امریکا میں اقوامِ متحدہ کے سالانہ سربراہی اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ اور غزہ کے لیے 21 نکاتی امن منصوبے کی پیشکش اور اس پر مسلم رہنماوں کی ملاقات کو عالمی میڈیا میں خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ہونے کی توقعات ظاہر کی گئی ہیں۔
عمومی تجزیہ کاروں کے خیال میں مسلم رہنماوں کے ساتھ امریکی صدر کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والا مشترکہ اعلامیہ غزہ کے مسئلے کے حل کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے تاہم متعدد مبصرین اس معاملے کو ایک نئے کھیل سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ نیا امن منصوبہ کہ بظاہر غزہ میں امن اور تعمیرنو کی جانب ایک قدم لگتا ہے، لیکن غیر سرکاری ذرائع سے سامنے آنے و الے اس کے مندرجات اور تاریخی پس منظر کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ایک پیچیدہ اور خطرناک حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ ان مبصرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کا مقصد مسئلے کا حل تلاش سے زیادہ دہشت گردی کے عالمی مرکز اسرائیل کی فوجی، سیاسی اور علاقائی بالادستی کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ اس منصوبے میں جو نکات شامل ہیں اور جن کی بنیاد پر عرب اور مسلم ممالک سے تعاون طلب کیا جارہا ہے، وہ ایک تشویش ناک تصویر کو پیش کررہے ہیں جس میں ایک مظلوم قوم پر ہونے والے ظلم کو قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مبصرین کے مطابق اس نئی منصوبہ بندی کا پہلا اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے نام پر حماس کا خاتمہ کرنے سمیت اسرائیل کے ان اہداف کو پورا کیا جائے جو وہ امریکی پشت پناہی اور ہر قسم کے مظالم ڈھانے کے باوجود پورے نہیں کرسکا ۔ عدل کا تقاضا تو یہ ہے کہ مظلوم کی بھرپور اعانت اور ہر ممکن طریقے سے اس کی حمایت کی جائے اور ظالم کو ظلم سے باز رکھا جائے نہ کہ ظالم کو محفوظ راستہ فراہم کر کے مظلوم کی جدوجہد پر پانی پھیر دیا جائے۔ اگر مبصرین کا خیال درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ منصوبہ درحقیقت ایک ایسے مکروہ کھیل کا حصہ ہے جس میں مظلوم کو دہشت گرد قرار دے کر اس پر ہونے والے ظلم کو جائز ثابت کیا جا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا نیتن یاہو کی زبان بولتے ہوئے حماس کو باربار دہشت گرد کہنا اور اس منصوبے میں حماس کو طاقت سے نکالنے کی بات کرنا اسی روش کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل جو ہر طرح کی وحشت کے باوجود حماس کو ختم نہیں کر سکا، اب مسلم اور عرب ممالک کے کندھوں پر بوجھ ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ اس کے لیے باقی ماندہ مزاحمت کو ختم کریں۔ اس منصوبے کے تحت عرب اور مسلم افواج کو غزہ میں بھیجنے کی تجویز درحقیقت ایک ایسی چال ہے جس سے ایک طرف اسرائیل کی فوجوں کو باعزت انخلا کا موقع ملے گا اور دوسری طرف حماس جیسی مزاحمتی تنظیموں کو مسلم ممالک کے ذریعے ہی کچلنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ نہ صرف مسلم ممالک کے لیے ایک شرمندگی کی بات ہے بلکہ یہ ایک ایسی سفارتی خودکشی ہے جس سے وہ ایک مظلوم قوم کے خلاف ظالم کا ساتھ دینے پر مجبور ہوں گے۔
