سندھ طاس معاہدہ، پاکستان کی آبی سلامتی یا سب سے بڑی غلطی؟

گزشتہ سے پیوستہ:
سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بینک کی گارنٹی کے ساتھ ہوا، اس لیے انڈیا کسی بھی وقت یک طرفہ طور پر مغربی دریاؤں پر کنٹرول نہیں کر سکتا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک انٹرنیشنل لیگل شیلڈ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا اعلان نہیں کر سکے، صرف معطل کرنے کی بات کی، اس کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عالمی عدالتوں میں جانے پر انڈیا ہی کو شکست ہوگی۔

سندھ طاس معاہدے کے نقصانات
ایمانداری کا تقاضا ہے کہ اس معاہدے کے نقصانات پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی دریاؤں سے ہاتھ دھونا نقصان دہ تھا کیونکہ یہ تینوں دریا براہِ راست پاکستان کے مشرقی پنجاب میں داخل ہوتے تھے (لاہور، قصور، بہاولپور وغیرہ کے قریب) ان دریاؤں کا پانی پاکستان کی سب سے زرخیز نہروں کو سیراب کرتا تھا، جیسے باری دو آب کینال سسٹم (راوی و ستلج سے) اور سدھنائی و دیگر نہریں بہاولپور اور ملتان کے علاقے میں بیاس و ستلج سے۔ یہ وہی علاقے ہیں جو پاکستان کی اناج کی ٹوکری (Breadbasket) کہلاتے ہیں۔ مشرقی دریا چھوٹے اور مقامی تھے۔ ان پر ڈیمز یا نہریں بنا کر پانی تقسیم کرنا آسان تھا۔ مغربی دریا (سندھ، جہلم، چناب) بڑے اور دور دراز کے ہیں۔ ان کے پانی کو مشرقی پنجاب تک لانا پیچیدہ اور مہنگا پڑا۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر حقیقت پسندانہ انداز میں دیکھا جائے تو سندھ طاس معاہدے کے پاکستان کو فوائد زیادہ ملے۔ ہمارے پاس کوئی اور آپشن تھی ہی نہیں۔ خاص کر جنگِ ستمبر (1965) کے بعد کے انڈیا کے معاندانہ رویے کو دیکھا جائے تو سندھ طاس معاہدہ غنیمت لگتا ہے جو پانچ سال قبل ہو گیا تھا، ورنہ سنہ 65کے بعد انڈیا کبھی نہ مانتا اور ہمیشہ پاکستانی پنجاب کے مشرقی اور مغربی دریاں پر اپنا دباؤ برقرار رکھتا اور اہم مواقع پر بار بار پانی بند کر کے پاکستانی کاشت کاروں کو پریشان کرتا رہتا۔ سندھ طاس معاہدے نے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کر دیا۔

انڈینز سندھ طاس معاہدہ کو کیسے دیکھتے ہیں؟
سندھ طاس معاہدہ چونکہ کانگریس کے سربراہ پنڈت نہرو نے کیا تھا، اس لیے کانگریس اس کی ستائش ہی کرتی رہی ہے، تاہم بی جے پی اور خاص طور پر وزیراعظم مودی کے ادوار میں سندھ طاس معاہدے پر تنقید ہوتی رہی ہے۔ بی جے پی کے سیاست دانوں اور ماہرین کا خیال ہے کہ تب کی انڈین حکومت نے پاکستان کو زیادہ رعایت اور سہولتیں دیں جو نہیں دینی چاہیے تھیں۔

ہم سے غلطی یہ ہوئی کہ ہمیں اپنے دریاؤں پر مزید بڑے ڈیم بنا لینے چاہیے تھے۔ ہم کالا باغ ڈیم اگر ستر کے عشرے میں بنا لیتے تو بہت اچھا رہتا، بعد میں اسے غیرضروری طور پر متنازع ہو جانے دیا۔ سندھیوں کے ڈیلٹا والے ایشو اور تحفظات کو دور کیا جاتا تو کالا باغ کی مخالفت کم ہو سکتی تھی، تاہم اگر کالا باغ ڈیم متنازع ہو گیا تھا تو بیس پچیس سال اس کے چکر میں پڑنے اور لاحاصل کوشش کی بجائے تب ہی دیامر بھاشا ڈیم بنا لیتے۔ اگر مشرف دور میں بھاشا پر کام شروع ہو جاتا تو یقینی طور پر یہ 10برس پہلے مکمل ہو جاتا، ہمارے پاس بڑا واٹر اسٹوریج ڈیم ہوتا بلکہ چار ہزار میگاواٹ سے زیادہ سستی بجلی بھی ملتی۔ بھاشا کے بعد بونجی ڈیم بھی بن جانا تھا جو رن آف ریور ڈیم ہے، مگر اس سے سات ہزار میگاواٹ بجلی مل جانی ہے۔ ہم پچھلے 20برسوں کے دوران اکھوڑی ڈیم ہی بنا لیتے۔ آزاد کشمیر میں جہلم پر کئی رن آف ریور ڈیم بھی بن سکتے تھے۔ ہماری ایک اور بڑی غلطی دریاؤں (راوی، ستلج، چناب وغیرہ) کے راستوں پر سوسائٹیاں اور آبادیاں قائم ہونے دینا ہے۔ یہی غلطی سندھ کے بیٹ میں آبادیاں بنانے دینا ہے۔ اس سب کا نچوڑ یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ بذات خود کوئی غلطی نہیں، تب کی صورت حال میں وہ ایک بہترین حل تھا، جس سے پاکستان کو بہت فائدہ پہنچا۔ یہ ضروری ہے کہ اپنے ماضی پر خواہ مخوا ماتم کرنے، سر میں خاک ڈالنے اور بے بنیاد باتیں پھیلانے کی بجائے اصل حقائق بتائے جائیں۔ سندھ طاس معاہدہ وجہ نہیں بنا، البتہ ہم نے اپنی غلطیوں اور ایک طرح سے آبی جہالت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے کئی گمبھیر مسائل کھڑے کیے۔ ان کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔ ہم اگر آج ہی سے ان کے حل کے لیے جت جائیں تو صرف چند برسوں میں سب کچھ بدل جائے گا۔ آزمائش شرط ہے۔