سیلاب کا بحران اور سیاسی بیداری کی ضرورت

اس وقت پاکستان شدید ترین موسمی خطرات سے نبرد آزما ہے اور حالیہ بارشوں اور سیلابی ریلوں نے ملک کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انیس سو اٹھاسی کے بعد گزشتہ سینتیس برسوں میں یہ سب سے بڑا سیلابی بحران ہے، جس نے راوی، چناب اور ستلج کے کناروں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس وقت بھی ہزاروں افراد متعد د مقامات پرگھروں کی چھتوں پر موجود ہیں تاہم لاکھوں افراد اور مویشیوں کو بحفاظت منتقل کیا جا چکا ہے، جبکہ سیکڑوں دیہات زیر آب آ چکے ہیں اور فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پنجاب میں فوج، سول انتظامیہ اور ریسکیو اداروں کے بروقت اور منظم اقدامات کی بدولت بڑے پیمانے پر جانی نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔ سیلاب کی آفت میں اضافہ بھارت کی جانب سے یک دم آنے والے پانی کی وجہ سے بھی ہو اہے ۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کے مطابق بھارت کے ڈیموں سے چھوڑا گیا پانی اس بحران کی ایک بڑی وجہ ہے،بھارت کا متعصب میڈیا اس بات کو تسلیم کرچکاہے کہ سیلابی پانی کی ترسیل کو ایک پالیسی کے طور پر اختیار کیا گیاہے ۔

وزیراعظم شہباز شریف نے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے دیامر بھاشا ڈیم سمیت دیگر ڈیموں کی گنجائش بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ پنجاب سے سندھ کی جانب بڑھتے سیلابی ریلوں کے پیش نظر سیلاب کے حوالے سے اب بھی گہری تشویش موجود ہے ۔جمعے کے روز محکمہ موسمیات کی جانب سے پنجاب میں مزید طوفانی بارشوں کی پیشگوئی کی گئی جس کے بعد پنجاب اور سندھ میں سیلاب کی صورت حال سنگین ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

ماہرین کے مطابق سیلاب سے پیدا ہونے والے بحران کو صرف ایک قدرتی آفت قرار دینا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔ اس کے پس پردہ کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں انسانی غفلت اور انتظامی بدنظمی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ماہرین موسمیاتی تبدیلی کو بھی اس صورتحال کا ایک اہم محرک قرار دے رہے ہیں، جس کے تحت آئندہ برسوں میں بارشوں اور سیلاب کی شدت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ ملک کے شمالی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور برساتی نالوں پر غیرمحتاط اور غیر قانونی تعمیرات نے اس تباہی کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق راوی کے کنارے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پر رہائشی کالونی کے لیے فراہم کردی گئی،اس قسم کی غلطیوں نے مالی نقصانات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ دوسری جانب یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ قومی اہمیت کے حامل منصوبے، جیسے کہ کالاباغ ڈیم، سیاسی اختلافات کی نذر ہو گئے، جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں لسانی اور صوبائی تعصبات کو محض اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت ہوا دے رہی ہیں اور ایک اہم قومی ضرورت کی راہ میں رکاوٹ کا کردار ادا کررہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے پانی کو ایک دفاعی حربے کی صورت میں استعمال کرنے کے بعد کیا ہم اپنی سلامتی اور عوام کے تحفظ کے لیے پانی کے نئے ذخائر قائم کرنے کی ضرورت پر توجہ نہیں دیں گے؟قومی سطح پر اس معاملے کو زیر غور لانا چاہیے۔ وزیر اعظم کی جانب سے پانی کے نئے ذخائر کی ضرورت کو علی الاعلان تسلیم کیا جاچکاہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ کام چند ماہ میں تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس منصوبے پر آج عمل شروع کیا جائے تو بھی چند سالوں سے پہلے اس کی عملی تعبیر سامنے نہ آسکے گی۔ اس دوران آنے والے برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید خطرات نمودار ہوسکتے ہیں جیسا کہ ماہرین ابھی سے خبردار کررہے ہیں۔لہذا ،اب ہمیں سوچنا ہوگا کہ چند سیاسی،نیم سیاسی یا قوم پرست جماعتوں کے سیاسی مفادات کا خیال رکھا جائے یا ایک بڑی قومی ضرورت جو کہ اب قومی سلامتی کے مسئلے میں تبدیل ہوچکی ہے ،پر یکسوئی کے ساتھ توجہ مرکوز کی جائے۔ ماہرین کا انتباہ بتاتاہے کہ ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہمیں فوری طورپر پانی کو محفوظ کرنے کے متبادل امکانات کو بروئے کار لانا ہوگا۔ ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا بہترین انتظام کریں اور متحد ہو کر ہر چیلنج کا مقابلہ کریں۔ اسلامی شریعت کی رو سے پانی کی نعمت کو ضائع ہونے سے بچانا اور اسے انسانوں کی ضرورت کے لیے استعمال کرنا ایک اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔بارشوں کی صورت میں میسر آنے والے پانی کے وسیع ترین ذخائر کو سمندر برد کردینا آخر کون سی حکمت ہے ؟

قرآن کریم نے فلاح کے لیے ہمیں اعمال اور اخلاق کی اصلاح کی تلقین کی ہے ۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ انسان کے اپنے اعمال اور بے احتیاطی بھی تباہی کا سبب بنتی ہے۔حکمرانی کی سطح پر ذاتی اعمال اور اخلاق کی بہتری کے ساتھ ساتھ رعایا کی خبر گیری،ان کا تحفظ اور ان کی سلامتی کی فکر بھی اعمال کی اصلاح کا حصہ ہے ۔اس کے لیے ہمیںایک اصول کے طور پر عدل کا حکم دیا گیاہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خود احتسابی سے کام لیں اور دین اسلام کے بیان کردہ عدل کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ہر شعبے میں انصاف، دیانت داری اور بہترین منصوبہ بندی کو فروغ دیں تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح رونما ہو اور ہم مصائب ،آفات اور اجتماعی تکلیفوں سے بچ سکیں۔ عالمی ماہرین کی متفقہ رہنمائی کے مطابق،موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والی تباہی کو کم کرنے اور مستقبل کے ممکنہ خطرات سے بچاؤ کے لیے ہمیں فوری اور طویل المدتی اقدامات کا ایک سلسلہ اپنانا ہوگا۔ اس میںقدرتی ماحول کی بحالی کے نظام کو مضبوط کرنا، ندی نالوں اور دریاؤں پر تجاوزات کا خاتمہ اور دریائی کناروں کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنا شامل ہے۔ سیلابی میدانوںمیں رہائشی کالونیوں کی تعمیر پرپابندی اور شہروں میں نکاسی آب کے نظام کی مستقل بحالی اور پانی کو محدود پیمانے پر زیر زمین منتقل کرنے کے منصوبے اب ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو ہماری قوم کے عزم اور دانش کا امتحان ہے۔ اگر ہم نے آبی وسائل کے انتظام، ڈیموں کی تعمیر اور جدید سیلاب انتظامیہ پر سنجیدہ اور عملی اقدامات نہ کیے تو ہر چند سال بعد آنے والے سیلاب ہماری معیشت، زرعی پیداوار اور انسانی جانوں پر تباہ کن اثرات ڈالتے رہیں گے۔ یہ بحران ایک ایسی انسانی ساختہ تباہی بن چکا ہے جس کی ذمہ داری ناقص حکمرانی اور قومی ضرورت کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوگی۔ حکومت کو اس مسئلے پر گرینڈ ڈائیلاگ شروع کرانا چاہیے۔