عالمی میڈیا نے امریکی صدارتی قیام گاہ وائٹ ہاؤس میں پاکستانی قیادت، وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر، کی غیر معمولی پذیرائی کے مناظر اہتمام سے نشر کیے ہیں۔ علاوہ ازیں ترکیہ کے صد ررجب طیب اردوان کے ساتھ امریکی صدر کے خلاف معمول اور رسمی اظہارِتعلق سے بڑھ کر اختیار کیے گئے رویے کو بھی خصوصی توجہ سے دیکھا جارہاہے ۔ ترک اورپاکستانی قیادت کی اس غیر معمولی پزیرائی تجزیوں اور قیاس آرائیوںکا ایک نیا باب کھول دیا ہے ۔ کہا جارہاہے کہ امریکا میںترک صدر اورپاکستانی وفد کی یہ پذیرائی دراصل علاقائی اور عالمی منظرنامے میںکسی غیر معمولی تبدیلی کی ابتدائی جھلک ہے ،یہی وجہ ہے کہ ان مناظر نے اس وقت دنیا کی توجہ حاصل کر لی ہے اور یہ سوال اٹھایا جارہاہے کہ دنیا بھر میں اسکرینوں پر دیکھے گئے مناظر کیا مشرق ِ وسطیٰ امن کے قیام یا کم از کم غزہ میں جاری جنگ کے خاتمے کی خبر دے رہے ہیں یا کوئی نیا معرکہ ظہور پزیر ہونے والا ہے ۔
اطلاعات کے مطابق واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف کا پرجوش خیر مقدم کیا اور اوول آفس میں ہونے والی بیٹھک ایک گھنٹہ بیس منٹ تک جاری رہی جس میں امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی شریک تھے۔ وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق ملاقات میں علاقائی سلامتی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے تعاون پر گفتگو ہوئی، جبکہ وزیراعظم نے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں تعاون مزید بڑھانے پر زور دیا اور امریکی کمپنیوں کے لیے زراعت، آئی ٹی، معدنیات اور توانائی میں سرمایہ کاری کی پیشکشیں بھی سامنے رکھی گئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کی” جرأت مندانہ” اور” فیصلہ کن قیادت ”کی بھرپور تعریف کرتے ہوئے یہ باور کرایا کہ وہ غزہ سمیت دنیا بھر میں تنازعات ختم کرانے کی مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں، اور ان کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہوئی جس سے جنوبی ایشیا بڑے سانحے سے بچا۔اس موقع پر یہ امر ملحوظ رہنا چاہیے کہ پاکستانی وفد کے استقبال اور امریکی صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقات پر پڑوسی ملک بھارت میں گہری تشویش پائی جاتی ہے اور بھارتی میڈیا اس ملاقات کے حوالے سے منفی انداز کی رپورٹنگ اور پروپیگنڈے والی زبان استعمال کررہاہے ۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر بھارتی قیادت کی منافقت اور وعدہ خلافی پر سیخ پا ہیں اور وہ عالمی معاہدوں اور بین الاقوامی امور میں بھارت کو ناقابلِ اعتبار ملک کی سند دے چکے ہیں جس کا پاکستان کو بھرپور فائد ہ اٹھانا چاہیے جیسا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی سے اس کا اظہار بھی ہورہاہے۔
دوسری طرف پاکستانی وفد کی پزیرائی کے ساتھ ساتھ اسی تناظر میں، صدر ٹرمپ کا ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کو پروٹوکول کے خلاف جا کر، دو گھنٹے انیس منٹ کی ملاقات کے بعد، وائٹ ہاؤس کے باہر تک خود چھوڑنا اور ان کی ذہین ٹیم کی تعریف کرنا بھی غیر معمولی تھا۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کہ طاقت کے یہ مراکز مسلم دنیا کی بعض قیادتوں کو اتنی غیر معمولی اہمیت کیوں دے رہے ہیں اور پس پردہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ماہرین کے مطابق ان غیر معمولی سفارتی اقدامات کی گہرائی میں موجود وجوہات کا منطقی تجزیہ ناگزیر ہے۔ صدر ٹرمپ کا یہ دو ٹوک پیغام کہ میں اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دوںگا، ایک بڑی پالیسی تبدیلی کا اشارہ ہے جو اسرائیل کے انتہا پسند سیاست دانوں کے مغربی کنارے پر اسرائیلی خودمختاری قائم کرنے کے مطالبات کو مسترد کرتی ہے۔ متلون مزاج ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اس موقف پر کس حد تک کھڑے رہتے ہیں اور وہ غزہ میں جنگ بندی کرانے میں کتنے مخلص ہیں؟اس کا اندازہ آیندہ چند دنوں میں ہوجائے گا تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ موقف دراصل امریکی تزویراتی مفادات اور جغرافیائی توازن کے تحت ایک مجبوری بن چکاہے ۔ امریکا کی اسٹیبلشمنٹ اگرچہ عام طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑی رہتی ہے، مگر کچھ ایسے حالات پیدا ہوئے ہیں جو امریکا کو وقتی طور پر فلسطینی مسلمانوں کے حق میں جانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔یہ سب کچھ اسٹریٹجک، سیاسی اور معاشی وجوہات کی بنا پر ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر غزہ کی جنگ پھیلاؤ اختیار کرگئی تومشرق ِ وسطیٰ میں قائم امریکی فوجی اڈوں کی سلامتی اور ان کے لاجسٹکس کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔یاد رہے کہ امریکاکے فوجی اڈے زیادہ تر مسلم ممالک یعنی قطر، بحرین، کویت، سعودی عرب، اردن اور ترکیہ میں ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی سطح پر امریکی پالیسی کے خلاف شدید ردعمل رونما ہونے کے خدشات بھی بڑھ چکے ہیںکیوں کہ اسرائیل اپنی کارروائیوں کو بڑھا رہاہے اور خلیجی ریاستیں پاکستان اور ترکیہ کے ساتھ ہاتھ ملارہی ہیں۔ ان حالات میں توانائی یعنی تیل و گیس کی رسد متاثر ہوسکتی ہے ۔ یہ وہ خدشات یا خطرات ہیں جن کی وجہ سے اس وقت امریکا کسی حد تک سہی، فلسطینیوں کے حق میں بیانیہ اپنانے پر مجبور ہو سکتا ہے تاکہ اپنے تزویراتی اور اقتصادی مفادات کو بچا سکے۔ امریکی پالیسی میں یہ نرمی اور مسلم ممالک کی بڑھتی ہوئی اہمیت پاکستان، سعودی عرب، اور ترکیہ کے درمیان ابھرتے ہوئے قریبی دفاعی اور اسٹریٹجک تعلقات کے تناظر میں دیکھی جانی چاہیے، کیونکہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدہ، جس کے تحت کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور ہوگا، اور ترکیہ کا جدید دفاعی نظام اور ڈرون ٹیکنالوجی خطے میں طاقت کا نیا توازن پیدا کر چکے ہیں۔
اس تجزیے کے مطابق ٹرمپ نے شاید یہ حقیقت بھانپ لی ہے کہ ان تینوںمسلم ممالک یعنی سعودی عرب، ترکیہ اور پاکستان کی مشترکہ حکمت عملی کسی بھی ممکنہ علاقائی محاذ آرائی میں اسرائیل کے لیے سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس کا وجود ہی باقی نہ رہے۔ علاوہ ازیں سعودی عرب دفاعی استحکام حاصل کرکے امریکی محتاجی سے نکلتا دکھائی دے رہاہے لہٰذا واشنگٹن کو اب ان مسلم ممالک کی بات کو اہمیت دینی پڑی ہے کیونکہ یہ تینوں طاقتیں ابھر کر خطے کی سیاست میں کلیدی کردار کی حامل بن سکتی ہیں۔ اس تجزیے سے معلوم ہوتاہے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف عالمی دباؤ سے نہیں بلکہ مسلم ممالک کے آپس میں مضبوط اتحاد اور صحیح استدلال سے حل ہوگا۔مسلم امہ کا باہمی اتحاد دراصل وہ منطقی سبب ہے جس نے امریکا کو پالیسیوں میں ترمیم پر سوچنے کے لیے مجبور کردیاہے ۔غزہ کی جنگ نے خطے میں ایک نئی قوت کو جنم دیاہے جس کا مقابلہ دہشت گرد اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہے ۔