وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ صلح، امن اور مل جل کر ساتھ چلنے پر تیار اور اس سلسلے میں مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہے لیکن یہ بات چیت اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب ہمارے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ وزیر اعظم کے مطابق پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کو چالیس سال سے زیادہ عرصے تک پناہ دی، لیکن بھارت کے اکسانے پر ہونے والے حالیہ حملے اور مسلسل دہشت گردی قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں اور ملک نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔
دریں اثناپاک، افغان کشیدہ تعلقات کے تناظر میں، قطر کے شہر دوحہ میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ایک مرحلہ وار سلسلے کا آغاز ہورہا ہے جس میںمختلف سطحوںپر مسئلے کے حل کے لیے گفت و شنید کی جائے گی۔ یہ بات چیت ایک ایسے ماحول میں شروع ہورہی ہے جب دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف حالتِ جنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے واضح کردیا گیاہے کہ یہ جنگ دہشت گردوں کے خلاف ہے نہ کہ افغان عوام کے خلاف۔ اس سلسلے میں گزشتہ چند دنوں کے دوران پاک فوج کی جانب سے، قندھار، کابل اور کنڑ سمیت مختلف علاقوں میں مؤثر فضائی حملے کیے گئے جن میں طالبان کے اہم بٹالین کمانڈ سینٹر اور فتنہ الخوارج کے کیمپ تباہ ہوئے ہیں۔ یہ جوابی کارروائی پاکستان پر کیے گئے حملوں کے بعد عمل میں لائی گئی۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغان عبوری حکومت کی جانب سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کی پشت پر بھارت موجود ہے جیسا کہ اب بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے باضابطہ طور پر یہ بیان آیا ہے کہ انڈیا افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان کو اصولی طورپر بھارت، افغان تعلقات پر اعتراض نہیں لیکن ان کا نتیجہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور پراکسی وار کی صورت میں ہرگز برداشت نہیں کیاجاسکتا۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کے مطابق پاکستان نے کابل کے ساتھ مذاکرات کے لیے دروازہ کھلا رکھا ہے، مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی ہے کہ پاکستان کے مطالبات کی منظوری کے سوا دونوں ملکوں کے درمیان قیام امن کی کوئی صورت نہیں۔ افغانستان کے ساتھ پائیدار امن کی پہلی اور منطقی شرط یہ ہے کہ وہ اپنی سر زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے، لیکن جب کوئی ملک چالیس سال کی میزبانی کا بدلہ خودکش حملوں، پراکسی وار اور دہشت گردی کی صورت میں دے تو پھراصولی طورپر جارحانہ جواب ہی اپنی سلامتی کی ایک واحد ممکنہ راہ، رہ جاتی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق ایک طرف ہندوتوا کا نظریہ ہے اور دوسری طرف ایسا پرچم جس پر کلمہ لکھا ہوا ہے، جس سے اسرائیل، بھارت اور افغانستان کے ٹرائیکا کا ایک مربوط جوڑ واضح ہوتا ہے۔ بھارت کا افغانستان کے ساتھ کھڑا ہونے کا رسمی اعلان دراصل اس اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کا اقرار ہے جس کا اصل ہدف صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت اور سیکیورٹی کو نقصان پہنچانا ہے۔ لہٰذا، پاکستان کا یہ حقِ دفاع ہے کہ وہ دہشت گرد اہداف کو ناکارہ بنا کر عوام کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس حوالے سے سرحدوں کو مکمل سیل کرنا اب ناگزیر ہے۔
