مصنوعی ذہانت کے استعمال کے بے تحاشہ فوائد گنوائے جاتے ہیں مگر مصنوعی ذہانت بالخصوص جنریٹیو مصنوعی ذہانت کے دینی علوم میں استعمال سے بہت سی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ چونکہ دلائل شرعیہ میں سب سے اولین قرآنِ پاک ہے لہٰذا قارئین کی خدمت میں ہم تین مثالیں پیش کرتے ہیں کہ کس طریقے سے مصنوعی ذہانت کو قرآنی علوم میں استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے کیا نقصانات ہو رہے ہیں۔
مثال اول: قرآنِ پا ک کی نعوذ باللہ من گھڑت آیت بنانا
مصنوعی ذہانت کے ذریعے قرآنِ پا ک کی نعوذ باللہ من گھڑت آیات بنائی گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں مسلم کونسل آف برطانیہ (ایم سی بی) نے ایک خطبہ جاری کیا جس میں قرآنِ پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا جو کہ قرآنِ پاک میں موجود ہی نہیں ہے، وہ من گھڑت قرآنی آیت یہ تھی (نقل کفر کُفر نَباشَد)۔
قرآنی آیت: وظن المومنون والمومنت باللہ ظنا حسنا (سورة احزاب، آیت نمبر 10)
ترجمہ: اور مومن مرد اور مومن عورتیں، دونوں خدا کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔
جب ٹوئیٹر پر ایک صاحب نے اس من گھڑت قرآنی آیت کی غلطی کی نشاندہی کی تو پھر مسلم کونسل آف برطانیہ نے تین اپریل 2025ء کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے باقاعدہ اس پر معذرت کی، تحقیقات کرنے کا عندیہ دیا کہ یہ کیسے ہوگیا، آئندہ ایسی غلطی نہ ہونے کی یقین دہانی کروائی اور اپنی ویب سائٹ سے وہ خطبہ بھی ہٹا دیا۔ اس سے چار باتیں بالکل واضح ہوگئیں۔ اول یہ کہ مسلم کونسل آف برطانیہ نے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کو استعمال کر کے خطبہ تیار کیا، دوم یہ کہ اس خطبے کی تیاری کے بعد اس کو پڑھا تک نہیں گیا تاکہ اس سنگین غلطی کی نشاندہی ہو سکے، سوم یہ کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر من گھڑت قرآنِ پاک کی آیات تک بنا دیتے ہیں مع سورہ نمبر اور آیت نمبر کے حوالے کے ساتھ، اور چہارم یہ کہ یہ من گھڑت قرآنی آیت مسلمانوں کے ہی ایک پلیٹ فارم سے جاری کی گئی۔
ایک عام انسان جب مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے سطحی طور پر مکالمہ کرے گا اور کہے گا کہ نعوذ باللہ قرآن جیسی کوئی آیت بنا کر دکھاؤ تو چیٹ جی پی ٹی کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ ”قرآن پاک اللہ کا کلام ہے، اور اس جیسا کلام بنانا نہ صرف انسانی طور پر ناممکن ہے بلکہ اسلام میں اس کی کوشش کرنا بھی سخت منع ہے”۔ اب اس جواب سے عام انسان متاثر ہو جائے گا اور یہی سمجھے گا کہ چیٹ جی پی ٹی قرآنی آیت نہیں گھڑتا اور کمپیوٹر سائنسدان اور محققین شاید جھوٹ بول رہے ہیں۔ درحقیقت سائنسدان و محققین جھوٹ نہیں بول رہے، اس کی چند وجوہات ہیں۔ اول، اوپر ہم نے شواہد پیش کر دیئے کہ ایسی آیت بنائی جا چکی ہے۔ دوم، جو بھی ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر کی ساخت اور کام کا طریقہ کار جانتا ہے اور تھوڑا گہرائی میں ان کو استعمال کیا ہے تو وہ اس حقیقت سے آشنا ہے کہ یہ مواد گھڑتا ہے اور یہ کسی وقت بھی نئی قرآنی آیت نعوذ باللہ گھڑ سکتا ہے۔ لہٰذا کسی موضوع پر جب کوئی مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے خلاصہ بنائے گا یا کوئی مکالمہ کر رہا ہوگا تو وہ سافٹ وئیر کبھی بھی کسی قرانی آیت کا حوالہ دے سکتا ہے جو کہ حقیقتاً قرآنِ پاک کی آیت نہ ہو۔ سوم، پرامپٹ انجینئرنگ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر ان مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے تعامل کیا جائے گا تو ان سافٹ وئیرز کی خوبی اور خامی دیکھی جا سکتی ہے۔ مثلاً اگر ہم ان سافٹ وئیر سے کچھ سوال کریں اور سیاق و سباق پیش نہ کریں تو ہو سکتا ہے کہ ان کا جواب مکمل درست نہ ہو۔ مگر اگر ہم ایک خاص طرز پر پرامپٹس بنائیں جو کہ درست ہوں، مکمل ہوں اور ایسے ہوں جن پر مصنوعی ذہانت کا ماڈل کام کر سکے تو یقیناً ایسی قرآنی آیت بنائی جا سکتی ہیں معاذ اللہ۔
