اسرائیل میں مظاہرے،نیتن یاہو کے گھر پر حملہ،ریزرو اہلکاروں کا ڈیوٹی سے انکار

مقبوضہ بیت المقدس/تل ابیب/ریاض/پیرس:اسرائیل کے خود ساختہ دارالحکومت یروشلم میں وزیرِاعظم نیتن یاہو کی جارحانہ پالیسیوں اور یرغمالیوں کی رہائی پر ناکامی کے خلاف پْرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مظاہرے وسعت اور شدت پکڑتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ نیتن یاہو کی رہائش گاہ بھی محفوظ نہیں رہی۔

عوام کی بڑی تعداد نے بدھ کو اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب شدید احتجاج کیا جس کے دوران وہاں ایک ٹینک کو بھی آگ لگادی گئی۔ٹینک میں لگی آگ اتنی خوفناک تھی کہ اس نے ساتھ کھڑی اسرائیلی فوجی اہلکار کی ایک کار کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

ٹینک اور گاڑی دونوں جل کر خاکستر ہوگئے۔متاثرہ گاڑی کے مالک اسرائیلی فوجی اہلکار نے بتایا کہ غزہ میں جنگ کے دوران مسلسل خدمات انجام دے چکا ہوں اور یرغمالیوں کے خاندانوں کے ساتھ ہوں لیکن یہ آگ عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا رہی ہے۔

اس عوامی مظاہرے کے باعث اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قرب و جوار میں رہنے والے رہائشیوں کو اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔مظاہرین نے کچرے کے ڈبوں اور ٹائروں کو بھی آگ لگا دی جس سے آگ قریبی گھروں اور گاڑیوں تک پھیل گئی ۔

ادھر اسرائیلی پولیس نے اس احتجاج کو”جرم اور دہشت گردی” قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدامات کسی بھی پرامن مظاہرے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔وزیرِانصاف یاریو لیوِن اور انتہاپسند وزیرِقومی سلامتی ایتمار بن گویر نے مظاہرین کو ”آتش زن دہشت گرد” قرار دیتے ہوئے طاقت کے استعمال کا حکم دیا۔

اسی دوران حکومت نے حسبِ روایت اپنے اندرونی اختلافات کا ذمہ دار اٹارنی جنرل گالی بہاراومیارا اور اعلیٰ عدالت کو ٹھہرانا شروع کر دیا۔دوسری جانب حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے بھی گاڑیوں کو آگ لگانے کی مذمت کی لیکن ساتھ ہی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اصل جرم یہ ہے کہ حکومت نے غزہ میں قید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہونے دیا۔

اپوزیشن رہنمائوں یائیر لپیڈ اور بینی گینتز نے کہا کہ پْرامن احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے لیکن تشدد سے جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور حکومت مخالف تحریک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نیتن یاہو کی انتہاپسند پالیسیوں نے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ اسرائیلی معاشرے کو بھی شدید نقصان پہنچایاہے۔

ادھراسرائیل کے ریزرو فوجیوں نے غزہ میں نیتن یاہو کی جنگ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ڈیوٹی پر آنے سے انکار کر دیا۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق سیکڑوں اسرائیلی ریزرو فوجیوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر انہیں غزہ سٹی پر قبضے کی کارروائی کے لیے طلب کیا گیا تو وہ ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوں گے۔

ریزرو فوجیوں نے تل ابیب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نیتن یاہو کی غیرقانونی جنگ میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم 365 سے زائد فوجی ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے، جنہوں نے جنگ کے دوران خدمات انجام دیں لیکن اب اعلان کرتے ہیں کہ دوبارہ بلائے جانے پر ہم ڈیوٹی پر رپورٹ نہیں کریں گے۔

ریزرو فوجیوں کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو کی اس جنگ میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں اور اسے اپنا محب وطن فریضہ سمجھتے ہیں کہ ہم انکار کریں اور اپنے رہنمائوں سے جواب طلب کریں۔ریزرو فوجیوں نے مزید کہا کہ غزہ پر قبضے کا فیصلہ یرغمالیوں، فوجیوں اور شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالے گا۔

یہ فیصلہ ایک ایسی جنونی حکومت نے کیا ہے جس کی عوام میں کوئی حقیقی حیثیت نہیں اور جو صرف اپنی سیاسی بقا کے لیے کوشاں ہے۔دریں اثناء قابض اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ اس کی فورسز شدید کمزوری اور تھکن کا شکار ہیں اور میدان جنگ میں استعمال ہونے والی بھاری مشینری خاص طور پر بلڈوزروں کی تعداد نصف رہ گئی ہے۔

