صدر ٹرمپ کا یکطرفہ ”امن منصوبہ”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز وہائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی اور مشرق وسطی کے مستقبل سے متعلق اپنا 20نکاتی امن فارمولا پیش کیا اور دعوی کیا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا اْن کا منصوبہ ممکنہ طور پر تاریخ کے عظیم ترین منصوبوں میں سے ایک ہے اور یہ ‘مشرق وسطی میں دائمی امن’ لا سکتا ہے۔

عالمی مبصرین کے مطابق یہ منصوبہ غزہ کے مستقبل کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ماضی کے مؤقف میں کسی قدر تبدیلی کے مترادف ہے اور یہ اسرائیل پر اس سے کہیں زیادہ دباؤ ڈالتا ہے جتنا واشنگٹن نے اس سال نیتن یاہو پر جنگ بندی کے کسی معاہدے کو قبول کرنے کے لیے لگایا ہے، تاہم اس منصوبے میں اسرائیل کے مفادات اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی خواہشات کو ہر چیز پر مقدم رکھاگیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو نے ٹرمپ سے ملاقات کے بعد عبرانی زبان میں اپنی قوم کے نام پیغام میں اسے اسرائیل کے عزائم کے عین مطابق قرار دیا اور کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ برقرار رہے گا اور یہ کہ امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی کوئی شق شامل نہیں ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے وہائٹ ہاؤس میں وہ سب کچھ حاصل کرلیا ہے جو وہ کسی بھی منصوبے کے تحت حاصل کرنا چاہتے تھے۔

اسرائیل امریکی صدر ٹرمپ کی علانیہ اور مکمل سپورٹ کے باوجود طاقت کے بل بوتے پر حماس کو شکست دینے اور فلسطینی عوام کا حوصلہ توڑنے میں ناکام رہا ہے،یہاں تک کہ غزہ شہر کے اندر گھس کر وہاں کی تمام بڑی عمارتوں کو ملیامیٹ کرنے کے باوجود وہ شہر پر قبضہ کرنے اور اپنے یر غمالیوں کو بازیاب کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا جبکہ غزہ میں نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیل کو اپنی تاریخ کی بدترین عالمی ذلت و رسوائی کا سامنا ہے۔ نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نیویارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ کی برہنہ اسرائیل نوازی کے علیٰ الرغم امریکی عوام میں بھی اسرائیل کے خلاف غم و غصہ عروج پر ہے اور ایک تازہ سروے کے مطابق اب چالیس فی صد سے زائد امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں دیدہ ودانستہ قتل عام کر رہا ہے۔ ادھر برطانیہ میں ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت نے اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دے کر اسے اسلحے کی فراہمی روکنے کی قرار داد پاس کی ہے۔صہیونی بھیڑے نیتن یاہو کی اقوام متحدہ کی جنرل کونسل میں خطاب کے موقع پر جس طرح ”عزت افزائی” ہوئی، وہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسے میں غزہ میں جنگ بندی خود اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کی بھی مجبوری ہے مگر وہ بڑی چالاکی اور بے شرمی کے ساتھ اپنی اس مجبوری کو نام نہاد ”امن منصوبے ”کے نام پر چھپانے کی سعی کر رہے ہیں اور امریکی صدر ٹرمپ نے درحقیقت اس کے ذریعے اسرائیل کو مزید عالمی رسوائی اور ذلت سے بچانے کی کوشش کی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی دو فریق لڑ رہے ہوں، ان کے درمیان امن اور صلح کا کوئی بھی فارمولا فریقین سے گفت و شنید اور دونوں کو کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر مفاہمت پر راضی کرنے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہ ایک عجیب امن فارمولا ہے جس میں ایک فریق جوکہ عسکری میدان میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود اپنے اہداف حاصل نہ کرسکا اور روزانہ کی بنیاد پر مار کھارہا ہے، کی یکطرفہ خواہشات اورہٹ دھرمی پر مبنی مطالبات کے مطابق ایک دستاویز بناکر دوسرے فریق کو اسے بلاچون و چرا تسلیم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے اور نہ ماننے کی صورت میں تباہی و بربادی کی وہ دھمکیاں دی جارہی ہیں جو گزشتہ دوبرس کے دوران کار گر نہیں رہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر نے امن منصوبے کے نام پر فلسطینیوں اور عالم اسلام کے ساتھ گریٹ گیم کرنے کی کوشش کی ہے اور توقع رکھی جانی چاہیے کہ پاکستان سمیت متعلقہ اسلامی ممالک اس گیم کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ٹرمپ نے دعوی کیا ہے کہ ان کے اس منصوبے کو اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کی سو فی صد حمایت حاصل ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو اس مسئلے پر اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے ایک تازہ بیان سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ پاکستان نے صرف غزہ میں فوری جنگ بندی کی تجویز کی حمایت کی ہے اور وہ مشرق وسطی کے مستقبل کے ساتھ عرب و اسلامی ممالک کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنے کی ٹرمپ کی خواہش کو استحسان کی نظر سے دیکھتا ہے تاہم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے جو امن منصوبہ پیش کیا ہے ،وہ یقینی طور پر اسلامی دنیا کی امنگوں کے بر خلاف ہے۔ اس لیے پاکستان،سعودی عرب،ترکیے، قطر اور دیگر اسلامی ممالک کو امریکا پر یہ واضح کردینا چاہیے کہ وہ نیتن یاہو کی خواہشات اور مزعومات کی تکمیل کرنے کے کسی منصوبے کاحصہ نہیں بن سکتے۔ انہیں اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ فلسطین اور بیت المقدس کے معاملہ مسلمانوں کے لیے حساسیت کا خاص پہلو رکھتا ہے اور موجودہ حالات میں جبکہ اسرائیل کے خلاف پوری دنیا کی طرح امت مسلمہ میں بھی سخت غم و غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں، مسلم حکمرانوں کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کرنے کا تاثر اسلامی دنیا میں اضطراب اور انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔

ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کا باضابطہ ردعمل تادم تحریر سامنے نہیں آیا تاہم برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق حماس کے ایک اہم سینیئر اہلکار نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا اورکہاکہ یہ شرائط فلسطینیوں کے مفادات کے تحفظ میں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں اور یہ بھی کہ حماس کسی بھی ایسے منصوبے کو قبول نہیں کرے گا جو غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا کی ضمانت نہ دے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق امریکا اور اسرائیل قطر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ حماس رہنماؤں کو مجوزہ منصوبہ قبول کرنے پر مجبور کر دے اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں قطر سے نکلنے کا حکم دے تاکہ اسرائیل ان کو نشانہ بناسکے۔ ظاہرہے کہ یہ دھونس جمانے اور بد معاشی دکھانے کی ناکام کوشش ہے ، اس سے فلسطینیوں کی مقاومت اور آزادی کے اپنے بنیادی پیدائشی حق کے لیے ان کی جدوجہد کو دبایا نہیں جاسکے گا البتہ اس سے مشرق وسطی میں جنگ اور بے امنی کو مزید بڑھاوا مل سکتا ہے جو شاید اب کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ مشرق وسطی اور پوری دنیا میں پائے دار امن کے لیے حقیقت پسندانہ اپروچ کے ساتھ کام کرنے اور تنازعات کاانصاف اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل تلاش سے ہی ممکن ہے۔ کیا ٹرمپ سرکار سے اس کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