اگر پہلی بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس منصوبے کا دوسرا نتیجہ فلسطین میں ایک ایسی انتظامیہ قائم کرنے کی کوشش ہے جو حماس کے اثرات سے خالی ہو اور اسرائیل اور مغرب کے مفادات کی پاس داری کرتی ہو۔ اگر مسلم ممالک اس منصوبے کو قبول نہ کریں تو مبینہ طورپر یہ شق بھی موجود ہے کہ پھر مغربی کنارے کو بھی اسرائیل میں ضم کر دیا جائے گا جو پہلے ہی نام نہاد قسم کی آزادی رکھتا ہے۔ یہ شق طاقت کے بل پر کھلی بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں۔ اگر واقعی ایسی کوئی شرط منصوبے کے نکات کا حصہ ہے تو مبصرین کی یہ بات درست قرار دی جائے گی کہ اس منصوبے کا مقصد دراصل فلسطین کی زمین اور اس کے لوگوں پر اسرائیلی تسلط کو قائم کرنا ہے۔ مسلم امہ کے عوام اور حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دینِ اسلام نے ظالم کے خلاف کھڑے ہونے کی تلقین کی ہے نہ کہ اس کے سامنے جھکنے کی۔ اگر واقعی ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے میں یہ نقائص موجود ہیں تو مسلم ممالک کو اس منصوبے کو مسترد کر دینا چاہیے اور اس کے بجائے ایک ایسا جامع منصوبہ پیش کرنا چاہیے جو فلسطینیوں کے لیے آزادی کی راہ ہموار کرتا ہو۔ دنیا کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اس مسئلے کا حل طاقت کے زور پر نہیں بلکہ عدل و انصاف کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلم ممالک اس ظلم کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں اور وہ اپنے ساتھ انصاف کا ساتھ دینے والی غیر مسلم اقوام کو بھی اس مہم میں شریک کریں۔
اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں ترکیہ، قطر، اسپین اور سلووینیا جیسے ممالک نے اقوام متحدہ میں غزہ کے انسانی بحران پر کھل کر بات کی ہے۔ ترک صدر اردوان نے اسرائیلی تجارت کی بندش کا اعلان کیا تو قطر کے امیر نے حماس کے رہنماوں پر حملے کو کھلے عام دہشت گردی قرار دیا۔ انڈونیشیا کے صدر نے 20 ہزار فوجی بھیجنے کی پیشکش کی تاکہ فلسطینیوں کی حفاظت کی جا سکے اور فلسطین کو تسلیم کرنے کی بات کی۔ یہ نمائشی اعلانات ہی سہی لیکن ان باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے پالتو اسرائیل کی مخالفت میں دنیا ایک رائے رکھتی ہے اور اس کے مطابق ردعمل بھی دے رہی ہے۔ کسی بھی وقت یہ ردعمل الفاظ سے بڑھ کر عملی اقدام کی صورت حاصل کر سکتا ہے او ر اب ایسا ہونا ضروری ہے کیونکہ محض الفاظ نہ بمباری روک سکتے ہیں، بھوکے بچوں کے پیٹ بھر سکتے ہیں اور نہ ہی ایک مظلوم قوم کی مدد کر سکتے ہیں۔ اگر محض اعلانات اور باتوں پر ہی اکتفا کرنا ہے تو کسی نئے منصوبے کی کیا ضرورت ہے؟
اگر مسلم ممالک کو شامل کر کے ایک ایسے نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف اسرائیل کو ہوگا تواس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ فلسطین کے مستقبل سے متعلق کوئی بھی فیصلہ تمام فلسطینی دھڑوں اور فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی شراکت اور رضامندی سے ہی ہونا چاہیے ورنہ اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔ فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی مشاورت کے بغیر غزہ میں مشترکہ عرب یا اسلامی افواج بھیجنا نہ صرف فلسطینی عوام میں مزید بے اعتمادی پیدا کرے گا بلکہ مزاحمت کو دبانے کا تاثر دے گا۔ امن کے کسی بھی منصوبے کی بنیاد انصاف، فلسطینی عوام کی رائے اور ان کی حقیقی نمائندگی پر ہونی چاہیے، نہ کہ اسرائیلی اور مغربی مرضی پر۔ مسلم ممالک کے لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف افواج بھیجنے کے بجائے اسرائیل اور اس کے حمایتیوں پر سفارتی اور قانونی دباو بڑھائیں اور باہمی اتحاد کو مزید مستحکم اور موثر بنانے کی کوشش کریں۔
