افغان حکومت کے عمل سے عاری کھوکھلے بیانات

گزشتہ دن افغانستان کے حوالے سے خطے کے چار بڑے ممالک پاکستان، چین، ایران اور روس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔جس میں سب سے اہم نکتہ یہ سامنے آیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی غیر ملکی فوجی اڈے کے قیام کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیے نے اس موقف کو نہ صرف واضح کیا بلکہ خطے کے عوام کو یہ یقین دلایا کہ بڑی طاقتیں عسکری تسلط کی بجائے سیاسی استحکام اور علاقائی امن کو فوقیت دینا چاہتی ہیں۔ افغان عبوری حکومت نے بھی اس موقف کا خیر مقدم کیا اور ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ افغانستان اپنی زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔

افغان حکومت کا یہ بیان بظاہر خوش آئند ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بیانات اور عملی حقائق ایک دوسرے سے میل کھاتے ہیں؟ اگرچہ کابل کی موجودہ انتظامیہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ افغانستان میں کسی مسلح گروہ کو سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی ملک کو افغانستان سے کوئی خطرہ لاحق ہے، لیکن پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے اس بیانیے کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ یہ صورتحال نئی نہیں۔ اس سے قبل اشرف غنی انتظامیہ بھی اسی طرح کے دعوے کیا کرتی تھی۔ وہی اشرف غنی انتظامیہ جس کے خلاف موجودہ انتظامیہ مسلح گروہ کی شکل میں برسر پیکار تھی۔ وہ بھی بین الاقوامی برادری کو یقین دلاتی تھی کہ افغانستان سے دہشت گردی برآمد نہیں ہوتی، لیکن پسِ پردہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں خصوصاً کالعدم ٹی ٹی پی اور بلوچ شر پسندوں کو سرکاری پشت پناہی حاصل تھی۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف مزاحمت کرنے والوں کو تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نشانہ بنایا جاتا تھا، لیکن پاکستان کے خلاف سرگرم عناصر کو نہ صرف نظرانداز کیا جاتا بلکہ کئی مواقع پر مالی اور اسلحی مدد بھی فراہم کی جاتی تھی۔ اس عمل میں اس وقت کی افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس، امریکی سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرتے تھے۔ ان کی منصوبہ بندی کا مقصد پاکستان میں افراتفری پھیلانا، امن و امان کو بگاڑنا اور پاکستان کی ریاستی ڈھانچے کو دباؤ میں لانا ہوتا تھا۔ بلوچستان میں شورش برپا کرنے والے عناصر کی پشت پناہی بھی اسی منصوبے کا حصہ تھی۔

پاکستان کیلئے افغانستان کا یہ دوہرا رویہ تکلیف دہ ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ اپنی بساط سے بڑھ کر تعاون کیا ہے۔ آج بھی پاکستان کے تعاون سے تعلیم، صحت اور انفرااسٹرکچر کے اربوں روپے کے منصوبے چل رہے ہیں، تجارتی سہولتیں مستزاد اور سب سے بڑھ کر چار دہائیوں تک لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی یہ سب پاکستان کے وہ اقدامات ہیں جو کسی اور ملک نے افغانستان کیلئے نہیں کیے، لیکن اس کے جواب میں پاکستان کو نفرت، عداوت اور دہشت گردی ہی مل رہی ہے۔ آج بھی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ افغان عبوری حکومت کے ترجمان نے جب یہ کہا کہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک کو کوئی خطرہ لاحق نہیں، اسی وقت خیبر پختونخوا کے علاقے کرک میں پاک فوج کے ساتھ جھڑپ میں افغانستان سے آئے سات دہشت گرد مارے گئے۔ یہ کوئی الزام یا پروپیگنڈا نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے، جسے محض سفارتی بیانات کے ذریعے نہیں جھٹلایا جا سکتا۔ افغان عبوری حکومت کے حالیہ بیانات سے دو امکانات واضح ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ حکومت واقعی اپنی سرزمین پر ہونے والی سرگرمیوں سے بے خبر ہے اور اسے معلوم ہی نہیں کہ دہشت گرد کس طرح افغانستان کو اپنی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ خود افغان حکومت کی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی ہے، کیونکہ ایک حکومت جسے اپنی حدود میں ہونے والی نقل و حرکت پر ہی کنٹرول نہیں، وہ خطے کے دوسرے ممالک کے اعتماد کے لائق نہیں ہو سکتی۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ افغان حکومت سب کچھ جانتی ہے لیکن خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اگر یہ حقیقت ہے تو یہ ایک نہایت خطرناک کھیل ہے، جس کے نتائج نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کیلئے نقصان دہ ہوں گے۔

پاکستان کے عوام اور ریاست دونوں اس بات پر حیران ہیں کہ آخر افغانستان کے ساتھ اس نفرت اور معاندانہ رویے کی بنیاد کیا ہے؟ پاکستان نے تو کبھی افغانستان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ قیام پاکستان کے بعد افغانستان نے پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، لیکن اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ رواداری اور خیرسگالی کے جذبات کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ ستتر تک افغانستان کی یکطرفہ نفرت و عداوت سہنے کے بعد جب سوویت مداخلت سے پاکستان میں سبوتاژ کی کارروائیاں حد سے بڑھنے لگیں تو پاکستان نے بھی مجبورا اپنا دفاع شروع کردیا۔ ورنہ پاکستان نے افغانستان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا، مگر افغانستان سے کبھی پاکستان کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میسر نہیں آئے۔ موجودہ حکومت کے آنے کے بعد حالات میں بہتری کی توقع تھی، مگر بدقسمتی سے موجودہ حکومت کا طرز عمل پہلے سے زیادہ پاکستان دشمن ثابت ہو رہا ہے۔

آج جبکہ دنیا بدل چکی ہے، خطے کے حالات نئے موڑ پر پہنچ چکے ہیں، افغانستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ پرانی روش ترک کرے۔ بیانات سے زیادہ عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ اگر افغان حکومت واقعی چاہتی ہے کہ خطے کے ممالک اس پر اعتماد کریں تو اسے اپنے بیانیے اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنی ہوگی۔ اس کیلئے سب سے پہلے دہشت گرد گروہوں کے خلاف عملی کارروائی کرنی ہوگی، نہ کہ انہیں برداشت یا سہولت فراہم کی جائے۔ دوسرا، پڑوسی ممالک کے ساتھ مشترکہ انٹیلی جنس اور سرحدی تعاون کو فروغ دینا ہوگا تاکہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ تیسرا، عالمی برادری کو بھی یہ باور کرانا ہوگا کہ افغانستان امن کا خواہاں ہے اور وہ اپنی زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اگر افغانستان نے ان نکات پر سنجیدگی کے ساتھ عمل نہ کیا اور محض تردیدی بیانات پر اکتفا کیا تو نہ صرف اس کی اپنی ساکھ مزید خراب ہوگی بلکہ پورا خطہ ایک بار پھر بدامنی اور کشیدگی کا شکار ہو جائے گا۔پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کیلئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ کھلے دل اور واضح شرائط پر تعاون کریں۔ اگر افغان حکومت مثبت اقدامات کرے تو اس کا بھرپور ساتھ دیا جائے، لیکن اگر وہ اپنی زمین کو دہشت گردوں کے لیے کھلی چراگاہ بنائے رکھے تو پھر مشترکہ اقدامات ناگزیر ہوں گے۔