آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل صحرائے مکہ کی ریت پر بسنے والا معاشرہ جاہلیت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا اور قبائلی غرور و تعصب میں بٹا ہوا ایک معاشرہ تھا۔ انہی دنوں ایک باوقار اور بردبار شخصیت نے جبلِ صفا پر چڑھ کر ایک ایسی پکار بلند کی جو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گئی: ”یا صباحاہ!”
یہ وہ نعرہ تھا جو اہلِ عرب جنگ یا بڑے خطرے کی خبر دینے کے لیے لگاتے تھے۔ قریش چونک گئے، قریب والے دوڑے آئے اور دور والوں کو خبر دی گئی کہ کچھ اہم ہونے والا ہے۔ لوگ جمع ہونے لگے اور سب کی نظریں اس شخص پر جمی تھیں جسے وہ ”صادق” اور ”امین” کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ پکار دراصل ایک نئی صبح کی نوید تھی۔ وہ دن تاریخِ انسانیت کا سنگِ میل تھا، جب کعبہ کے متولیوں، تجارت کے رہنماؤں اور قبیلوں کے سرداروں کے سامنے پہلی بار توحید کا پیغام پہنچنے والا تھا۔ یہ اعلان محض الفاظ نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر انقلاب کی بنیاد تھا جس نے ظلم، ناانصافی، اور طبقاتی تفریق میں جکڑے معاشرے کو انصاف، برابری اور انسان دوستی کے نئے اصول عطا کرنے تھے۔ عربوں کے لیے یہ نعرہ خطرے کی گھنٹی ضرور تھا مگر دراصل یہ پوری دنیا کے لیے رحمت اور امن کی صدا ثابت ہوا۔
جب سب اکٹھے ہو گئے تو اس عظیم ہستی نے نہایت ہی متانت سے سب کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:”اگر میں تمہیں خبر کر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے، تو کیا تم یقین کرو گے؟” بیک زبان سب نے کہا: ہاں، ہم نے تمہیں ہمیشہ سچا پایا ہے۔
پھر اس مبارک زبان سے وہ الفاظ ادا ہوئے جو قیامت تک انسانیت کے لیے ہدایت کا مینار رہیں گے: ”میں تمہیں سخت عذاب سے پہلے خبردار کر رہا ہوں، اپنے آپ کو آگ سے بچا لو!”
یہ کوئی معمولی پیغام نہ تھا، بلکہ ایک انقلاب کا آغاز تھا۔ وہ سب کو بلا رہے تھے۔ عام قبیلے بھی اور قریبی رشتہ دار بھی۔ یہاں تک کہ فرمایا:
”اے عباس! اے صفیہ! اے فاطمہ! میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، لیکن میں اللہ کے حضور تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ ”
اس جملے میں توحید کی معراج تھی، انسان کو یہ پیغام دیا گیا کہ نہ نسب، نہ قرابت اور نہ دولت نجات کا ذریعہ بن سکتی ہے؛ اصل نجات ایمان اور عملِ صالح میں ہے۔
لیکن اس اعلانِ حق کے فوراً بعد فضا میں ایک تلخ صدا گونجی: ”تبالک اَلِہذا جمعتنا؟”
یہ اس کے چچا ابو لہب کی زبان سے نکلا اور پھر سورة المسد نازل ہوئی جس میں بددعا کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی ہلاکت اور بربادی کی خبر بھی دے دی۔
آج جب ہم ربیع الاول کے مہینے میں اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اور ان کی بعثت کو یاد کرتے ہیں، تو یہ واقعہ ہمیں ایک گہرا پیغام دیتا ہے کہ دعوتِ حق کبھی آسان نہیں ہوتی، لیکن صداقت اور استقامت آخرکار کامیابی کے تاج پہناتی ہے۔ جبلِ صفا پر وہ تنہا کھڑے تھے، نہ کوئی لشکر، نہ دولت، نہ طاقتور ساتھی۔ لیکن آپ کے دل میں ایک کامل یقین اور ایک مضبوط ایمان تھا کہ حق غالب ہو کر رہے گا۔ اور آج دنیا کی ہر مسجد میں ان کا نام گونج رہا ہے، ہر خطے میں ان پر درود بھیجا جا رہا ہے، اور کروڑوں دل ان کی محبت میں دھڑک رہے ہیں۔
ربیع الاول کے ایام ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم واقعی اس عظیم پیغام کے وارث ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا تھا؟ کیا ہم اپنے کردار میں سچائی اور امانت کو جگہ دے چکے ہیں؟ کیا ہم عدل، مساوات اور خیر خواہی کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے ہیں؟ کیا ہم ایک ایسی امت بن چکے ہیں جو ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے اور کمزور کا سہارا بنتی ہے؟ بدقسمتی سے ہمارا حال اس کے برعکس ہے۔ ہم فرقوں، گروہوں اور مفادات میں بٹ گئے ہیں۔ جہاں ہمیں دنیا کے سامنے خیر و عدل کی تصویر بننا تھا، وہاں ہم خود ظلم و فساد کا شکار ہیں۔
جبلِ صفا کا منظر ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ ایک تنہا شخص بھی اگر سچائی اور یقین کے ساتھ کھڑا ہو جائے تو وہ تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کس طرح انہوں نے صبر، حکمت اور استقامت کے ذریعے ایک ایسی امت کھڑی کی جو علم، تہذیب اور عدل کی علمبردار بنی۔ وہ امت جو ایک وقت میں دنیا کی رہنمائی کر رہی تھی، آج انتشار کا شکار کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ ہم نے آپ کی اصل تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ ہم نے سنت کو محض رسومات میں قید کر دیا اور اس کے عملی پہلو کو بھلا دیا جو معاشروں کو روشن کرتا ہے۔
ربیع الاول ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صرف نعروں اور میلاد کے جلوسوں سے ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اس وقت ثابت ہوتی ہے جب ہم سچائی کو اپنا شعار بنا لیں، ظلم اور ناانصافی کے خلاف ڈٹ جائیں، اپنے کردار سے لوگوں کو دین کی خوبصورتی دکھائیں اور علم، اخلاق اور خدمت کے ذریعے معاشرے میں روشنی پھیلائیں۔
جبلِ صفا سے اٹھنے والی وہ صدا آج بھی سنائی دیتی ہے: اپنے آپ کو آگ سے بچا لو۔ یہ پیغام صرف قریش کے لیے نہ تھا، بلکہ قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لیے تھا۔ آج ربیع الاول میں ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ اپنی زندگیوں میں اتاریں گے۔ ہم اس عظیم امانت کو آگے بڑھائیں گے جو ایک تنہا شخص نے اپنے رب کے بھروسے پر پوری انسانیت تک پہنچائی۔ اگر ہم نے یہ کر لیا تو دنیا ایک بار پھر دیکھے گی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ظلمتوں کو چیر کر روشنی کا مینار بن سکتی ہے۔ وہ روشنی جو دلوں کو منور کرتی ہے اور دنیا کو امن، عدل اور بھائی چارے کا گہوارہ بناتی ہے۔
اے اللہ! ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت عطا فرما، ان کی سیرت کو ہماری زندگیوں کا حصہ بنا، اور ہمیں اس لائق بنا کہ ہم اس دین کے نمائندے بن سکیں جسے تیرے محبوب نے ہم تک پہنچایا، آمین۔