دریائے روا روی رواں ہے!

والد مرحوم نے سمن آباد موڑ لاہور پر گھر بنایا تو گلشن راوی آباد ہونے میں ابھی پچیس تیس سال تھے۔ بند اور بند روڈ بھی بہت بعد میں بنی۔ ہمارے گھروں سے آگے صر ف کھیت تھے۔ گھروں کے سامنے سے کچی سڑکیں اور پگڈنڈیاں ان کھیتوں اور گائوں کی طرف جاتی تھیں۔ ہمارے گھر کے اوپر ایک ممٹی تھی جسے ہم برساتی کہتے تھے۔ ایک دن برساتی کی چھت پر کھڑے ہوکر والد مرحوم نے دور ایک نقرئی لکیر کی طرف اشارہ کیا۔ ”جانتے ہو بچو! یہ کیا ہے؟ یہ دریائے راوی ہے۔ بہت تاریخی دریا ہے۔ اس اتوار کو ہم اس کے کنارے چلیں گے!” راوی میرے لیے اس وقت بس ایک چاندی کی لکیر تھی جو سمن آباد موڑ سے صاف دکھائی دیتی تھی’ اس لیے کہ نہ درمیان میں کوئی عمارتیں تھیں’ نہ فضا اتنی آلودہ ہوا کرتی تھی۔ بہت بعد میں احمد مشتاق کا شعر پڑھا:
کیسے نفیس تھے مکاں’ صاف تھا کیسا آسماں
میں نے کہا کہ وہ سماں’ آج کہاں سے لائیے

مجھے لگا کہ یہ شعر انہوں نے اسی منظرکیلئے کہا ہو گا۔ ان دنوں لاہوری پکنک کیلئے راوی کنارے جایا کرتے تھے۔ راوی شاہی قلعے کے پاس اقبال پارک میں اپنی ایک یادگار ‘بڈھا راوی’ کے نام سے چھوڑ کر کئی میل دور جا چکا تھا۔ موجودہ گریٹر اقبال پارک میں اب یہ تالاب بھی ختم ہو چکا۔ اس وقت راوی کنارے پکنک ہوتی بھی کیا تھی؟ پل کے قریب بنے پشتے سے اتر کر دریا کنارے جا بیٹھنا’ جہاں بیٹھنے کی کوئی مناسب جگہ ہی نہیں تھی۔ قریب سے پکوڑے لے لیے’ چائے پی لی اور کشتی کی سیر کر لی۔ بس یہی پکنک تھی۔ راوی اس وقت بھرا ہوا چلتا تھا اور برسات میں تو نہایت خطرناک ہو جاتا تھا۔ اس کے ناکو’ یعنی مگرمچھ بھی مشہور تھے اور راوی کی کھگہ مچھلی بھی۔ لاہور میں زیادہ کھگہ مچھلی ہی کھائی جاتی تھی اور مچھلی بیچنے والے گلیوں میں ”راوی دے کھگے” کی آوازیں لگاتے پھرتے تھے۔ کالج میں گئے تو کبھی کبھار کئی دوست مل کر راوی جاتے تھے۔ ایک خوش گلو دوست کشتی چلانا بھی جانتا تھا، چنانچہ کشتی کرائے پر لے کر دریا کے بیچ کامران کی باردہ دری تک جاتے۔ بارہ دری اس وقت بھی اجاڑ پڑی رہتی تھی۔ خال خال ہی کوئی ادھر جاتا تھا اور سانپ سرسراتے تھے۔ وہاں بیٹھتے خوف آتا تھا لیکن جو کچھ بھی تھا’ فطری تھا۔ اس میں نہ کاروباری پن تھا’ نہ ہلڑ بازیاں اور نہ غل غپاڑا۔