یہ اعتراف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب قابض اسرائیلی فوج نے غزہ شہر پر قبضے کی تیاریوں کے لیے ”عربات جدعون 2” نامی نئی جارحانہ کارروائی کا منصوبہ بنایا ہے۔قابض فوج نے اس بات کا انکشاف کرنے سے انکار کیا کہ 60 ہزار ریزرو فوجیوں کے طلب نامے جاری ہونے کے بعد کتنے فوجی اپنی یونٹوں میں شامل ہوئے ہیں۔

اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق فوج نے بدھ کو واضح کیا کہ اس کی صفوں میں ”انتہائی تھکن” پائی جاتی ہے اور اسلحہ و جنگی وسائل کی تیاری میں بھی بڑی کمی واقع ہو چکی ہے۔فوجی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بری فوج کے افسران کو ریزرو فوجیوں کے طلب نامے منظم کرنے کے سلسلے میں وسیع اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ وہ فوجیوں کے ذاتی حالات کو مدنظر رکھ سکیں۔

ان کمانڈروں کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ فوجیوں کی چند دنوں کی جزوی سروس کو مکمل سروس شمار کر کے انہیں تنخواہیں دی جائیں۔قابض فوج کے مطابق جنگ کے آغاز میں اس کے پاس 200 بلڈوزر تھے جو مسلسل حملوں اور ناکارہ ہونے کے باعث نصف رہ گئے ہیں۔

گذشتہ چند ماہ میں فوج نے 165 نئے بلڈوزر خریدنے کا معاہدہ کیا مگر اب تک صرف 65 پہنچے ہیں وہ بھی اکتوبر سے پہلے استعمال میں نہیں لائے جا سکیں گے کیونکہ انہیں فول پروف بنانے اور تیاری کی جارحانہ کارروائیاں باقی ہیں۔

اسی دوران قابض فوجی ریڈیو نے کہا کہ فوجی قوت اور مشینری میں اس”بڑے پیمانے پر کمی” کا تعلق امریکا کی جانب سے پہلے عائد کردہ پابندیوں سے بھی ہے۔ تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے بعد نئی کھیپ کی فراہمی کی اجازت دے دی گئی۔

قابض فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ لاکھوں چھوٹے ڈرون خرید رہی ہے جنہیں تمام یونٹوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ ان میں خودکش ڈرون بھی شامل ہوں گے جو دو کلوگرام بارودی مواد اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فوج نے انہیں جنگ کی ”اہم ترین پیش رفت” قرار دیا ہے۔

اس کے ساتھ فوج رات میں دیکھنے کے آلات، ہزاروں ہیلمٹ، اسلحہ، بکتر بند جیکٹس اور ایک ہزار سے زائد ہمر گاڑیاں بھی خرید رہی ہے۔علاوہ ازیں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز اور اسلامی جہاد کے عسکری ونگ ”سرایا القدس” نے مل کر قابض اسرائیلی فوج اور اس کی جنگی گاڑیوں کو غزہ شہر میں مختلف ہتھیاروں سے نشانہ بنایا ہے۔

القسام نے بتایا کہ اس کے مجاہدین نے غزہ کے الزیتون محلے کے جنوب میں حاج فضل کے مقام پر قابض فوجیوں اور ان کی گاڑیوں کے ایک کیمپ کو نشانہ بنایا۔اس کے علاوہ قابض اسرائیل کی ایک ڈی9 قسم کے فوجی بلڈوزر کو مسجد صلاح الدین کے اطراف، الزیتون محلے میں ہی، یاسین 105 راکٹ سے تباہ کیا گیا۔

دوسری جانب سرایا القدس نے القسام بریگیڈز کے ساتھ مشترکہ کارروائی کی ویڈیو جاری کی جس میں قابض اسرائیلی بکتر بند گاڑی کو کورنیٹ گولے سے مشرقی غزہ میں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔

غزہ میں سرکاری دفتر برائے اطلاعات و نشریات نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج نے گذشتہ تین ہفتوں کے دوران غزہ شہر پر وحشیانہ یلغار کر کے 1100 فلسطینیوں کو شہید کیااور رہائشی علاقوں کے درمیان 100 سے زائد بارودی روبوٹ دھماکوں سے اڑادیے۔

دفتر نے اپنے بیان میں وضاحت کی کہ 13 اگست سے قابض اسرائیل نے غزہ شہر میں ایک نئی زمینی جارحانہ کارروائی شروع کی جس میں فلسطینی خاندانوں اور گنجان آباد محلوں پر اجتماعی قتل عام کے جرائم کیے گئے۔

اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے بدھ کو انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں کم از کم 21 ہزار بچے قابض اسرائیل کی طرف سے مسلط کی گئی نسل کش جنگ کے نتیجے میں لگنے والے زخموں کے باعث مستقل معذوری کا شکار ہو چکے ہیں۔

یہ درندگی 7 اکتوبر2023ء سے جاری ہے اور آئے روز معذور ہونے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔اقوام متحدہ کی معذور افراد کے حقوق سے متعلق کمیٹی نے بتایا کہ گذشتہ دو برسوں میں تقریباً 40500 بچے جنگی حملوں سے زخمی ہوئے جن میں سے نصف سے زیادہ اب کسی نہ کسی قسم کی معذوری میں مبتلا ہیں۔

کمیٹی نے فلسطینی علاقوں کی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ وہ افراد جنہیں سماعت یا بصارت کے مسائل تھے، اکثر قابض اسرائیلی افواج کے جبری انخلاء کے احکامات سے لاعلم رہے جس کے باعث ان کا بروقت نکلنا ناممکن ہو گیا۔

کمیٹی نے کہا کہ ایسے معذور افراد کو نہایت ذلت آمیز حالات میں فرار پر مجبور کیا گیا، جیسے ریت یا کیچڑ میں رینگ کر نکلنا جیسے سنگین حالات شامل ہیں جہاں انہیں نقل و حرکت کے لیے کوئی مدد میسر نہ تھی۔

اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے حقِ مناسب رہائش بالا کریشنن راج گوپال نے مطالبہ کیا ہے کہ قابض اسرائیل کو اسلحہ کی برآمدات فوری طور پر بند کی جائیں کیونکہ یہ ہتھیار غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے ہولناک منصوبے میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔

راج گوپال نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا جو غزہ میں جاری قتل عام کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا نے فلسطینی عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور بین الاقوامی نظام بری طرح ناکام ہوا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ دونوں ہی غزہ میں نسل کشی روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے بہ قول اب یہ ذمہ داری عالمی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ محصور فلسطینی علاقے میں مزید اجتماعی قتل عام اور بربادی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران قابض اسرائیل کے مسلط کردہ قحط اور غذائی قلت کے نتیجے میں مزید 6 فلسطینی شہید ہو گئے جن میں ایک معصوم بچہ بھی شامل ہے۔ یوں غذائی قلت اور بھوک سے شہادتوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 367 ہو گئی ہے جن میں 131 بچے شامل ہیں۔

وزارت صحت نے بدھ کو اپنے مختصر بیان میں کہا کہ بین الاقوامی ادارہ برائے بھوک نگرانی (IPC) کی طرف سے غزہ میں باضابطہ طور پر قحط کے اعلان کے بعد سے اب تک 89 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں۔

ادارے کے مطابق غزہ میں پانچ لاکھ سے زائد افراد تباہ کن سطح کی بھوک اور شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ اسرائیلی جارحیت میں مزید درجنوں فلسطینی شہید ہوگئے۔ادھربدھ کی صبح صہیونی آبادکاروں کے گروہ قابض اسرائیلی فوج کی سخت حفاظت میں باب المغاربہ سے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں گھس آئے۔

ذرائع نے بتایا کہ درجنوں آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر اس کے صحنوں میں اشتعال انگیز تلمودی رسومات اور دعائیں ادا کیں، خاص طور پر مسجد کے مشرقی حصے میں۔ذرائع نے مزید بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج فلسطینی نمازیوں پر سخت پابندیاں عائد کیے ہوئے ہے۔

فوج نے ان کی شناختی دستاویزات کی باریک بینی سے جانچ کی اور کئی فلسطینیوں کے شناختی کارڈ مسجد کے بیرونی دروازوں پر ضبط کر لیے جبکہ قابض اسرائیلی فوج نے بدھ کے روز مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں وحشیانہ چھاپے اور گرفتاریوں کی کارروائیاں کیں جبکہ بیت لحم کے جنوب میں واقع بلدہ الخضر میں دو گھروں کو مسمار کردیا۔

مغربی بیت لحم کے علاقے بیت جالا سے قابض اسرائیلی فوج نے ایک شہری کو حراست میں لے لیا۔ مقامی ذرائع کے مطابق قابض فوج نے شہری روکی جبرا صلاح کو اس کے گھر پر دھاوا بول کر گرفتار کیا اور مکان کی تلاشی لی۔

ادھر جنین کے جنوب میں واقع بلدہ قباطیہ میں فجر کے وقت چھ فلسطینیوں کو گھروں پر دھاوا بول کر حراست میں لیا گیا۔ مقامی ذرائع نے بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے محمود طزازعہ، ہمام السخن، معتز زکارنہ، مجد زکارنہ، احمد حنایشہ اور زید حنایشہ کو ان کے گھروں پر حملہ کر کے گرفتار کیا۔

