سیرت النبیۖ اور انسانی حقوق

آخری قسط:
ایک اور روایت ذکر کر دیتا ہوں۔ بخاری شریف کی روایت ہے جو ”حدیث بریرہ” کہلاتی ہے۔ بریرہ ایک خاندان کی لونڈی تھیں۔ خاندان والوں نے مغیث نامی نوجوان سے ان کی شادی کر دی۔ مالک اپنی لونڈی کی کہیں شادی کر دے اس کا حق ہے۔ بریرہ نے خاندان والوں سے بات کی کہ اگر تم میرا سودا کر لو، میری قیمت طے کرو تو میں تمہیں قیمت محنت مزدوری کر کے دے دیتی ہوں، جسے فقہی اصطلاح میں مکاتبت کہتے ہیں۔ انہوں نے بات منظور کر لی اور نو اوقیہ طے ہوئے نو قسطوں میں۔ بریرہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا کر عرض کیا: اماں جان! یہ میرا سودا ہوا ہے، میرے ساتھ کچھ تعاون کیجیے تاکہ مجھے آزادی مل جائے۔ حضرت عائشہ نے کہا: بیٹا اگر میں ساری قسطیں اپنی طرف سے دے کر تمہیں خرید لوں اور تمہیں آزاد کر دوں، یہ سودا تمہارے خاندان والوں کو منظور ہے؟ ان سے بات کر لو میں یکبارگی سارے پیسے دے دیتی ہوں اور تمہیں آزاد میں کروں گی۔ حضرت عائشہ نے خرید کر آزاد کر دیا۔

اب وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ بن گئیں۔ آزاد ہونے کے ساتھ ہی ان کو ایک اور حق حاصل ہو گیا جسے خیارِ عتق کہتے ہیں۔ نکاح کے وقت آزاد بالغ عورت کو تو انکار کا اختیار ہوتا ہے لیکن لونڈی کو یہ اختیار نہیں ہوتا۔ مالک نے لونڈی کا اپنی مرضی سے کہیں نکاح کر دیا ہو، لونڈی جب آزاد ہوتی ہے تو اس کا وہ حق بحال ہو جاتا ہے، اب اس کی مرضی ہے کہ خاوند کے ساتھ رہے یا نہ رہے۔ بریرہ جب آزاد ہوئیں تو وہ سمجھدار تھیں اور مسئلہ مسائل جانتی تھیں، انہوں نے مغیث کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا کہ اب ہمارا نکاح ختم۔ مغیث صاحب بہت پریشان ہوئے کہ یہ کیا ہوا اور کہا کہ ایسا نہ کرو، لیکن بریرہ نے کہا یہ میرا حق ہے اور میں نے اپنا حق استعمال کر لیا ہے۔ مغیث بہت زیادہ پریشان ہوئے، کچھ دن تو سفارشیں بھیجتے رہے، لیکن بریرہ نے کسی کی سفارش نہ مانی۔

ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن عباس کے ساتھ مدینہ منورہ کے کسی محلے سے گزر رہے تھے تو مغیث کو دیکھا کہ گلیوں میں دیوانہ وار پھر رہا ہے، آنسو بہہ رہے ہیں اور روتے ہوئے آوازیں دے رہا ہے، کوئی اللہ کا بندہ ہے جو بریرہ کو منا دے، میرا گھر اجڑ گیا ہے۔ حضور علیہ السلام نے ساتھی سے کہا کہ اس بیچارے کا حال دیکھو یہ اس کے پیچھے دیوانہ ہو گیا ہے اور وہ اس کا نام بھی نہیں سننا چاہتی۔ اللہ کی قدرت ہے اللہ کے کاموں میں کون دخل دے۔ یہ منظر دیکھ کر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغیث پر ترس آیا اور آپ نے مغیث کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا اور ایسے وقت میں سفارش کرنی بھی چاہیے۔ میں کہا کرتا ہوں ایسے وقت میں کسی کی سفارش کرنا سنت ہے، کسی کی ایسی حالت ہوجائے تو اسے دھکے نہیں مارنے چاہئیں بلکہ سفارش کرنی چاہیے۔ آپ علیہ السلام نے سفارش کا فیصلہ کیا اور گھر تشریف لائے۔ بریرہ کو بلایا اور فرمایا مغیث کا کیا قصہ ہے؟ انہوں نے کہا، یارسول اللہ میں نے اپنا حق استعمال کیا ہے اور مغیث کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا ہے۔

آپ علیہ السلام نے سفارش کرنا چاہی تو بریرہ نے کہا: یارسول اللہ! کیا یہ میرا حق نہیں تھا؟ فرمایا، حق تو تھا۔ کہا، اب میری مرضی میں اس کے ساتھ رہوں یا نہ رہوں۔ میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے کہا: بریرہ! کوئی نظرثانی کی گنجائش ہے تو نظرثانی کر لو، اس بیچارے کا بہت برا حال ہے۔ یہاں آپ حضرات ذرا غور کریں کہ سفارش کون کر رہا ہے اور کس سے سفارش کر رہا ہے۔ آنحضرت علیہ السلام خود سفارش کر رہے ہیں گھر کی خادمہ سے۔ فرمایا: بریرہ! یہ فیصلہ واپس لے سکتی ہو؟ وہ بھی حضرت عائشہ کی شاگردہ تھی۔ کہا یارسول اللہ! یہ آپ حکم فرما رہے ہیں یا مشورہ دے رہے ہیں؟ یہ فرق وہ جانتی تھی کہ حکم کا درجہ کیا ہوتا ہے اور مشورے کا درجہ کیا ہوتا ہے۔ اگر آپ حکم دے دیں تو کس مسلمان کی مجال ہے کہ اس کا انکار کر سکے اور مشورہ ہو تو اس میں اختیار ہوتا ہے کہ اسے قبول کرے یا نہ کرے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا، حکم نہیں ہے مشورہ ہے۔ یہ سنا تو فورًا بولی ”لاحاجة لی” مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں اس موقع پر کانپ جاتا ہوں کہ کون انکار کر رہا ہے اور کس کے سامنے کر رہا ہے۔ مگر اسی پر قصہ ختم ہو گیا۔ یہ ہے حق کا احساس۔ آج دنیا میں عورتوں اور بچوں کے حقوق کا شور مچا ہوا ہے، بچوں کے حق کی بات اور عورتوں کے حق کی بات، یہ بات آپ حضرات کی سمجھ میں آئی ہے کہ سب سے پہلے یہ حقوق کس نے پیش کیے ہیں؟

آج میں نے قرآن کریم کی دو آیتیں اور آپ علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے بیسیوں واقعات میں سے دو واقعے ذکر کیے ہیں کہ حقوق کے بارے میں قرآن کریم کا تصور اور مزاج کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج اور سنت مبارکہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