ایس سی او کا اجلاس، چینی صدر کا نیا ورلڈ آرڈر

کیمروں کی چمک میں جاری ایس سی او کا دو روزہ اجلاس چین کے شہر تیانجن میں اختتام پذیر ہوگیا، چینی صدر کی میزبانی میں جاری اجلاس میں روسی صدر ولادی میر پوٹن سمیت پاکستانی ویراعظم شہباز شریف کے علاوہ ترکی، ایران، قازقستان، کرغزستان، ازبکستان، تاجکستان، آذربائیجان بیلاروس کے صدور کے علاوہ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری سمیت کئی عالمی رہنما موجود تھے، ایسا باور کرایا جا رہا تھا کہ بس اب دنیا بدل رہی ہے، امریکی بالادستی کا خاتمہ قریب ہے، دو روزہ کانفرنس پر پوری دنیا کی نظر تھی، اگرچہ کئی اہم باتوں پر مختلف ممالک کے صدور نے بات کی اور تجاویز پیش کیں، اور متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جسے چینی صدر کی جانب سے نئے ورلڈ آرڈر کے اجرا سے تعبیرکیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا میں امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کا نقطہ آغاز ہے لیکن خدا لگتی بات یہ ہے کہ امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کے لیے ابھی چین اور روس جیسے ممالک کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ تاحال امریکا کی سپرمیسی برقرار ہے، کب تک رہے گی، کہنا قبل ازوقت ہے لیکن اس وقت دیگر عالمی طاقتیں حقیقت کا سامنا کرنے سے کترا رہی ہیں۔

ایس سی او کے اعلامیے میں رکن ممالک کے رہنماؤں نے سربراہ اجلاس کے دوران سکیورٹی، معیشت، ثقافتی تبادلوں اور ادارہ جاتی تعمیر سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے سے متعلق 24اہم دستاویزات کی منظوری دی۔ اعلامیے میں دہشت گردی سمیت علاقائی تعاون کے فرو غ سمیت کئی مسائل پر بات شامل ہے، اعلامیے میں فلسطین اور غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی گی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ پائیدار جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک انسانی امدادکی رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسرا مطالبہ افغانستان میں جامع حکومت بنانے کا کہا گیا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم سن 2001میں قائم کی گئی تھی جس کے پاکستان، بھارت، ایران، قازقستان، چین، کرغزستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان اراکین ہیں۔ بیلاروس بھی جولائی سن دو ہزار چوبیس میں تنظیم کا رکن بن چکا ہے جبکہ مبصر ملکون مین افغانستان اور منگولیا شامل ہیں۔ اسی طرح ڈائیلاگ پارٹنرز میں آذربائیجان، آرمینیا، بحرین، مصر، کمبوڈیا، قطر، کویت، مالدیپ، میانمار، نیپال، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ترکی اور سری لنکا شامل ہیں۔

ایس سی او کے ممبران کوروس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اہم تجویز دی کہ شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے 10رکن ممالک کو مشترکہ بانڈز فروخت کرنے چاہئیں، جو ان کے اقتصادی تعاون کو نمایاں طور پر گہرا کرنے کا ایک اہم قدم ہوگا۔ چین میں گروپ کی ایک سربراہی کانفرنس میں پیوٹن نے تجارتی ادائیگیوں کے تصفیے کے لیے مشترکہ ادائیگی کے نظام کے قیام کا خیال بھی پیش کیا۔ 2001میں قائم ہونے والی SCO، شنگھائی فائیو کی جانشین تنظیم ہے، جو 1996میں چین، روس، قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان پر مشتمل ایک گروپ تھا۔ اب اس میں بھارت، پاکستان، ایران، بیلاروس اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔ پیوٹن نے چین کے شمالی بندرگاہی شہر تیانجن میں SCOکے سربراہان مملکت سے کہا ”ہم رکن ممالک کے مشترکہ بانڈز کے اجراء کی وکالت کرتے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ وہ ”اپنے ادائیگی، تصفیہ اور ڈپازٹری ڈھانچے کے قیام” اور ”مشترکہ سرمایہ کاری منصوبوں کے لیے ایک بینک کے قیام” کی حمایت کرتے ہیں۔

صدر پیوٹن نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب کی جانب سے یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی مستقل کوششیں یوکرینی تنازع کی اہم وجوہات میں سے ایک ہیں، جو روس کی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ بنتی ہیں۔ صدر پیوٹن نے دعوی کیا کہ موجودہ بحران کی بنیاد 2014میں یوکرین میں ہونے والی بغاوت ہے جو ان کے بقول مغرب کی پشت پناہی سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ بغاوت کے بعد اس سیاسی قیادت کو ہٹا دیا گیا جو یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی مخالف تھی۔

اجلاس کے سائیڈ لائن پر پاکستان سمیت تمام ممالک کے سربراہان نے ملاقاتیں کی ہیں، پاکستان نے آرمینیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کرلیے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا ایس سی او اور برکس گلوبل ساوتھ کو مضبوط کرسکتے ہیں، روس کو یوکرین کی فکر ہے، ایران کو اپنے جوہری پروگرام کی، پاکستان سیلاب سمیت کئی مسائل سے دو چار ہے، بھارت کو امریکی ٹیرف کے مسئلہ ہے، یہ سب امریکا کے ڈسے ہوئے ہیں، مگر بلی کے گلے میں گھنٹی بندھنے کے کوئی تیار نہیں۔ چین روس کو بہت سے اقدامات کرنے ہوں گے، اگر دنیا کو کثیرالقطبی بنانا ہے، اگر چین واقعی نیو ورلڈ آرڈر لانا ہے، تو تجارت کے ساتھ ساتھ دنیا کے امن میں بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ امریکی بالادستی جاری ہے، اور ایس سی او اور برکس میں موجود امریکی اتحادی ان تنظیموں کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہیںگے۔