امریکی عدالت نے گوگل کے خلاف اینٹی ٹرسٹ مقدمے میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ کمپنی کو کروم براؤزر فروخت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق کولمبیا ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج امیت مہتا نے فیصلے میں قرار دیا کہ پراسیکیوٹرز گوگل کے بنیادی اثاثوں کی جبری فروخت کے حق میں شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے، اس لیے کمپنی اپنے اہم پروڈکٹس اپنے پاس رکھ سکتی ہے۔
تاہم عدالت نے گوگل کو ہدایت کی ہے کہ وہ ڈیوائس بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ خصوصی معاہدے نہ کرے اور سرچ انجن کے حریف اداروں سے ڈیٹا شیئر کرے۔
فیصلے کے مطابق گوگل کو کروم، جیمنائی ایپ اور گوگل اسسٹنٹ جیسے پراڈکٹس کے حوالے سے بھی نئے یا پرانے معاہدے برقرار رکھنے سے روک دیا گیا ہے، البتہ کمپنی کو دیگر کمپنیوں کو ادائیگیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ مقدمہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں امریکی حکومت کی جانب سے دائر کیا گیا تھا اور گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑا اینٹی ٹرسٹ کیس قرار دیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال جج مہتا نے قرار دیا تھا کہ گوگل سرچ انڈسٹری میں اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے غیرقانونی اقدامات کرتا رہا ہے تاہم اس وقت سزا کے تعین کا فیصلہ مؤخر کردیا گیا تھا۔
عدالت کے اس حالیہ فیصلے کے بعد گوگل کو سنگین نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ کمپنی کے حصص کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا۔
دوسری جانب امریکن اکنامک لبرٹیز پراجیکٹ نے اس فیصلے کو حکومت کی “ناکامی” قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ گوگل کو آن لائن ایڈورٹائزنگ ٹیکنالوجی میں مبینہ اجارہ داری سے متعلق ایک اور بڑے مقدمے کا سامنا بھی ہے جس میں ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