پاک،سعودیہ دفاعی معاہدہ، بدلتے علاقائی توازن کا عکس

غزہ کے نہتے مسلمانوں پر غاصب اسرائیل کی جارحیت،مشرق وسطیٰ میں اس کی جارحیت کا عروج نیزروس اور یوکرین جنگ اور امریکا کی عالمی بالادستی کو چیلنج کرتے چین اور روس جیسے ممالک کی بین الممالک مقبولیت میںاضافہ حالیہ عرصے میںایسے عوامل ہیںجن کی وجہ سے عصری دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ طاقت کے مراکز میں تبدیلی کے باعث بین الاقوامی تعلقات کی نوعیت بھی تبدیلی کے فطری عمل سے دوچار ہے ۔

بین الاقوامی تعلقات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باب میں ایک نمایاں اضافہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین حال ہی میں طے پانے والاباہمی تزویراتی دفاعی معاہدہ ہے۔یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا دونوں خطوں کی جیوپولیٹیکل حرکیات پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ محض ایک روایتی دفاعی سمجھوتے سے بڑھ کر ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہے جس میں مختلف ریاستیں علاقائی سطح پر اپنی سلامتی کے لیے خود مختاری پر مشتمل حل تلاش کر رہی ہیں۔ گویا اب یک قطبی دنیا کا دور ختم ہوچکاہے اور اسی کے ساتھ اس دور سے جڑاعالمی نظام بھی انہدام پذیر ہے ۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والی یہ عالمی پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب قطر پر دہشت گرد اسرائیل کے حملے کے بعدعرب دنیا میںیہ سوال نہایت قوت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو اکہ کیا امریکا ہماری سلامتی کے ضامن کے طور پر کردارادا کرنے میں قابلِ اعتمادشراکت دار رہاہے؟ظاہرہے کہ اس کا جواب نفی میں تھا۔ اس جواب نے عرب دنیا میں سیکیورٹی کے حوالے سے تشویش کو بڑھا دیااور اس کا نتیجہ پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کی صورت میں ظاہر ہوا۔یہ بھی کہا جارہاہے کہ اس معاہدے کے حوالے سے تیاریاں ایک سال سے جاری تھیں لیکن قطر پر اسرائیل کے حملے نے معاملے کو انتہا تک پہنچا دیا۔بہرحال اب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا۔یہ تمام دنیا بشمول امریکا، اسرائیل اور بھارت کے لیے ایک واضح پیغام ہے ۔اس پیغام کی پرتوں میں کئی جہتیں ابھی پوشیدہ ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اجاگر ہوسکتی ہیں۔سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ دفاعی معاہدہ کئی دہائیوں میں پاک،سعودی دفاعی تعلقات میں سب سے بڑی پیش رفت ہے۔اس کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کے عسکری، سیاسی اور معاشی پہلوؤں پر گہری نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کے لیے جوہری دفاعی قوت کا فائدہ فراہم کرتا ہے جس کے بعد کسی آس پڑوس کے کسی بھی ملک کے لیے سعودی عرب کی جانب میلی نگاہ اٹھانا بھی مشکل ہوجائے گا۔ایک ایسے وقت میں جب عربوں میں امریکا اور اس کے روایتی اتحادیوں کی خارجہ پالیسیوں کے متعلق غیر یقینی بڑھ رہی ہے، پاکستان، ایک تسلیم شدہ ایٹمی طاقت اور دنیا کی سب سے تجربہ کار افواج میں سے ایک اپنی مضبوط عسکری حیثیت کے ساتھ سعودی عرب کے دفاع کے لیے میدان میں دکھائی دے رہاہے جس نے مشرق وسطیٰ کے مخدوش نظر آنے والے منظر نامے کو تبدیل کردیاہے ۔ اب پاکستان سعودی عرب کو ایک ایسے اسٹریٹجک ساتھی یا مددگار بھائی کی حیثیت سے میسر ہے جس پر وہ نہ صرف فوجی تربیت اور ٹیکنالوجی کے لیے بلکہ ایک وسیع تر خطے میں سیکیورٹی کے لیے بھی انحصار کر سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس سے سعودی عرب کو اپنے دفاعی اثاثے مضبوط کرنے کا موقع ملے گا اور وہ علاقائی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ خود مختار ہو سکے گا۔دفاعی ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ اسرائیل کے لیے براہ راست رکاوٹ کا کام کرے گا، خاص طور پر اس تناظر میں کہ پاکستان اپنی فوجی اور ایٹمی صلاحیتوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ کو ایک دفاعی چھتری فراہم کر سکتا ہے یوں سعودی عرب کو جوہری قوت حاصل نہ ہونے کے باجود اپنے دفاع کے لیے جوہری ہتھیار میسر ہوں گے۔ دوسری جانب پاکستان کے لیے یہ معاہدہ نہ صرف معاشی فوائد کا ایک بڑا ذریعہ ہے بلکہ اس کے عالمی اور علاقائی کردار کو بھی بلند کرتا ہے۔ سعودی عرب کی مالی معاونت اور سرمایہ کاری کی بدولت پاکستان کی دفاعی صنعت کو مزید وسعت ملے گی اور اسے زرمبادلہ کمانے کا ایک نیا ذریعہ ملے گا۔ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کو عرب دنیا کی سیاست میں اس طرح شامل کرتا ہے جیسے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس سے پاکستان مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھاسکتا ہے، جو اس کی خارجہ پالیسی کے لیے ایک اسٹریٹجک کامیابی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان صرف اپنے جغرافیائی حدود تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک وسیع تر مسلم دنیا کی سیکیورٹی میں بھی ایک کلیدی فریق بن کر ابھر رہا ہے۔