پھر کمرشل ازم’ ہلڑ بازیوں اور غل غپاڑوں کا دور شروع ہوا۔ یہ بڑھنے اور راوی سوکھنا شروع ہوا۔ راوی مٹیالا اور گدلا تو ہمیشہ سے تھا کیونکہ سینکڑوں میل سے مٹی بہا کر ساتھ لاتا تھا لیکن بہرحال گندا نہیں تھا۔ اب اس میں گند بھی پڑنا شروع ہوا۔ نالے اور سیوریج اس میں شامل ہوتے گئے۔ ناکو’ کھگے معدوم ہوتے اور راوی مرتا چلا گیا۔ یہاں سکون کی تلاش میں آنے والے بھی ناپید ہو گئے۔ کان پھاڑ دینے والے گانوں اور کیچڑ کے بیچوں بیچ ایک نالا نما بند رَو کو دیکھنے کون جاتا اور کیوں جاتا۔ ہمیشہ کیلئے طے ہو گیا کہ اب راوی کنارے نہیں جایا جا سکتا۔ ایک کسک اور خلش ضرور رہی کہ دریا کنارے رہتے ہیں اور دریا کنارے جانے کو ترستے ہیں۔ راوی کی جھلک اسلام آباد آتے جاتے بہرحال دیکھنے کو مل جاتی تھی اور لہریا لیتا چھوٹا سا راوی’ اس پر یہاں وہاں ٹاپو اور ان پر چرتی بھینسیں’ ایک پل کیلئے شاداب ضرور کر دیتے تھے۔ لڑکپن کے بعد سے ہمیشہ یہ حسرت رہی راوی کو ایک بار پھر بھرا ہوا چلتا دیکھیں لیکن یہ حسرت ہماری اور عام لاہوریوں کی تھی۔ راوی کا سوکھنا اور اپنا پاٹ چوڑائی میں کم سے کم کرتے جانا ہر زمین کو لالچی نظروں سے دیکھنے والوں کو نیا موقع دکھائی دیتا تھا۔

سندھ طاس معاہدے میں راوی’ بیاس اور ستلج بھارت کے حصے میں آئے تھے۔ یہ معاہدہ لینڈ مافیاز کیلئے ہائوسنگ اسکیموں کی بین الاقوامی منظوری تھی۔ دریا کی خشک گزر گاہیں انہیں نئے منصوبے سجھانے لگیں۔ خشک ہوتا راوی انہیں لاکھوں ایکڑ کی اسامی محسوس ہونے لگا لیکن یہ جو کنارے کے گائوں لمبائی میں صدیوں سے آباد ہیں’ وہ؟ ان لاکھوں ایکڑوں میں تو وہ زمینیں بھی شامل ہیں جو دریا کے بستر پر نہیں’ اس کے کنارے ہیں۔ یہ زرعی زمینیں جو لاہور کو تازہ سبزیاں’ پھل اور اناج مہیا کرتی تھیں’ لینڈ مافیا کو بے فائدہ دکھائی دیتی تھیں۔ کھلی فضا میں چرنے والے جانور’ ہرے کھیت’ اگتی فصلیں اور گھنے درخت انہیں زہر لگتے تھے۔ لالچیوں کے بھی مسئلے تھے۔ زمین بڑی تھی اور متاثرین زیادہ۔ قانونی طاقت چاہیے تھی۔ مرضی کے قوانین چاہیے تھے جو اَن پڑھ لوگوں کو اونے پونے پیسے دے کر کہہ سکیں کہ جائو! اب یہ زمینیں ہماری ہیں۔ اپنے ڈھور ڈنگروں سمیت نکل جائو۔ ڈویلپرز کو تو لوگوں کو ان جوہڑوں’ تالابوں اور کچی پگڈنڈیوں سے بھری زمین کی بجائے وہ خوش نما منظر دکھانے تھے جس میں لوگ لہراتے دریا کنارے ایک سبز باغ میں اپنے بچوں کے ساتھ کنارے پر جوگنگ کر رہے ہیں۔ ٹائل لگی سڑکوں پر ٹہل رہے ہیں’ آئس کریم کھا رہے اور کافی پی رہے ہیں۔ کچھ ہی فاصلے پر ان کا کروڑوں روپے کا جدید مکان دکھائی دے رہا ہے۔ سہانے خواب ہر ایک کے سر چڑھتے ہیں’ اور بے گھر کو تو نشے کی طرح چڑھتے ہیں۔

