مضبوط دفاع اور استحکام، سفر جاری رہنا چاہیے

ملک کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایک گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ملک دفاعی لحاظ سے مضبوط ہو چکا ہے جسے دنیا تسلیم کر رہی ہے، اب ہمیں معاشی اور اقتصادی اعتبار سے خود کو مستحکم کرنا ہے۔ دو روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے لندن میں سمندر پار پاکستانیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور ترقی کا وقت آنے والا ہے۔ ملک ہر میدان میں پیش رفت کر رہا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم اور نائب وزیر اعظم کے بیانات محض دعوے نہیں بلکہ حالات و واقعات سے ان کی تائید ہوتی ہے، حال ہی میں پاکستان کو حاصل ہونے والی کامیابیاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کو متعدد محاذوں پر کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق معرکۂ حق میں بھارت پر فتح حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے لیے گویا غیب سے ہی سفارتی، اقتصادی اور معاشی مواقع کی راہیں ہموار ہوگئی ہیں۔ اس سلسلے میں پاک، سعودیہ دفاعی معاہدے کو حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی پیش رفت کہا جا رہا ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ میں پاکستان کے کردار پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس کامیابی کے فوراً بعد امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری بھی خارجی امور میں پاکستان کے لیے اہمیت رکھتی ہے۔

بھارت کی جانب سے مسلط کردہ علانیہ و غیر علانیہ جنگوںکے تناظر میں پاکستان کو ہر محاذ پر پیش رفت کی ضرورت ہے۔ بھارت اپنی حرکتوں سے باز آتا دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ روز اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھارت کے مندوب نے پاکستان کے خلاف سخت ترین الفاظ استعمال کیے۔ اس کے جواب میں پاکستان کے ترجمان نے بھارت کو غاصب اور دہشت گردی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کلبھوشن یادیو جیسے ٹھوس ثبوتوں کا حوالہ دیا جس پر بھارتی مندوب بوکھلاہٹ میں ہال چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ بھارت اور افغانستان کی جانب سے پاکستان پر مسلط جنگ نے پاکستان کو دفاعی اقدامات سے ایک قدم آگے بڑھا کر اقدامی نوعیت کی حکمتِ عملی پر مجبور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان عسکری محاذ پر چین سے جدید جنگی جہاز اور ہیلی کاپٹر حاصل کر رہا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ ہیلی کاپٹر دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ایک اہم ہتھیار کے طورپر استعمال کیے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق لکی مروت اور کرک میں بھارتی حمایت یافتہ ”خوارج” کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن جاری ہیں۔ افغان حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کی مسلسل پشت پناہی کے جواب میں پاکستان اپنے آپریشن بڑھا رہا ہے۔ افغانیوں کا انخلا، افغان مہاجر کیمپوں کی بندش کا فیصلہ اور سیکیورٹی فورسز کے مسلسل آپریشن اور جدید ترین وسائل کا حصول آنے والے دنوں میں کسی بڑی جنگ کی تیاریوں کی خبر دے رہے ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق خوارج کی صفوں میں افغانستان کے راستے سے آنے والے افغانیوں کے علاوہ غیر ملکی دہشت گردوں کی موجودگی سرحد پار خطرات کی سنگینی کو واضح کرتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر میں بھی بھارتی مداخلت کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ مسلسل اطلاعات مل رہی ہیں کہ آزاد کشمیر میں جاری بے چینی اور شورش کی پشت پر بھارتی لابی کردار ادا کر رہی ہے اور اس سلسلے میں بیرونی فنڈنگ کے شواہد بھی سامنے آرہے ہیں۔ یہ تمام حالات و واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ بھارت بہر صورت پاکستان سے معرکۂ حق میں ہونے والی شکست کا بدلہ لینے کے درپے ہے اور مودی سرکار کی موجودگی میں کوئی بھی حماقت غیر متوقع قرار نہیں دی جا سکتی۔ جو متعصب حکومت کھیلوں میں بھی سیاست کو شامل کر سکتی ہے اس کے لیے کوئی بھی پست ترین حرکت قابلِ قبول ہو سکتی ہے۔ ان حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان داخلی اور خارجی محاذوں پر سنگین مسائل کا سامنا کر رہا ہے جہاں کامیابیوں کے ساتھ ساتھ بے شمار چیلنج بھی موجود ہیں جن میں دفاع کے بعد سب سے اہم چیلنج ملک کی معیشت کا استحکام ہے۔