قابض فوج فجر کے وقت بھاری تعداد میں فوجی گاڑیوں کے ساتھ قباطیہ میں گھس آئی اور القدس چوک، الحسبہ اور مسجد عمر کے آس پاس کئی گھروں پر دھاوا بولا۔ گھروں کے مکینوں کو روک کر ان سے موقع پر ہی تفتیش کی گئی اور قابض فوج نے گلیوں میں اندھا دھند فائرنگ بھی کی۔

ادھر شہر اریحا میں قابض اسرائیلی فوج کے دھاوے کے دوران دو فلسطینی نوجوان قابض فوج کی گولیوں سے زخمی ہو گئے۔ قبل ازیںسعودی عرب کی کابینہ کا اجلاس ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کی صدارت میں ہوا جس میں سعودی عرب اور اٹلی کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان کی اہمیت پر زوردیا گیا۔

اس بیان میں مشرق وسطیٰ میں منصفانہ، محفوظ اور جامع امن کے قیام کے عزم کو دہرایا گیا اور غزہ میں فوری طور پر جنگ روکنے کی اپیل کی گئی۔ کابینہ نے ان اقدامات کی مذمت کی جو دو ریاستی حل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔کابینہ نے خطے اور دنیا کے حالات کا جائزہ لیا، بالخصوص مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی کہ سعودی عرب عالمی برادری کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے تاکہ غزہ میں انسانی المیے کو ختم کیا جا سکے اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے امدادی سامان اور انسانی ہمدردی کی امداد کو غزہ تک پہنچایا جا سکے۔

ادھرفلسطین کے نائب صدر حسین الشیخ نے سعودی عرب اور فرانس کے اس کردار کا خیرمقدم کیا ہے جو یہ دونوں ممالک بین الاقوامی حمایت کو منظم کرنے اور فلسطینی ریاست کے اعتراف کے لیے انجام دے رہے ہیں۔انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ فلسطینی وفد کو ویزے نہ دینا ناقابلِ قبول ہے اور یہ اقدام میزبان ملک کے معاہدے کے تحت بین الاقوامی ذمے داریوں کے منافی ہے۔

الشیخ نے مزید کہا کہ فلسطین کی ریاست اپنے اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ وہ سعودی عرب، فرانس اور تمام بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر 22 ستمبر کو نیویارک میں ہونے والی کانفرنس کی کامیابی کو یقینی بنائے گی۔

قابض اسرائیلی فوج نے بدھ کو اعلان کیاہے کہ یمن کی جانب سے قابض اسرائیل کی طرف ایک میزائل داغا گیا۔صہیونی چینل 12 نے تصدیق کی کہ میزائل کی موجودگی کے بعد بن گوریون ایئرپورٹ کا فضائی شعبہ بند کر دیا گیا۔

چینل کے مطابق نیویارک سے آنے والی ڈیلٹا ایئر لائن کی پرواز، جس نے گذشتہ روز ہی اپنی پروازیں دوبارہ شروع کی تھیں، ایئرپورٹ بند ہونے کی وجہ سے فضا میں ہی گردش کرتی رہی جبکہ یونان کی ” غزہ” مہم نے اعلان کیا ہے کہ ایک جہاز پیر 8 ستمبر کو بحیرہ ایجیئن کے جزیرہ سیروس سے روانہ ہوگا جو ”عالمی صمود فلوٹیلا” میں شامل ہو کر غزہ کی طرف سفر کرے گا۔

اس مہم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک پر لکھا کہ ” صمود فلوٹیلا” کا مقصد فلسطینی عوام کی آواز کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے اجاگر کرنا اور غزہ پر مسلط قابض اسرائیلی محاصرے کو توڑنا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ دو ریاستی حل کانفرنس بائیس ستمبر کو نیویارک میں ہوگی۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ وہ 22 ستمبر کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ نیویارک میں اسرائیل اور فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو فروغ دینے کے لیے ایک بین الاقوامی کانفرنس کی مشترکہ قیادت کریں گے۔

ایکس پر پوسٹ میں میکرون نے لکھا کہ ”میں نے ابھی سعودی ولی عہد سے بات کی ہے اور ہم مل کر 22 ستمبر کو نیویارک میں دو ریاستی حل کانفرنس کی مشترکا صدارت کریں گے۔

فرانسیسی صدر نے کہا کہ ہمارا مقصد دو ریاستی حل کے لیے وسیع تر بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا ہے، اس مقصد کے لیے مستقل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ میں ایک استحکام مشن کی تعیناتی ضروری ہے۔