کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی، ہمیشہ دو چار مصیبتیں ساتھ لے کر آتی ہے۔ اس وقت دریائے ستلج میں شدید طغیانی نے لاکھوں افراد کو گھیر رکھا ہے۔ دریا کے کنارے آباد بستیاں، زرخیز کھیت، سرسبز فصلیں اور صدیوں پرانی رہائش گاہیں سب سیلاب کے بے رحم ریلے کی نذر ہو رہی ہیں۔ جو لوگ دور بیٹھے ہیں وہ اس مصیبت کی ہولناکی کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ صرف وہی لوگ اس کرب کو سمجھ سکتے ہیں جو اپنے سامنے گھروں کو گرتے اور کھیتوں کو پانی میں ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔ ان کی محنت کی کمائی، خواب اور مستقبل سب ایک ہی جھٹکے میں بہ گئے ہیں۔ فصلیں جو کسانوں نے خون پسینہ بہا کر اگائی تھیں، مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ گندم، کپاس اور مکئی کے کھیت جو پورے علاقے کی معیشت کا سہارا تھے، اب کیچڑ اور سمندر میں بدل گئے ہیں۔ مکانات کی دیواریں ریت کی مانند ڈھیر ہو رہی ہیں، یا کسی بھی لمحے زمین بوس ہونے کو ہیں۔ کچھ خاندان اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، جبکہ بے شمار گھرانوں نے اپنی واحد روزی روٹی کا ذریعہ یعنی مویشی بھی سیلابی پانی کے سپرد کر دیے ہیں۔ یہ صرف مالی نقصان نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب اور طرزِ زندگی کا ٹوٹ جانا ہے۔
اس قدرتی آفت کے ساتھ ایک اور ہولناک خطرہ بھی ابھر آیا ہے۔ سیلابی ریلوں کے ساتھ بڑی تعداد میں سانپ، بچھو اور دیگر زہریلے کیڑے بہہ کر دیہات میں پھیل گئے ہیں۔ وہ لوگ جو پہلے ہی بے یار و مددگار ہیں، اب انہیں جان بچانے کیلئے ان نئے خطرات کا بھی سامنا ہے۔ ایسے میں بچوں اور عورتوں کی حالت سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔
اگرچہ حکومت پنجاب نے ہائی الرٹ کا اعلان کیا ہے اور ریسکیو 1122، محکمہ صحت، پولیس، بلدیاتی ادارے اور پاک فوج فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیلاب کی شدت کے آگے یہ وسائل ناکافی ہیں۔ سیاست دان، مقامی نمائندے اور این جی اوز اپنے اپنے دائرے میں امدادی کاموں میں مصروف ہیں۔ مذہبی تنظیمیں بھی سب سے آگے بڑھ کر سیلاب زدگان کی مدد کر رہی ہیں۔ صحافی حضرات لمحہ بہ لمحہ صورت حال دنیا کے سامنے لا رہے ہیں تاکہ قوم جاگے اور اپنے بھائیوں کی مدد کرے۔ یہ تمام جذبے یقینا قابلِ قدر ہیں اور قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس نیک عمل کا اجر عطا فرمائے۔
مگر جیسا کہ پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں، اسی طرح اس سانحے میں ایک اور تلخ حقیقت نے سراٹھایا ہے۔ کچھ ملاح حضرات، جو کشتیوں کے مالک ہیں، سیلاب میں گھرے عوام کی مجبوری کو کاروبار بنا بیٹھے ہیں۔ سرکاری کشتیاں چھوٹی ہیں اور صرف جانیں بچانے کی صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن بھاری سامان یا مویشی منتقل کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ ایسے میں پرائیویٹ کشتی بانوں نے لوٹ مار شروع کر دی ہے۔ خبر ملی ہے کہ اٹاری مرکز منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑا کے فلڈ ریلیف کیمپ تک سامان اور مویشی پہنچانے کے لیے ایک پھیرے کا پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کرایہ لیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ بتا رہے ہیں کہ پانچ بھینسوں کے بدلے ایک بھینس نذرانے کے طور پر دینی پڑی ہے۔ ٹریکٹر کی منتقلی کے لیے ایک لاکھ روپے تک مانگے جا رہے ہیں۔ یہ استحصال نہیں تو اور کیا ہے؟