معاشی ترقی اور استحکام کے لیے پاکستان کو داخلی استحکام درکار ہے اور دشمن طاقتوں نے اسے بنیادی ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان میں امن و استحکام کا قیام ان دشمن طاقتوں کے لیے ایک بھیانک خواب سے کم کی حیثیت نہیں رکھتا۔ کیوں کہ ایک مضبوط ومستحکم پاکستان نہ صرف بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف سدِ سکندری ہوگا بلکہ یہ گریٹر افغانستان اور گریٹر اسرائیل کا بھی ایک بھرپور جواب ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام دشمن خواہ انھوں نے مذہبی لبادہ ہی کیوں نہ اوڑھ رکھا ہو، اس وقت ایک صفحے پر دکھائی دے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں خوارج کی مسلسل دراندازی، بلوچستان کے معاملات میں افغانستان سے لے کر مڈل ایسٹ اور مغربی ممالک تک کی کارفرمائی اور افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے عوامل ملک کے داخلی امن و سلامتی کو درپیش خطرات کی نشانیاں ہیں۔ ان حالات میں ہمیں داخلی استحکام، متوازن خارجہ پالیسی اور شریعت کے اصولوں پر مبنی عدل و شفافیت پر مشتمل نظام کی ضرورت ہے جو کہ داخلی امن اور مؤثر دفاع کی ضمانت بن سکے۔ معیشت کی بہتری کے حکومتی دعوے بلاشبہ امید افزا ہیں لیکن بیرونی قرضوں اور اندرونی افراطِ زر کے اعداد و شمار ایک طویل اور مسلسل اصلاحات کا تقاضا کرتے ہیں۔ معیشت کا استحکام نمائشی یا سطحی اقدامات سے نہیں بلکہ عدل اور توازن پر مبنی حقیقی اصلاحات سے ہوگا۔ سفارتی میدان میں اقوام متحدہ میں بھارت کا مؤثر جواب ملک کے بیانیے کی فتح ہے تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایک طاقت ور ملک کی سفارت کاری اس کی معاشی قوت اور داخلی یگانگت پر کھڑی ہوتی ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ اور چین کے ساتھ عسکری سطح پر اشتراک ہماری بڑی کامیابیاں ہیں۔ ان حالات میں بھارت کے لیے براہ راست فوجی جارحیت شاید ممکن نہ ہو لیکن وہ دہشت گردی پھیلانے کے منصوبے جاری رکھے گا۔ اس کے جواب میں صرف دفاعی حکمت عملی کافی نہیں بلکہ دہشت گردی اور انتشار کے خاتمے کے لیے فتنہ الخوارج کے نظریاتی بیانیے کا علمی اور مذہبی سطح پر جواب دینا لازمی ہے تاکہ نوجوان نسل کو گمراہی سے بچایا جا سکے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کسی بھی ریاست کا سب سے بڑا دفاع شہریوں کا ریاست پر اعتماد ہوتا ہے، اور یہ اعتماد عدالتی نظام کی شفافیت، قانون کی بالادستی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم سے قائم ہوتا ہے۔ ادارے، عدلیہ اور عوام سب کو عدل کے اصول کے مطابق ملک کی تعمیر کرنی ہوگی، کیوں کہ صرف وہی قومیں تاریخ میں ایک اعلیٰ مقام بنا پاتی ہیں جو اپنے قول و فعل میں سچائی اور اپنے نظام میں عدل کو شعار بناتی ہیں۔