مثال دوم: قرآنِ پاک کی مصنوعی ذہانت سے تفسیر و ترجمہ کرنا
برطانیہ کے ایک صاحبِ علم مصنوعی ذہانت سے قرآنِ پاک کے ممکنہ ترجمہ و تفسیر کے استعمال پر بات کرتے نظر آتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے لیکچرز بعنوان آرٹیفیشل مفسر یعنی مصنوعی مفسر اور دیگر تفسیر کے عنوان پر مقالہ جات بھی موجود ہیں (حوالہ: ابن عاشور سینٹر، برطانیہ)۔ اپنے ایک لیکچر میں وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے سوال کرتے ہیں کہ قرآن پاک کی کی فلاں آیت کا ترجمہ کیا ہوگا؟ پھر جب چیٹ جی پی ٹی جواب دیتا ہے تو پھر وہ اس سے مزید سوال کرتے ہیں کہ اس آیت کے فلاں معنی بھی تو ہوسکتے ہیں؟ بعض سوالات کے جوابات پر چیٹ جی پی ٹی معذرت کرتا ہے، اور بعض مرتبہ ”ہیلوسینیشن” کرتا ہے۔ ہیلوسینیشن کے معنی فریبِ نظر، واہمہ، ہذیان، جھوٹا گمان یا تصور ہونے کے ہیں۔ آسان الفاظ میں ”اگر آپ کو کسی شے یا انسان کی غیر موجودگی میں وہ شے یا انسان نظر آنے لگے یا تنہائی میں جب آس پاس کوئی نہ ہو آوازیں سنائی دینے لگیں تو اس عمل کو ہیلونیسیشن کہتے ہیں” (حوالہ: پروفیسر رابن ایمسلے، مقالہ نمبر 25، سیزوفیرنیا 2024ء )۔ مصنوعی ذہانت میں ہیلوسینیشن سے مراد یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر باکل جھوٹی بات بیان کررہے ہوں مگر اس طریقے اور اتنے یقین سے پیش کریں کہ سچ لگے (حوالہ: ہیلوسینیشن کیا ہے؟ یونیورسٹی آف ایری زونا، امریکا)۔
الغرض ان صاحبِ علم کی ”سائنسی تحقیق” سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر شاید مافوق الفطرت صلاحیتوں کے مالک ہیں، ان سافٹ وئیر میں عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہے، ان سافٹ وئیر کے سامنے آج تک لکھی گئی مختلف تفاسیر موجود ہیں اور ان تفاسیر میں سے وہ خلاصہ کر کے صحیح تجزیہ و نتائج نکال سکتے ہیں لہٰذا ایسے مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے مکالمہ کر کے قرآنِ کریم کے ممکنہ ترجمہ پر غوروخوض کیا جاسکتا ہے۔ الغرض مصنوعی ذہانت کے الگوریتھمز استعمال کرکے وہ قرآنِ پاک کے ممکنہ ترجمہ و تفسیر پر کام کررہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سورہ یوسف کا ترجمہ کیا ہے جس سے ایک مثال سورہ یوسف، آیت نمبر چھیانوے ، ہم یہاں پر ذکر کرتے ہیں۔
ان صاحبِ علم کے سورہ یوسف کی آیت نمبر چھیانوے کے انگریزی ترجمہ و حاشیہ کو پڑھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ صاحبِ علم کئی وجوہات کی بنا پر اس امکان کو ترجیح دیتے ہیں کہ ”البشیر” کوئی شخص نہیں بلکہ قمیص ہے۔ نیز اپنے ایک لیکچر میں وہ ”چیٹ جی پی ٹی اور میری خوشخبری دینے والی قمیص کی تھیوری” پیش کرتے ہیں جس میں وہ تجویز کرتے ہیں کہ ”البشیر۔ خوشخبری دینے والا” کوئی شخص نہیں ہے، حضرت یعقوب علیہ السلام کا بیٹا بلکہ اصل میں حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو رکھتی ہے اور ثبوت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام زندہ ہیں۔ اپنے اس لیکچر میں سورہ یوسف کی آیت نمبر 96میں ”البشیر” کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ کیا ہوگا اگر ہم یہ سوچیں کہ ”البشیر” کوئی شخص نہ ہو؟ کیا مصنوعی ذہانت ”البشیر” سے متعلق ہمیں کچھ ممکنات بتا سکتی ہیں جن کے متعلق ہم سوچ سکیں اور اسے اختیار کرسکیں؟ کیا مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر ہماری سوچ و فکر کی اڑان سے پہلے سوچ سکتا تھا اور ہمیں یہ تجویز دے سکتا تھا کہ ”البشیر” کوئی شخص نہیں بلکہ قمیص ہے؟ الغرض ان صاحبِ علم کے مطابق ”البشیر” کوئی شخص نہیں بلکہ قمیص ہے اور اسی ترجمہ کو انہوں نے اپنے سورہ یوسف کے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔
یہ صاحبِ علم مفسرین جیسے امام رازی اور امام آلوسی کی تفاسیر کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ اس آیت کو ان مفسرین کے مطابق متبادل بھی پڑھا جا سکتا ہے جیسے کہ ”خوشخبری دینے والے نے قمیص حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈال دی یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے قمیص اپنے چہرے پر خود ڈال دی”۔ ان صاحبِ علم کے بقول اس آیت کو متبادل پڑھنے کے بیج (بنیاد) ان مفسرین نے ڈالی اور ان کے لیے تو صرف ایک قدم اور تھا کہ وہ سوچیں کہ ”البشیر” ہرگز کوئی شخص نہیں ہے بلکہ اصل میں قمیص ہی کی تفصیل ہے (حوالہ: دی ان ٹرانسلیٹڈ قرآن، ابن عاشور سینٹر، برطانیہ) بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ ان صاحبِ علم کو یہ فکر بھی لاحق تھی کہ کہیں ان پر اہلِ علم اور مفسرین حضرات کی جانب سے علمی گرفت نہ کی جائے لہٰذا اپنی تجویز پیش کرنے کے بعد حاشیہ میں ایک جگہ یہ بھی تحریر کردیا ہے کہ ”جو نکتہ انہوں نے بالکل واضح نہیں کیا وہ یہی ہے کہ کیا ”البشیر” شخص ہے یا قمیص”۔
”البشیر” کو بطور قمیص سمجھنے کے بالمقابل جب ہم مفسرین کے تراجم و تفاسیر دیکھتے ہیں تو وہ ”البشیر” کو بطور شخص لیتے ہیں۔ مثلاً سورہ یوسف کی آیت نمبر 96کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اس طرح کرتے ہیں:
”پھر جب خوشخبری دینے والا پہنچ گیا تو اس نے (یوسف کی) قمیص ان کے منہ پر ڈال دی، چنانچہ فوراً ان کی بینائی واپس آگئی” (سورہ یوسف، آیت 96، آسان ترجمہ قرآن)
اس آیت کی تشریح میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ
”خوشخبری دینے والے” حضرت یوسف علیہ السلام کے سب سے بڑے بھائی تھے جن کا نام بعض روایات میں یہوداہ اور بعض میں روبن آیا ہے۔ اور خوشخبری دینے سے مراد یہ خوشخبری ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام ابھی زندہ ہیں، اور انہوں نے سب گھر والوں کو اپنے پاس بلایا ہے۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص چہرے پر ڈالنے سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آگئی۔ مفسرین نے فرمایا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص سے کئی اہم واقعات ظاہر ہوئے۔ انہی کی قمیص کو ان کے بھائی خون لگا کر لائے تھے، اور اس کو صحیح سالم دیکھ کر حضرت یعقوب علیہ السلام یہ سمجھ گئے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے نے نہیں کھایا، اور انہی کی قمیص تھی جو زلیخا نے پیچھے سے پھاڑی، اور اس سے ان کی بے گناہی ثابت ہوئی، اور اب یہی قمیص تھی جس کی خوشبو حضرت یعقوب علیہ السلام کو دور سے محسوس ہوئی، اور بالآخر اس سے ان کی بینائی واپس آئی۔” (آسان ترجمہ قرآن)
