اسلام آباد سے جاری کردہ دفتر خارجہ کے ایک تازہ بیان میں پاکستان نے فلسطینی مسئلے پر اپنے اصولی مؤقف کا اعادہ کیا ہے اور 1967 کی سرحدوں کے مطابق آزاد فلسطینی ریاست، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، دفتر خارجہ نے غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش کرنے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کو روکنے اور انسانی ہمدردی کے کارکنان کو حراست میں لینے پر اسرائیل کی شدید مذمت کی ہے اور اسے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جنگ کے خاتمے کا ایک جامع منصوبہ پیش کیا گیا لیکن اس کے مندرجات پر دنیا بھر سے شدید اعتراضات سامنے آئے۔ ملک کے دینی و مذہبی حلقوں نے اس بات پر کڑی تنقید کی کہ پاکستان ایک ایسے منصوبے کا حصہ کیوں بن رہا ہے جس کے نتائج مآلِ کار فلسطینیوں کی مزاحمت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہوں گے۔ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کا تبادلہ، غزہ کو دہشت گردی سے پاک علاقہ بنانا، اور ”کونسل آف پیس” نامی ایک بین الاقوامی باڈی کی نگرانی میں ٹیکنوکریٹک عارضی حکومت قائم کرنا شامل ہے۔ تاہم اس تجویز کو نہ صرف حماس نے مکمل طور پر مسترد کیا ہے بلکہ خود اسرائیل کی جانب سے بھی اس کی مخالفت کا اعلان سامنے آیا ہے۔ عالمی دہشت گرد نیتن یاہو نے غزہ سے فوجی انخلا کا انکار کر دیا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ ٹرمپ کا امن منصوبہ وہ نہیں جس میں ہماری ساری تجاویز موجود ہوں، حالانکہ آٹھ اسلامی ممالک نے ٹرمپ کی ٹیم سے ملاقات کر کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق غزہ کے بحران اور اس کے مستقبل کے لیے پیش کردہ ٹرمپ کے منصوبے کی نوعیت پر غور کیا جائے تو سب سے اہم ترین نکتہ اس کا ”عدم عسکریت پسندی” پر اصرار ہے، جس کا مقصد غزہ کو اس کے پڑوسیوں کے لیے کوئی خطرہ نہ بننے والا علاقہ بنانا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کے ذریعے اندرونی سلامتی اور عسکری قوتوں کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی جسے امریکا اور عرب ممالک کی حمایت حاصل ہوگی۔ اصولی طورپر کسی بھی آزاد، خودمختار اور قابل عمل ریاست کے قیام کے لیے اس کا قوتِ نافذہ اور دفاعی صلاحیت سے لیس ہونا بنیادی شرط ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ ایک غیر عسکری ریاست اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ دوسروں کی محتاج اور طاقتور فریق کے رحم و کرم پر رہتی ہے۔ یورپ کے ایسے ممالک جو کہ اپنا دفاع امریکا کے سپرد کر کے مطمئن تھے، آج روس کی بڑھتی ہوئی یلغار سے شدید خوف کا شکار ہیں۔ غیر مسلح ہونے کا تصور بہرحال فلسطینی ریاست کی خودمختاری کے تصور کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فلسطینیوں کو اپنے تحفظ کا حق اور اختیار حاصل ہو۔ مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کی کوششوں کا ہدف ایک ایسا حل ہو جو نہتے فلسطینی عوام کو آزادی سے جینے کی ضمانت دے نہ کہ طاقت کے توازن کو اسرائیل کے حق میں موڑ دے۔