سبھی نہ سہی’ کچھ لوگ سنجیدگی سے ایک اچھے اور نئے لاہور کی بنیاد بھی ڈالنا چاہتے ہوں گے۔ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (RUDA)کا قیام ہوا تو مجھ جیسے لوگوں کو یہ امید ہونے لگی کہ شاید وہ گندا نالا دوبارہ دریا میں بدل سکے جسے ہم راوی کہتے ہیں۔ منصوبے کی تفصیل خوش کن تھی۔ لاہور کو ایک نئے دریا کی خوشخبری دی گئی جس میں صاف پانی بہتا ہو گا’ بیراج ہوں گے’ پانی کی صفائی کا نظام ہو گا’ جنگل ہوں گے’ پارک ہوں گے اور ہم تم ہوں گے لیکن بہت سے لوگ اس منصوبے کے پیچھے زمینیں ہتھیانے کے ایک نئے منصوبے کو بھی دیکھتے تھے۔ نامور صحافی اور معاصر کالم نگار رئوف کلاسرا بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس معاملے کی شفافیت پر سوال اٹھانا شروع کیے۔ اصولاً روڈا کو شفافیت کا خیال رکھنا چاہیے تھا اور زمینوں کے مالکان کا بھی’ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ زمینوں پر قبضہ شروع کیا گیا’ نہ ماننے والوں پر پولیس ایکشن ہوئے’ دہشت گردی کے پرچے درج ہوئے۔ مجھے وہ وڈیوز یاد ہیں جن میں کمزور دیہاتی اور کسان غم وغصے میں بتا رہے تھے کہ حکومت ان کے ساتھ کر کیا رہی ہے۔ سادہ سا سوال ہے کہ اگر حکومت ان زمینوں سے اربوں کمانا چاہتی ہے’ ڈویلپرز ٹھیک ٹھاک کمانا چاہتے ہیں تو زمینوں کے اصل مالکوں کو یہ فائدہ کیوں نہیں مل پاتا۔ معلوم ہوا کہ زمینوں کی سرکاری قیمت اتنی کم ہے کہ ڈویلپرز اور حکومت کو فائدہ ہی فائدہ ہے’ نقصان کا سوال ہی نہیں۔ حکومت نے اپنی ہائوسنگ اسکیمیں شروع کیں اور دس ڈویلپرز کو بھی زمینیں سونپ دی گئیں۔ اتنے ہزار ایکڑ تمہارے’ اتنے میرے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے راوی کی مجوزہ بہتری ہوتی’ پھر زمینیں آباد ہوتیں لیکن ابھی راوی پر کام شروع نہیں ہوا تھا’ ابھی بیراج نہیں بنے تھے’ ابھی سیوریج ختم نہیں ہوئے تھے’ ابھی صفائی کا نظام نہیں بنا تھا کہ بلڈوزر چلنے لگے’ سڑکیں بننے لگیں’ پلاٹ بیچے جانے لگے’ دریا کی رہگزر پر عمارتیں سر اٹھانے لگیں۔ لوگ دریا کے بستر (ریور بیڈ) پر چین کی نیند سونے لگے۔

سب ہو گیا’ کام شروع ہو گیا’ ہر چیز منصوبے کے مطابق ہورہی تھی۔ حکومت ہو یا بلڈرز’ دریا کو بھولنے والے دھڑا دھڑ دریا کا نام بیچ رہے تھے۔ متاثرین کو بھی قابو کر لیا گیا تھا لیکن ایک بڑا متاثر دریا خود بھی تھا۔ سب کی رضامندی میں دریا کی رضامندی تو لی ہی نہیں گئی تھی۔ دریا نہ اپنے راستے بھولتا ہے’ نہ اپنی زمینیں’ نہ اپنا بستر۔ دریا پر پولیس ایکشن نہیں چلتا۔ راوی نے آکر کہا کہ نہ تمہارا این او سی مانتا ہوں نہ تمہار ے مقدموں سے ڈرتا ہوں’ میری زمینیں واپس کرو۔ راوی اپنی زمینیں لینے پہنچا اور قبضہ چھڑا کر نئے مالکوں کو بے دخل کر دیا۔ اب میں پانی سے گھرے مکانوں کی وڈیوز اور تصویریں دیکھتا ہوں اور یہ شعر یاد کرتا ہوں:
یہ شہر بلندیوں سے دیکھو
دریائے روا روی رواں ہے!