”البشیر” کو بطور شخص سمجھنے کا ترجمہ و تفسیر شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمت اللہ علیہ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ نے بھی اختیار فرمایا ہے جس کو آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی، جلد دوم، تسہیل و ترتیب حضرت مولانا عمر انور بدخشانی، صفحہ 200میں قارئین ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ہماری ان تمام تفصیلات فراہم کرنے پر کسی کے ذہن میں یہ خیال آسکتا ہے کہ ”البشیر” کا ترجمہ بطور شخص کیا جائے یا بطور قمیص، اس سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا اور اس طرح کے تراجم کے اختلافات سے سے تفاسیر بھری پڑی ہیں اور مفسرین حضرات قرآنی آیات کے ترجمہ و تفسیر میں اختلاف کرتے رہے ہیں۔ قارئین یاد رکھیں کہ یہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے۔ بعض اوقات فرق معمولی ہوتا ہے یا دیکھنے میں چھوٹا دکھائی دیتا ہے، لیکن اس کے عواقب و نتائج بہت دور تک پہنچتے ہیں لہٰذا مصنوعی ذہانت کو قرانِ پاک کے ترجمہ و تفسیر کے لیے اختیار کرنے کے نتائج نہایت سنگین ہوں گے اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اگر بعض مفسرین نے ”یعقوب علیہ السلام نے قمیص اپنے چہرے پر خود ڈال دی” اپنی تفسیر میں تحریر بھی فرمایا تو اس سے ”البشیر” کا قمیص ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟ دوم یہ کہ یہ مفسرین حضرات تھے جنہوں نے قرآنِ پاک کی آیات کی تفسیر پیش کی ہے جبکہ یہاں پر مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر قرآنِ پاک کا ترجمہ و تفسیر کررہے ہیں جو اپنی اصل میں مشین ہے جو انسان کا متبادل ہرگز نہیں ہو سکتی۔ سوم یہ کہ ان مصنوعی ذہانت کی مشینوں میں ذہانت قطعاً نہیں بلکہ یہ تو جھوٹا مواد گھڑتی ہیں اور ان گنت سائنسی تحقیقات میں ان کے نقائص کو کمپیوٹر سائنسدانوں نے واضح بیان کیا ہے۔ چہارم یہ کہ مصنوعی ذہانت سے مستقبل میں قرآنِ پاک کا مفہوم بالکل ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے (جس کی ایک مثال ہم ”مثال اول” میں پیش کر چکے ہیں کہ کس طرح قرآنی آیت گھڑی گئی۔)
مثال سوم: مصنوعی ذہانت سے قرآن کے چھپے پہلوؤں کو سمجھنا
غلام احمد پرویز کے ادارہ طلوعِ اسلام لاہور کے آفیشل سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے 12نومبر 2024کو نشر ہونے والی ایک تقریر بعنوان ”قرآنِ کریم اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس” میں کچھ یوں کہا گیا ہے:
”آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) ہمیں قرآن کے ایسے پہلوؤں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے جو عام طور پر دیکھنا مشکل ہوتے ہیں جیسے بار بار آنے والے موضوعات اور سورتوں میں موجود مشترکہ کہانیاں۔ اے آئی سے ہر زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے جس سے دنیا کے مسلمان اور غیر مسلمان قرآن کو اپنی زبان میں سمجھ سکتے ہیں”۔
ان تین مثالوں سے قارئین کو یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہوگی کہ مصنوعی ذہانت کو علومِ قرآنی بالخصوص قرآنِ پاک کے ترجمہ و تفسیر اور اس کے چھپے ہوئے پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے بڑے پیمانے پر عالمی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ الغرض راقم نے یہ تفصیلات بطور خاص حضرات مفتیانِ کرام، مفسرین اور اہلِ علم حضرات کی خدمت میں پیش کی ہیں تاکہ وہ ایسی تمام کوششوں کا علمی جائزہ لے سکیں کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت سے قرآنِ پاک کے ترجمہ و تفسیر کرنے سے امتِ مسلمہ کو کیا ممکنہ خطرات پیش آسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر من گھڑت قرآنِ پاک کی آیات تک بنا دیتے ہیں اور وہ بھی سورہ نمبر اور آیت نمبر کے حوالے کے ساتھ اور وہ آیت قرآنِ پاک میں موجود ہی نہیں ہوتی۔ یہی کچھ حال احادیث مبارکہ اور دیگر علمی مواد کے ساتھ بھی ہورہا ہے لہٰذا مدارسِ دینیہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ طلباء کرام مصنوعی ذہانت کو دینی علوم میں سرے سے استعمال ہی نہ کریں۔