کے طور پر ہی ردعمل دیتے ہیں، خون اورتجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم پرحملے بھی ہوں اور ہم تجارت بھی کریں، ہم افغان عوام کے نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ طالبان حکومت ریاست کی طرح فیصلہ کرے، طالبان حکومت نان اسٹیٹ ایکٹرز کی طرح فیصلہ نہ کرے، طالبان حکومت کب تک عبوری رہے گی؟

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات ایک بار پھر شدید تناؤ کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ طالبان حکومت کی وہ ہٹ دھرمی، ضد اور غیر معقول طرزِ عمل ہے جو مسلسل دونوں ملکوں کو تصادم کی کیفیت سے دوچار کرتا آرہا ہے۔ پاک فوج کی جانب سے یہ دو ٹوک بیان کہ پاکستان جب بھی کوئی کارروائی کرتا ہے تو علانیہ کرتا ہے ، اس امر کی تصدیق ہے کہ پاکستان کسی چھپے ایجنڈے یا خفیہ کارروائیوں کا قائل نہیں اور نہ ہی وہ افغانستان میں اپنی کوئی پراکسی چلا رہا ہے۔ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ ریاستی اصولوں کے تحت رہی ہے، مگر بدقسمتی سے افغانستان کی موجودہ حکومت اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور اپنا رویہ بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے زیرِ سایہ افغانستان میں وہ تمام دہشت گرد گروہ آج پہلے سے زیادہ مضبوطی سے منظم ہوچکے ہیں جو امریکی اور نیٹو افواج کے چھوڑے گئے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوکر پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں اور مہلک حملے کر رہے ہیں۔ ان میں تحریک طالبان پاکستان کے وہ عناصر بھی شامل ہیں جو پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھاگ کر افغانستان پہنچے اور وہاں محفوظ پناہ گاہیں قائم کرلیں۔ اسی طرح بڑی تعداد میں افغان شہری بھی دہشت گرد کارروائیوں میں شریک ہوتے ہیں اور اس سارے فساد کو طالبان حکومت روکنے کی بجائے خاموشی سے نظرانداز کرتی آرہی ہے۔ پاکستان محض الزام تراشی نہیں کر رہابلکہ دوحہ اور استنبول کے متعدد مذاکراتی ادوار میں شواہد کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے یہ حقیقت رکھی ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے ہورہے ہیں اور طالبان حکومت انہیں روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔

پاکستان کا موقف واضح تھا اور ہے کہ طالبان حکومت تحریری معاہدے کے ذریعے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کی ضمانت دے، مگر افسوس طالبان حکومت اس معقول اور جائز مطالبے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔اس کے برعکس طالبان حکومت ایک سطحی، غیر سنجیدہ اور غیر حقیقی مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے سنگین مسئلے پر بات نہ کرے، بلکہ تجارت اور معاشی سرگرمیوں پر توجہ دے۔ یہ نہایت مضحکہ خیز سوچ ہے، کیونکہ کوئی بھی ملک اپنی سرزمین پر روزانہ خون بہنے کے باوجود دوسرے ملک کے ساتھ تجارت یا دوستانہ روابط نہیں بڑھا سکتا۔ تعلقات کی بنیاد باہمی سلامتی اور حدود کا احترام ہوتی ہے۔ جب تک افغانستان علانیہ پاکستان دشمن عناصر کو پناہ دیتا رہے گا، اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہی رہے گا اور پاکستان دہشت گردی کو نظر انداز کرکے افغانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات نہیں بڑھائے گا۔ یہ صرف پاکستان کی بات نہیں، دنیا کا کوئی بھی ملک اپنی سرزمین پر ہونے والے حملوں کو نظرانداز نہیں کرسکتا۔ طالبان حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ مسلسل پاکستان دشمن عناصر کو پناہ دے کر تجارتی مفادات حاصل کرتی رہے گی تو یہ سوچ نہ صرف غلط ہے بلکہ خطرناک بھی ہے۔ امن دونوں ملکوں کیلئے ضروری ہے، مگر افغانستان کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ گزشتہ پچاس برسوں سے افغان عوام مسلسل جنگ، بدامنی، بھوک، غربت، مہاجرت اور خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود طالبان حکومت کا رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ وہ اب بھی افغان عوام کو امن و استحکام کا سانس لینے دینے کے روادار نہیں ہیں۔

یہ امر افسوس ناک ہے کہ دہائیوں بعد افغان عوام کو امن و سکون کا سانس لینے کا موقع ہاتھ آیا ہے تو طالبان حکومت کی ترجیحات میں اب بھی افغان عوام کیلئے امن نہیں ہے اور طالبان رہنما اپنے تباہ حال ملک کو مستحکم کرنے اور اپنے عوام کی فلاح پر توجہ دینے کی بجائے اسلام آباد اور پشاور کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں، جنگ کی دھمکیاں دیتے ہیں اور سادہ لوح افغان عوام کو ایک نئے المیے کی طرف دھکیلنے کے درپے ہیں۔ افغان عوام کو خود سوچنا چاہیے کہ ان کے حکمران انہیں کہاں لے جانا چاہتے ہیں؟ کیا انہیں خطے کی دوسری اقوام کی طرح امن، ترقی، خوشحالی اور باعزت زندگی کا حق نہیں؟ کیا ان کے نصیب میں صرف مسائل، جنگ، مہاجرت، لاشیں اور تباہ حالی ہی لکھی ہے؟ افغان عوام کو اب کھل کر طالبان حکومت کو بتانا چاہیے کہ وہ مزید جنگ نہیں چاہتے، وہ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے سکون چاہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ خطے کا امن پاکستان اور افغانستان دونوں کے بہتر تعلقات میں پوشیدہ ہے۔

طالبان حکومت کو اس نازک موڑ پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ملک اور عوام کو خون، بارود، نفرت اور دشمنیوں کے مستقبل کی طرف لے جانا چاہتی ہے یا امن، استحکام، ترقی اور بہتر تعلقات کی طرف؟ پاک فوج کی جانب سے یہ بات صاف کہی جاچکی ہے کہ اس نے افغانستان کے شہر خوست میں کوئی کارروائی نہیں کی اور اگر کبھی کرے گی تو علانیہ کرے گی، مگر اگر افغانستان سے دہشت گردی کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان مجبوراً ہر ممکن قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس ناگزیر صورت میں پاکستان کے پاس آگے بڑھ کر افغانستان میں گھس کر کارروائیوں کا آپشن بھی موجود ہوگا اوریہ سب علانیہ ہوگا۔ امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر انہوں نے دانش مندی کا راستہ اختیار نہ کیا اور پاکستان کا واحد جائز مطالبہ بھی تسلیم نہ کیا اور اپنی ہٹ دھرمی، ضد اور انا کی خو جاری رکھی تو ان کی یہ غلط ترجیح اور گمراہ کن تدبیر افغان عوام کیلئے ایک اور آزمائش کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ پھر پاکستان کو بھی جارحانہ دفاع کی پالیسی اپناتے ہوئے دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو افغانستان کی سرزمین پر ہی ناکام بنانے کی تدابیر کرنی ہوں گی اور اس کے اثرات لا محالہ طور پر افغان عوام کی زندگیوں پر بھی پڑیں گے۔