قطر کے دار الحکومت دوحہ میں منعقد ہونے والے ہنگامی اجلاس میں پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے سربراہان نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور قطر کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کرنے کے علاوہ غزہ میں صہیونی جارحیت رکوانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان شہبازشریف نے کہا کہ اسرائیل کا قطر پر حملہ کھلی جارحیت ہے، ہم قطر کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ بجائے خاموش رہنے کے ہمیں متحد ہونا ہوگا، اس جارحیت کے بعد سوال ہے کہ اسرائیل نے مذاکرات کا ڈھونگ کیوں رچایا؟ اسرائیل کی طرف سے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانا قابل مذمت ہے۔ ناانصافیاں ایک ناقابل برداشت حد تک کی سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ اسرائیل کو انسانیت کے خلاف جرائم پر قصوروار ٹھہرانا ہوگا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، عراقی وزیراعظم محمد شیاع السودانی، فلسطینی صدر محمود عباس بھی اجلاس میں شریک تھے۔
غزہ میں جاری منظم نسل کشی کے تناظر میں قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد مسلم ممالک کے سربراہان کا مل بیٹھنا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ طور پر صدائے احتجاج بلند کرنا اپنی جگہ ایک قابل لحاظ اور حوصلہ افزا امر ہے اور یقینی طور پر اس اکٹھ کے کچھ نہ کچھ مثبت اثرات بھی مرتب ہوں گے اور اس اجتماع میں مسلم سربراہان کی جانب سے جو عالم اسلام کے دفاع،تحفظ اور اتحاد کے لیے جو تجاویز پیش کی گئی ہیں، ان پر عمل درآمد کی صورت میں مستقبل میں اس اجلاس کے اچھے نتائج سامنے آنے کی توقع بھی رکھی جاسکتی ہے تاہم جہاں تک لمحۂ موجود کی ضرورت اور تقاضوں کا تعلق ہے تو افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دوحہ کانفرنس دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی توقعات کے مطابق فیصلے اور اقدامات کرنے سے قاصر رہی ہے۔ اس کانفرنس میں مسلم ممالک کے سربراہان نے باتیں تو بے شک بہت اچھی کی ہیں ، وزیر اعظم شہباز شریف ،ترک صدر رجب طیب اردوان سمیت کچھ حضرات کی تقریروں کو امت مسلمہ کے جذبات کی ترجمانی کی اچھی کوشش سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے مگر جہاں تک بات کسی عملی راست اقدام کی ہے تو بدقسمتی سے دوحہ سمٹ میں اس جانب کوئی پیشرفت دیکھنے کو نہیں ملی۔ کانفرنس کے اعلامیے میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی بات کی گئی ہے جبکہ اس وقت بھی کئی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ علانیہ یا خفیہ تعلقات اور روابط ہیں، ان میں سے کسی نے یہ تعلقات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ مسلم سربراہان کی جانب سے قطر کے خلاف جارحیت اور غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم کی کھل کر اور دوٹوک الفاظ میں مذمت اچھی بات ہے تاہم صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو کی خون آشامی کا علاج اگر صرف لفظی مذمت سے ممکن ہوتا تو یہ کب کا ہوچکا ہوتا۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نیتن یاہو نے دوحہ کانفرنس کے اس اعلامیے کے سامنے آنے کے ساتھ ہی غزہ میں زمینی حملے کا بھی باقاعدہ آغاز کرادیا ہے اور اس وقت صہیونی فوج فضا کے علاوہ سمندر زمینی راستے اور سمندر سے بھی غزہ پر آہن و آتش کی بارش برسارہی ہے۔ مزید افسوس ناک امر یہ ہے کہ دوحہ اعلامیے میں اسرائیل کے سرپرست اور غزہ میں جاری قتل عام کے اصل منصوبہ ساز امریکا کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ جس وقت پچاس سے زائد اسلامی ممالک کے سربراہان دوحہ میں بیٹھ کر اسرائیل کے خلاف تقریریں کر رہے تھے،عین اسی وقت امریکا کے صہیونی وزیر خارجہ مارکو روبیو انسانیت کے مجرم نیتن یاہو کے ساتھ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کے ٹرمپ کے شیطانی منصوبے کو حتمی شکل دینے میں مصروف تھے، مارکو روبیو کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہی نیتن یاہو نے غزہ میں زمینی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ اس سے پہلے صہیونی فوج نے غزہ شہر کی تقریباً تمام اونچی رہائشی عمارتوں کو میزائل مار مار کر تباہ کردیا تاکہ غزہ کے باشندوں کے لیے واپسی کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی جائے۔ یہ سب ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شیطانی جوڑی کی جانب سے مکمل منصوبہ بندی کے تحت کیا جارہا ہے اور اس کا مقصد غزہ کے تین ملین شہریوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے وہاں عیاشی و فحاشی کے اڈے قائم کرنے کے سفلی منصوبے کی تکمیل کرنا ہے۔
ٹرمپ اورنتین یاہو کی یہ خواہش کب اور کس حد تک پوری ہوتی ہے؟ اس بارے میں ابھی کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی تاہم یہ امر یقینی ہے اور عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق خود اسرائیلی فوج کے سربراہ نے نیتن یاہو کو خبردار کیا ہے کہ غزہ کو تباہ کرکے” فتح” حاصل کرنے کی کوشش کی بہت قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔ اسرائیلی آرمی چیف کی رپورٹ کے مطابق حماس کے پاس کم از کم چھ ماہ تک اسرائیلی فوج کی مزاحمت کرنے کی قوت موجود ہے اور اس مزاحمت کے دوران اسرائیلی فوج کو بے پناہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ علاوہ ازیں جنگ جاری رہنے کی صورت میں اسرائیل کے خلاف عالمی نفرت میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے بالخصوص ایسے ماحول میں جبکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقو ق کمیشن نے باضابطہ طور پراسرائیل کو غزہ میں نسل کشی(جینوسائیڈ) کا مرتکب قرار دیا ہے۔ تیسری جانب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اگلے ہفتے شروع ہونے والے اجلاس میں متعدد یورپی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلانات بھی متوقع ہیں۔ ان حالات میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حواس باختگی قابل فہم ہے مگر خطرہ یہ ہے کہ صہیونی بھیڑیے کے اس باولے پن کی قیمت غزہ کے نہتے عوام اور معصوم بچوں کو ادا کرنا پڑسکتی ہے۔
بنا بریں یہ تمام عالمی برادری بالخصوص اسلامی برادری کا فرض بنتا ہے کہ غزہ میں قتل عام رکوانے کے لیے اسرائیل کو دوٹوک پیغام دیں۔ اسلامی ممالک کو اس موقع پر بیداری کا ثبوت دینا ہوگا۔اگر خدانخواستہ غزہ کا سقوط ہوگیا تو اگلے مرحلے میں مغربی کنارہ بھی صہیونیوں کے پنجے میں جاسکتا ہے اور تازہ ترین اطلاعات مظہر ہیں کہ صہیونی لابی مسجد اقصیٰ پر بھی مکمل قبضہ کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ مسجد الخلیل پر قبضہ کیا جاچکا ہے اور مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں بنائی گئی ہیں جن کے ذریعے کسی بھی وقت مسجداقصیٰ کو شہید کیا جاسکتا ہے۔ حالات کا نقشہ بتارہا ہے کہ اگلے چند ماہ اسلامی دنیا پر بڑی آزمائش کے ہوں گے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ مسلم حکمرانوں نے اگر اس نازک موڑ پر مسلمانان عالم کے جذبات و احساسات کی درست ترجمانی نہیں کی اور امت مسلمہ کے مقدسات کا تحفظ نہیں کیا تو انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