غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا امریکی و اسرائیلی منصوبہ

اقوام متحدہ ، یورپی یونین ،انسانی حقوق کے عالمی اداروں،بین لاقوامی برادری کی تمام تر مخالفت اور انتباہات کے باوجود قابض و ناجائز صہونی ریاست اسرائیل پوری قوت اور وحشیانہ بہیمیت کے ساتھ غزہ کے گنجان آباد شہر کو مکمل طور پر تباہ کرنے میں مصروف ہے اور گزشتہ دوتین دنوں سے غزہ شہر میں انٹرنیٹ کی بندش سے مکمل بلیک آؤٹ کرکے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جا رہا ہے اورفضا،زمین اور سمندر تینوں اطراف سے غزہ میں ہجرت نہ کرسکنے کے بسبب محصور شہریوں پر آتش و آہن کی بارش برسائی جارہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں یرموک اسٹیڈیم کے قریب واقع المعتصم اسکول پر فضائی حملہ کیا جہاں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔ صہیونی فوج ان تمام عمارتوں پر بے دریغ گولہ باری کررہی ہے جہاں فلسطینی خاندان محصور ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ شہر میں رہائشی عمارتوں کو بھی تباہ کررہی ہے ۔ اسی دوران اسرائیلی فوج نے صلاح الدین روڈ، جو کہ شمال سے جنوب جانے والے بے گھر افراد کا مرکزی راستہ ہے، بند کر دیا اور انہیں ساحلی شارع الرشید استعمال کرنے کی ہدایت کی تاہم یہ راستہ پہلے ہی شدید بھیڑ اور مالی اخراجات کی وجہ سے پناہ گزینوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

غزہ پر تقریباً دو سال سے جاری اسرائیل کی بد ترین جارحیت نہ صرف سنگین زمینی اور فضائی حملوں پر مشتمل ہے بلکہ اس جارحیت میں آہن و آتش کی بارش کے ذریعے قتل و خون کے ساتھ غزہ کی بائیس لاکھ سے زائد انسانی آبادی کیخلاف بھوک اور پیاس کا ہتھیار بھی نہایت بے رحمی سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ شہر مظلوم سمندر اور اسرائیل کی وحشیت کے چنگل میں چاروں طرف سے پھنسا ہوا اور مکمل زیر محاصرہ ہے، گویا دنیا اور فلسطینیوں کے ڈیڑھ ارب سے زائد ہم عقیدہ مسلمانوں کے دیکھتے بھالتے اسرائیل غزہ کی لاکھوں کی آبادی کو امریکا کے متواتر اور مسلسل عسکری، معاشی اور سفارتی تعاون سے بتدریج صفحہ ہستی سے مٹانے اور موت کی وادی میں دھکیل دینے کی راہ پر گامزن ہے اور یہ سب ایک ایسی تہذیب کے زیر سایہ ہو رہا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ وہ انسانیت دوست اقدار، امن اور انسانی آزادیوں پر یقین رکھتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنی جاری جارحیت کے ذریعے اس پوری تہذیب کے اندر سے ایک خون آشام، متعصب، انسانیت دشمن اور نہایت سفاک طاقت کو باہر نکال کر پوری دنیا کے سامنے ننگا کر دیا ہے اور بتادیا ہے کہ انسانیت اور امن کے معنی دراصل ان کے نزدیک صرف اپنی تہذیب کے پیروکاروں کے حوالے سے ہیں، اس مخصوص تہذیب کے دائرے سے باہر کسی انسان کیلئے بھی ان کے پاس امن، آزادی، حقوق اور ہمدردی میسر نہیں ہے۔

قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل اس منصوبے میں تنہا نہیں ہے بلکہ اسے ہمیشہ کی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ امریکا کی حمایت و مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔اب اس امر میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ غزہ کو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ تباہ کیا جارہا ہے اوراس کا مقصد غزہ کو اس کے باشندوں کے لیے ناقابل رہائش بناکر زمین کے ساتھے ہموار کرنا اور وہاں عیاشی و فحاشی کے اڈے قائم کرنے کے امریکی صدر ٹرمپ کے شیطانی عزائم کی تکمیل کرنا ہے۔نیتن یاہو کی خون آشام کابینہ کے سب سے باؤلے وزیر اور وزیر خزانہ سموٹریش نے دورو زقبل ایک یورپی جریدے کو انٹرویودیتے ہوئے اس منصوبے کے خط و خال بیان کیے ہیں۔ سموٹریش کے مطابق غزہ کی مہنگی ترین زمین کو اسرائیل اور امریکا کے درمیان بانٹنے کاپروگرام ہے، امریکا اسرائیل کو غزہ میں جنگ کے لیے جتنے ہتھیار اور رقوم دے رہا ہے،اس کے عوض میں غزہ کے مستقبل میں اس کی حصہ داری بنتی ہے، باقی آمدنی اسرائیل کو ملے گی۔ یہی باتیں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بھی دہرائی جاتی رہی ہیں۔ اسی سے اس خبر کا مطلب اور معنی بھی سمجھاجاسکتاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کانگریس سے اسرائیل کو 6.4 ارب ڈالر مالیت کے اسلحہ اور فوجی سامان کی فروخت کی منظوری لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پیکج میں 3.8 ارب ڈالر کی لاگت سے 30 اپاچی حملہ آور ہیلی کاپٹرز، 1.9 ارب ڈالر مالیت کی 3250 بکتر بند گاڑیاں اور 750 ملین ڈالر مالیت کے پرزہ جات و توانائی کی سپلائیز شامل ہیں۔ گویا کہ فلسطین کی سرزمین امریکا کے بدکردار صدر ٹرمپ کی ذاتی جاگیر ہے جس کو وہ اسرائیل کے ساتھ تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ان کا یہ خیال ہے کہ وہ طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے فلسطینیوں کا وجود مٹادیں گے یا ان کی جدوجہد آزادی کو کچلنے میں کامیاب ہوں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ غزہ کی سرزمین پر بہنے والا بے گناہوں کا لہو ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شیطانی جوڑی کا تعاقب کرتا رہے گا۔ دنیا تو اسرائیل کا ننگا پن، وحشیت اور بہیمیت اچھی طرح دیکھ چکی ہے اور اس کے سفاکانہ عزائم بھی دنیا کے سامنے آشکار ہیں، چنانچہ پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ وحشت و سفاکیت کا یہ کھیل بند کیا جائے، مگر امریکا اور دیگر اسرائیل کی پشت پناہ قوتیں ڈھٹائی سے اسرائیل کے اس دعوے کے ساتھ کھڑی ہیں کہ وہ اپنا ”حق دفاع” استعمال کر رہا ہے۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ امریکا نے چھٹی بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں خونریزی روکنے کی 14رکن ممالک کی قرار داد ویٹو کر دی ہے۔ گویا پوری دنیا ایک طرف ہے اور امریکا اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کی بہیمیت کی حمایت میں دوسری طرف کھڑا ہے۔ دنیا کو آخر اس بے شرمی اور ڈھٹائی کا کوئی علاج ڈھونڈنا ہوگا۔ امریکا آخر کب تک عالمی رائے عامہ اور انسانیت کے اجتماعی ضمیرکے فیصلے پر تھوکتا رہے گا اور دنیا کب تک یہ عالمی فورموں پر انسانیت کی یہ توہین برداشت کرتی رہے گی۔

اقوام متحدہ کا ادارہ دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کا مشترکہ نمایندہ ادارہ ہے، اس ادارے کے غیر جانبدار انسانی حقوق کمیشن نے غزہ میں صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی باقاعدہ تصدیق کردی ہے، اس کے بعد بھی اگر اسرائیل کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجاتا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کی نظریں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آنے والے ہفتے میں منعقدہ ہونے والے اجلاس پر لگی ہوئی ہیں۔ اگر اس اجلاس میں بھی امریکا کی اجارہ داری کا تاثر قائم رہا اور اقوام متحدہ غزہ کی جنگ روکنے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام رہی تو اس کے نتیجے میں موجودہ عالمی نظام سے متعلق دنیا بھر کے لوگوں میں پائی جانے والی مایوسی اور بڑھے گی اور دنیا مزید انتشار اور خلفشار کا شکار ہوجائے گی۔