سیرت النبیۖ اور انسانی حقوق

انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ ہماری اصطلاح ”حقوق اللہ اور حقوق العباد” کے عنوان سے ہے۔ قرآن کریم نے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کی ہے کہ اللہ کا حق کیا ہے؟ اور بندوں کا حق کیا ہے؟ جبکہ مغرب کی اصطلاح ”انسانی حقوق” کی ہے، مغرب خدا کے حقوق کی بات نہیں کرتا، ان کے ہاں خدا کا تصور ہو یا نہ ہو ایک ہی بات ہے، خدا کا کوئی حق ہے یا نہیں ہے ایک ہی بات ہے۔ ہمارے نزدیک پہلا حق اللہ کا ہے، اس کے بعد بندوں کے حقوق ہیں۔

قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر اللہ تعالی نے یہ ترتیب بیان کی ہے کہ حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں۔ سورة الماعون میں چار حق بیان ہوئے ہیں۔ ایک اللہ کا اور تین بندوں کے۔ یتیم کو دھتکارنا، یہ کام کافر کرتا ہے مسلمان کا یہ کام نہیں، جو دین (قیامت) کو جھٹلاتا ہے وہ ہی یتیموں کو دھکے دیتا ہے، ایماندار اور دیندار آدمی یتیم کو دھکے نہیں دیتا۔ یہ بندوں کے حق کا ذکر ہوا۔ مسکین اور محتاج کو کھانا کھلانا، یہ بھی بندوں کا حق ہے۔ اس کے بعد نماز کا ذکر ہے کہ نماز اللہ کا حق ہے۔ نماز نہ پڑھنا اللہ کی حق تلفی ہے۔ نماز میں سستی کرنا اللہ کی حق تلفی ہے۔ اس کے بعد فرمایا ”ویمنعون الماعون” (سورہ الماعون ) آپس میں استعمال کی چیزیں ایک دوسرے کو دینی چاہئیں، یہ بھی انسانی حقوق میں سے ہے۔ میں نے خلاصہ بیان کیا کہ اس چھوٹی سی سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کے حقوق کا ذکر فرمایا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کا۔

اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق قرآن کریم میں اور بھی بہت سے مقامات پر ذکر فرمائے گئے ہیں۔ ایک اور آیت میں اللہ رب العزت نے ترتیب سے ذکر فرمایا ہے کہ حقوق اللہ کیا ہیں اور حقوق العباد کیا ہیں۔ سورہ النساء آیت 36 میں اللہ تعالی نے حقوق کے دس دائرے بیان کیے ہیں جن میں پہلا حق اپنا بیان کیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور نو حق بندوں کے بیان کیے ہیں۔ ان کو دائروں میں تقسیم کر کے پہلے والدین کا حق بیان کیا کہ ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ، پھر قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریبی پڑوسیوں، وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ہے ”صاحب بالجنب” سبق کا ساتھی، سفر کا ساتھی، کمرے کا ساتھی وغیرہ، اور مسافروں اور غلاموں کے حقوق درجہ بدرجہ بیان فرمائے ہیں۔ حقوق میں پہلا حق اللہ کا بیان ہوا، پھر نو حق بندوں کے ذکر ہوئے۔ آج لوگ بندوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن پہلا حق اللہ کا ہے۔ بڑی تفصیل کے ساتھ اللہ تعالٰی نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بیان فرمایا۔ یہاں قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی بات ہوئی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ہے ”واٰت ذالقربی حقہ والمسکین وابن السبیل” (سورہ الاسرائ26) قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرو، یہ تمہارا احسان نہیں ان کا حق ہے، مسکین اور مسافر پر خرچ کرو، یہ تمہارا احسان نہیں ہے ان کا حق ہے۔

