حیدرآباد/کراچی /لاہور/ملتان:پنجاب کے بعد سیلاب سندھ میں داخل ہو گیا ہے۔ دریائے سندھ میں گڈو بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔سیلاب کے باعث بالائی سندھ میں کچے کے درجنوں گاؤں ڈوب گئے ہیں۔ گھوٹکی میں کچے کے 20 سے زائد دیہات زیر آب آگئے ہیں۔
کندھ کوٹ میں کچے کے 80 فیصد علاقے سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں۔ اوباڑو، نوشہرو فیروز میں بھی کئی بستیاں ڈوب چکی ہیں جبکہ شہروں سے رابطہ منقطع ہوگیاہے۔سیلاب کے باعث ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں بھی زیرآب آگئیں۔
کمال ڈیرو کے قریب دریائے سندھ میں متاثرین کی کشتی الٹ گئی ہے۔ مقامی افراد نے ڈوبنے والے پانچوں افراد کو بچالیا ہے۔پنجند کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا جب کہ گڈو بیراج پر پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوگیا۔
پانی بڑھنے کے باعث حفاظتی بندوں پر بھی دباؤ بڑھنے لگا ہے اور حساس قرار دیے گئے کے کے بند اور اولڈ توڑی بند کومضبوط بنانے کاکام بھی جاری ہے۔دوسری جانب محکمہ اطلاعات سندھ کی طرف سے دریاؤں اور بیراجوں میں پانی کی آمد و اخراج کے تازہ ترین اعداد و شمار جاری کردیے گئے۔
محکمہ اطلاعات کے مطابق پراونشل رین اینڈ فلڈ ایمرجنسی مانیٹرنگ سیل نے بتایا کہ پنجند کے مقام پر پانی کے بہائو میں کمی واقع ہوئی ہے جب کہ ان فلو اور آئوٹ فلو اس وقت 575195 کیوسک ریکارڈ کیا گیا، گڈو بیراج پر اس وقت ان فلو 544,658 کیوسک اور آئوٹ فلو 514,051 کیوسک ہے۔
محکمہ اطلاعات سندھ نے کہا کہ سکھر بیراج پر ان فلو 470,580 کیوسک اور آؤٹ فلو 422,400 کیوسک ریکارڈ کیا گیا، کوٹری بیراج پر ان فلو 262,509 کیوسک جبکہ آئوٹ فلو 254,354 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
ادھر پنجاب میں دریائے راوی، ستلج اور چناب میں شدید سیلاب کے باعث اب تک 101شہری جاں بحق ہوچکے، 4ہزار 700سے زائد موضع جات اور 45لاکھ 70ہزار افراد متاثر ہوئے، سیلاب میں پھنسنے والے 25لاکھ 12ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)نے دریائے راوی، ستلج اور چناب میں سیلاب کے باعث ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری کردی۔
ریلیف کمشنر نبیل جاوید کے مطابق شدید سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 392ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں، 493 میڈیکل کیمپس بھی قائم کیے گئے ہیں، مویشیوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے 422 ویٹرنری کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دریائے ستلج پر موجود بھارتی بھاکڑا ڈیم 88فیصد تک بھر چکا ہے، پونگ ڈیم 94فیصد جبکہ تھین ڈیم 89 فیصد تک بھر چکا ہے۔نبیل جاوید نے بتایا کہ منگلا ڈیم 93فیصد جبکہ تربیلا ڈیم 100فیصد تک بھر چکا ہے۔
دریں اچناء دریائے چناب نے جلالپور پیر والا میں تباہی مچانے کے بعد تحصیل شجاع آباد کا رخ کر لیا، شجاع آباد شہر کو بچانے والے بند میں 250 فٹ چوڑا شگاف پڑ گیا، پانی شہر کی جانب بڑھنے لگا، درجنوں بستیاں سیلابی پانی میں ڈوب گئیں، ہزاروں شہری دربدر ہو گئے۔
موضع دھوندھو کابند ٹوٹنے سے متعدد بستیاں زیر آب آئی ہیں اور پانی کی بے رحم لہریں 138 بستیاں بہا لے گئی ہیں، بستی گا گراں میں فصلیں تباہ ہو گئیں، لوگوں کی نقل مکانی جاری ہے۔علی پور اور سیت پور کے مضافاتی علاقوں میں بڑا نقصان ہو رہا ہے، ہزاروں ایکڑ پر فصلیں پانی کی نذر ہو چکی ہیں، لیاقت پور میں سیلابی پانی سے 21 موضع جات متاثر ہوئے۔
بہاولنگر کے موضع چاویکا ،جھلن آرائیں اور چک فتویرا میں سیلابی پانی سے راستے تاحال منقطع ہیں۔میلسی، خیرپور ٹامیوالی اور کہروڑ پکا میں 24 سے 36 گھنٹوں میں پانی کی واضح کمی نظر آنا شروع ہو جائے گی، میلسی کے سیلاب زدہ علاقوں میں 6 سے 8 فٹ پانی موجود ہے۔
میلسی میں ڈاکٹر، فلاحی تنظیمیں سیلاب زدگان بھائیوں کی امداد میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔لیاقت پور کے اکثر متاثرین منچن بند پر بغیر کیمپ کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، سیلاب سے35 موضع جات، 84721 آبادی متاثر ہوئی ہے، ڈپٹی کمشنر کے مطابق سیلاب متاثرہ بچوں کے لیے عارضی کلاس روم قائم کر دیا گیا ہے۔جلال پور پیر والا کے نواحی گاؤں 86 ایم میں ریسکیو آپریشن مکمل ہو گیا۔
بہاول پور کے دیہی علاقے بھی پانی کے گھیرے میں آگئے جہاں 4 تحصیلوں کے 100 سے زائد دیہات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔لودھراں میں 2 حفاظتی بند ٹوٹنے سے پانی آبادی میں داخل ہوگیا جس کے بعد ڈرون کی مدد سے پانی میں گھرے افراد کو ریسکیو کیا گیا۔