اس معاہدے کے اثرات صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہیں ہیں۔ بھارت جیسے علاقائی حریف کا ردعمل اہمیت کا حامل ہوگا۔ اگرچہ بھارت نے بظاہر محتاط ردعمل دیا ہے، لیکن اس کی بے چینی واضح ہے۔ اس معاہدے نے بھارت کے لیے پاکستان پر فوجی حملے کو پہلے سے بڑے چیلنج میں تبدیل کردیا ہے، کیونکہ اب اسے نہ صرف ایک ایٹمی طاقت بلکہ ایک امیر اور مضبوط اتحادی کے ساتھ بھی جنگ کا خطرہ ہوگا۔ یہ معاہدہ بھارت کو براہ راست فوجی جارحیت سے شاید مکمل طور پر نہ روکے، لیکن یہ اسے ہائبرڈ وارفیئر اور پراکسی جنگوں جیسی غیر روایتی حکمت عملیوں پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کرے گا۔یہ معاہدہ افغان عبوری حکومت کو بھی پاکستان سے متعلق اپنی پالیسی بدلنے کا اشارہ دے گا۔

پاک ،سعودیہ تاریخی پیش رفت دراصل یہ پیغام دے رہی ہے کہ مسلم ممالک اپنی سلامتی کے لیے بیرونی طاقتوں پر انحصار کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔یہ ایک تاریخی لمحہ ہے جس میں سعودی عرب کی قیادت نے امریکا کی دفاعی چھتری کو نظر انداز کرکے عالم اسلام کے بازوئے شمشیر زن پاکستان پر بھروسہ کیاہے ۔ظاہر ہے کہ پاکستان کو اس کی کچھ قیمت بھی ادا کرنا ہوگی لیکن ہمتِ مرداں ،مددِ خدا۔اگر یہ معاہدہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا تو اس سے مسلم امہ میں خودانحصاری اور اپنے بازوپر بھروسے کی ایسی مثال قائم ہوگی جس کے مستقبل میں دورر س نتائج مرتب ہوں گے اور مسلم امہ نو استعماری طاقتوں کے شکنجے سے نکلنے کے لیے ایک درست راستے پر گامزن ہوسکے گی۔