افغانستان کے ساتھ امن کا دوسرا اہم ستون ایک بااختیار اور حقیقی کنٹرول رکھنے والے فریق سے مذاکرات کرنا ہے۔ افغانستان اس وقت اندرونی تقسیم، بداعتمادی اور خونریزی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ طالبان کے اندر قندھاری اور حقانی دھڑوں کے درمیان عہدوں، اختیارات اور اثر و رسوخ کی جنگ کھل کر سامنے آچکی ہے۔ اس داخلی کشمکش کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ امن کی ضمانت دینے والا فریق اپنی بات پر عمل کروانے کے قابل نہ رہے۔ دوحہ میں شروع ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں، یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہوگی کہ دہشت گردی کی سہولت کاری کو ختم کرنے کے لیے قابلِ تصدیق عملی ضمانتیں کون دے رہاہے ؟ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ قندھاری گروپ کو ہٹائے بغیر امن ممکن نہیں ہو سکے گا۔ افغانستان کے ایک سابق سفیر، کا یہ بیان کہ پاکستان پر حملہ کرنا فاش غلطی ہے اور خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے، اس بات کا اشارہ ہے کہ افغان عبوری حکومت میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا۔
امن کے لیے تیسری لازمی شرط یہ ہے کہ دہشت گردگروہوں کو ملنے والے معاشی و اقتصادی وسائل کا راستہ کم ازکم پاکستان کی حد تک قطعی طورپر مسدود کردیا جائے۔ اس حوالے سے ہر قسم کی اسمگلنگ کی بندش اور تجارت کو ضابطوں کے تحت لانا ضروری ہے۔ سرحدوں پر ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جوہر قسم کی دراندازی کو روک سکے۔ پاکستان کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ (ATT) کی معطلی ایک اہم اور صائب فیصلہ ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ اقدام دراصل ایک کاری ضرب ہے، کیوں کہ یہ افغان عبوری حکومت کی آمدنی اور لاجسٹکس کا اہم ذریعہ تھی۔ اس کے ساتھ ہی، حکومت نے پنجاب میں کاروبار کرنے والے افغان شہریوںکے حوالے سے بھی سخت اقدامات کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ افغان شہری جو قانونی طور پر موجود ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا، جبکہ غیر قانونی افغان شہریوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے تاکہ ان سب کو ملک بدر کیا جاسکے۔ یہ معاشی دباؤ اور داخلی صفائی دونوں مل کرقیام ِ امن سے متعلق حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کریں گے اور مذاکراتی میز پر پاکستان کے مؤقف کو تقویت دیں گے۔ حکومت کا یہ فیصلہ کہ وہ تمام کارڈ منسوخ کر کے افغانیوں کو ملک سے نکال دے گی بہرحال ملک کی معیشت اور سلامتی کے لیے اب ضروری ہے۔
اس موقع پر یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کی قیمت اپنے امن، اقتصادی حالت اور معاشی تباہی کی صورت میں نہیںدے سکتا۔ اب یہ ملک کی بقا کا معاملہ بن چکاہے۔ اسی طرح افغانستان کے ساتھ امن کی خواہش ایک قیمتی انسانی جذبہ ہے جو پاکستان کی چالیس سالہ میزبانی سے جھلکتا ہے، مگر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امن کی یہ خواہش پڑوسیوں کے نزدیک کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کے وزرا تک یہ بیان دے رہے ہیں کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی سرحد کو تسلیم نہیں کرتے یعنی وہ لر اور بر کے درمیان فرق کو ختم کردیں گے حالانکہ یہ فرق خود انھوں نے ہی قائم کیا تھا۔ پاکستان میں بسنے والے لوگ شریعت کے نام پر افغانوں کی قبائلی بالادستی کو قبول کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں۔ بھارت، افغان دوستی کی روشنی میں پاکستان یہ منطقی نتیجہ اخذکرچکا ہے کہ طاقت کے استعمال کے سوا امن کا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہا، لہذا پاکستان نے ایسے اقدامات کیے ہیں کہ افغان عبوری حکومت کو مجبور ہو کر مذاکرات کی میز پر آنا پڑا ہے۔ یہ ایک مشکل مگر ضروری راستہ ہے۔ پاکستان کا یہ فیصلہ کہ وہ اپنے عوام کے دفاع کا حق استعمال کرتا رہے گا، دراصل ان شہیدوں کے لہو سے وفاداری کا اظہار ہے جو اس وطن میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر قربان ہوئے۔