غزہ میں جاری مزاحمت گو کہ اہلِ غزہ کے لیے ناقابلِ بیان اور انتہائی درد ناک مصائب کا سبب بن چکی ہے لیکن فلسطینیوں کی قوتِ مزاحمت بہرحال موجود ہے جو غزہ میں اسرائیل کے تسلط کے لیے ایک چیلنج بنی رہے گی۔ اگرچہ ٹرمپ کے منصوبے میں شامل تجویز حماس کے ان ارکان کو عام معافی دینے کی بات کرتی ہے جو اپنے ہتھیار ختم کر دیں گے، مگر یہ مکمل طور پر فلسطینیوں کی قومی مزاحمت کو ختم کرنے کا عمل ہے جو اس منصوبے کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دوسرا اہم نکتہ اس منصوبے میں عبوری حکمرانی اور بین الاقوامی نگرانی کا طریقہ کار ہے۔ اس کے تحت غزہ کی حکمرانی عارضی طور پر ایک ٹیکنوکریٹک، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی کے سپرد کی جائے گی جس کی نگرانی ایک نئی بین الاقوامی عبوری باڈی ”کونسل آف پیس” کرے گی اور جس کی صدارت خود ڈونلڈ جے ٹرمپ کریں گے۔ منطقی لحاظ سے یہ ایک متضاد صورت حال ہے۔ جب ایک بیرونی قوت کسی علاقے کی حکمرانی اور تعمیرنو کے لیے اپنے ایجنڈے کے تحت ایک بین الاقوامی باڈی کو بااختیار بنا کر مسلط کر دیتی ہے تو اصل اختیار بیرونی قوت ہی کا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں اہلِ غزہ کی جدوجہد بے قیمت ہو جاتی ہے۔ یہ عبوری انتظام فلسطینی عوام کے لیے ناقابل قبول ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ان کی اپنی مستقبل کی قیادت کے انتخاب اور سیاسی خود ارادیت کے حق کو نظرانداز کرتا ہے۔ کسی بھی حل کا اخلاقی اور قانونی جواز پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر فلسطینیوں کی نمائندہ قیادت کے ذریعے قبول اور نافذ کیا جائے، نہ کہ کسی بیرونی فرد کی سربراہی میں چلایا جائے۔ موجودہ حالات میں یہ ایک ایسا حل معلوم ہوتا ہے جو ایک طاقتور فریق کو اپنی شرائط پر امن مسلط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے یعنی امن کی قیمت فلسطینیوں کو اپنی سیاسی آزادی اور دفاعی صلاحیت سے دستبردار ہو کر ادا کرنی پڑے گی۔ یہاں ایک تیسرا نکتہ بھی ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان بظاہر نظر آنے والی مشترکہ حکمت عملی کے باوجود ان کے درمیان اختلافات اور قومی مفادات کا ٹکراؤ دکھائی دے رہا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور قطر کی جانب سے ٹرمپ منصوبے کو مسترد کر دیا گیا ہے لیکن دوسری جانب قطر کا امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرلینا یہ ظاہرکرتا ہے کہ عرب ریاستیں ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ عرب ریاستیں اپنے قومی تحفظ اور معاشی استحکام کو فلسطینی مسئلے کے اولین حل پر فوقیت دے رہی ہیں۔ ایسے میں متنوع حالات اور مختلف آوازیں ظاہر کرتی ہیںکہ اسلامی ممالک کی کوششیں ٹرمپ کے ایجنڈے کے دائرہ کار سے باہر کوئی ٹھوس نتیجہ حاصل نہیں کر پائیں گی۔ مسلم ممالک کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ فلسطینیوں کے مکمل خودمختاری کے حق کو یقینی بنایا جائے۔ بصورت دیگر خطے میں ایک بڑی اور فیصلہ کن جنگ کا خطرہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے اور عرب ریاستوں کی کمزوریاں ان کی دفاعی صلاحیتوں پر غالب آتی دکھائی دے رہی ہیں۔
ٹرمپ منصوبہ غزہ کے عوام کی ثابت قدمی کو ختم کرنے اور ان کی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی کوشش ہے۔ صمود فلوٹیلا کے کارکنوں پر حملہ کر کے دہشت گرد اسرائیل نے بتا دیا ہے کہ وہ کسی بین الاقوامی قانون، امن اور سلامتی، انسانیت کے احترام اور سفارتی آداب کا قائل نہیں۔ اس رویے کے نتائج بالآخر خطے میں مزید تنازعات اور بڑی جنگ کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ لہٰذا مسلم ممالک کو امریکا اور اسرائیل کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیے اور باہم متحد ہوکر فلسطین کے عوام کو اپنے دفاع کا حق اور سیاسی قیادت کے انتخاب کا اختیار کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ بصورتِ دیگر خطے میں امن کے قیام کے لیے کی گئی کوششیں ضائع ہو جائیں گی۔