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق سیلاب سے تباہ حال عوام کو یہ لالچی کشتی بان کھلے عام لوٹ رہے ہیں۔ وہ لوگ جن کی زندگی پہلے ہی اجڑ چکی ہے، اب اپنی بچی کھچی متاع بچانے کیلئے بھی ان ظالموں کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ یہ صورتِ حال حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور کور کمانڈر لاہور سے یہ مطالبہ ہے کہ فی الفور اٹاری کے مقام پر بڑے بیڑے فراہم کیے جائیں تاکہ عوام مزید استحصال سے بچ سکیں۔ حکومت کا اصل کام صرف فوٹو سیشن نہیں بلکہ عملی اقدامات ہیں۔ سیلاب زدگان کی املاک، مویشیوں اور گھریلو سازوسامان کی منتقلی سرکاری طور پر یقینی بنائی جائے۔ صرف اٹاری ہی نہیں، پورے دریائی پٹی میں یہی صورت حال ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ ہوئے تو عوام کی مشکلات ناقابلِ تلافی ہو جائیں گی۔
مزید یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں عارضی رہائش گاہیں (shelters) قائم کرے۔ اسکول، کالج اور کمیونٹی ہال فوری طور پر کیمپوں میں بدل کر متاثرہ لوگوں کو چھت فراہم کی جا سکتی ہے۔ ان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست، صاف پانی، طبی سہولتیں اور بچوں کے لیے تعلیم کا عارضی انتظام ہونا لازمی ہے۔ خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے لیے علیحدہ کیمپ بنائے جائیں تاکہ وہ کسی بھی قسم کے استحصال سے محفوظ رہ سکیں۔
این جی اوز اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ صرف امدادی سامان بانٹنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ سیلاب زدگان کے روزگار کی بحالی پر بھی توجہ دیں۔ چھوٹے قرضے، بیج اور کھاد فراہم کر کے کسانوں کو دوبارہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ مویشی پالنے والے خاندانوں کو مفت یا کم قیمت پر جانور دیے جائیں تاکہ ان کی معاشی حالت بہتر ہو سکے۔
ایک اور اہم پہلو مستقبل کی منصوبہ بندی ہے۔ ہر سال سیلاب آتا ہے، لیکن ہمارے پاس ابھی تک کوئی پائیدار حکمتِ عملی نہیں۔ دریاؤں کے کناروں پر مضبوط حفاظتی پشتے تعمیر کرنے، جدید واٹر مینجمنٹ سسٹم بنانے اور ڈیمز یا چھوٹے ذخائر قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ندی نالوں کی صفائی اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنائے بغیر ہم بار بار انہی مصیبتوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ نیدرلینڈز اور چین جیسے ممالک نے جدید ٹیکنالوجی سے پانی کو قابو میں کر کے اپنی زمینوں کو محفوظ بنا لیا ہے، ہمیں بھی ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ سیلاب صرف ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی رویوں کا بھی امتحان ہے۔ اگر ہم سب مل کر ہمدردی، ایثار اور خدمت کا مظاہرہ کریں تو متاثرہ خاندانوں کے زخم بھر سکتے ہیں لیکن اگر استحصال، نااہلی اور لاپروائی جاری رہی تو یہ زخم اور گہرے ہو جائیں گے، لہٰذا ضروری ہے کہ حکومت، فوج، سول سوسائٹی، صحافی، این جی اوز اور ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھے۔ صرف تصویریں کھنچوانے یا بیانات دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ عملی اقدامات، فوری ریلیف اور طویل المدتی منصوبہ بندی ہی اس بحران سے نکلنے کا راستہ ہے۔ یہ وقت آزمائش کا ہے، اور اس آزمائش میں سرخرو وہی ہوں گے جو انسانیت کے لیے کھڑے ہوں گے۔