ایک بات میں نے یہ کہی ہے کہ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی بات کرتے ہیں، اور اتنی تفصیل کے ساتھ کرتے ہیں کہ دنیا کا کوئی دوسرا قانون اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کرتا مگر ہم قرآن اس لیے پڑھتے ہی نہیں کہ یہ ہم سے کہتا کیا ہے، ہم تو ثواب اور برکت کے لیے پڑھتے ہیں اور وہ ہمیں مل جاتی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ حقوق کے حوالے سے کیا ہے؟ اس پر بیسیوں احادیث ہیں، دو ذکر کروں گا۔ حقوق کے حوالے سے بخاری شریف میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان ہوا ہے کہ حقوق کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت اور ذوق کیا ہے۔ حضرت سلمان فارسی کا واقعہ ہے۔ آپ پہلے مجوسی تھے، پھر عیسائی ہوئے، ایک طویل عرصہ عیسائی رہے، پھر یہودیوں کے ایک خاندان کے غلام بنے اور کافی عرصہ غلامی کا گزارا، کہتے ہیں کہ باری باری دس مالکوں کے پاس رہا ہوں۔ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے غلام کے طور پر آئے تھے لیکن یہ غلامی تو آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی، آپ کی قسمت کہ ادھر سے یہ مدینہ پہنچے اور ادھر سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبا میں تشریف لے آئے، اور پھر انہوں نے اپنی آزادی خریدی۔

میں کہا کرتا ہوں کہ دو آدمیوں کے لیے غلامی اللہ کی بہت بڑی نعمت کا سبب بنی، جیسے حضرت یوسف کے لیے غلامی بادشاہت کا ذریعہ بنی تھی، اسی طرح حضرت زید بن حارثہ اور حضرت سلمان فارسی کے لیے۔ زید بن حارثہ غلام بن کر مکہ آئے تھے اور پھر اس مقام پر پہنچے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو زید کہلانا شروع کر دیا تھا اور حضرت سلمان فارسی بھی یہودیوں کے غلام بن کر مدینہ منورہ آئے تھے۔ اسی وجہ سے مدینہ میں رہتے ہوئے بدر اور احد میں شریک نہیں ہو سکے، البتہ آزاد ہونے کے بعد غزوہ خندق میں شریک ہوئے تھے اور خندق انہی کے مشورے سے کھو دی گئی تھی۔ حضرت سلمان فارسی جب مدینہ منورہ آئے تو مہاجر تھے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوالدرداء سے ان کی مواخات کرا دی، جیسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مواخات کرانے کا معمول تھا۔ باہر سے آنے والے سینکڑوں ہزاروں لوگ ہوں اور ایک آدمی کو ایک خاندان سنبھال لے، یہ تو آسان ہے، اور سب کے لیے اکٹھا انتظام کرنا بہت مشکل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑی حکمت عملی سے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو بھائی بھائی بنا دیا۔

حضرت سلمان فارسی کو حضرت ابوالدرداء کے حوالے کر دیا۔ حضرت ابوالدرداء نوجوان آدمی تھے اور حضرت سلمان فارسی عمر رسیدہ تھے، آپ کی عمر کے بارے میں اڑھائی سو سال کی بھی روایت ہے، لیکن حافظ ابن حجر نے جو محتاط روایت ذکر کی ہے وہ ایک سو اسی سال کی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جب آپ مسلمان ہوئے تو ڈیڑھ سو سال کے تھے اور جہاندیدہ آدمی تھے، کئی مذہب بھگتے ہوئے تھے۔ حضرت ابوالدرداء آپ کو اپنے گھر لے کر گئے، وہاں جا کر حضرت سلمان فارسی نے دیکھا کہ گھر میں گھر والی کوئی بات نہیں ہے۔ ام الدرداء کو دیکھا کہ میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، گھر کی کوئی صفائی نہیں ہے۔ حالانکہ عورت گھر میں ہو تو گھر کی حالت سے پتہ چلتا ہے کہ اس گھر میں کوئی عورت رہتی ہے۔ وہ مکان کو صاف رکھے گی، پردے لٹکائے گی، زیب و زینت کا اہتمام کرے گی، یہ عورت کی فطرت ہے، لیکن وہاں تو گھر والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔

چنانچہ حضرت سلمان فارسی نے جاتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ام الدرداء سے بات کی اور کہا کہ یہ اپنا کیا حال بنا رکھا ہے، نہ ڈھنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور گھر کیا حال کر رکھا ہے، کوئی چیز سلیقے سے نہیں رکھی ہوئی۔ ام الدرداء نے جواب دیا کہ بھائی جان! بات یہ ہے کہ عورت سنورتی بھی ہے، گھر کو سنوارتی بھی ہے لیکن کسی کے لیے سنورتی اور سنوارتی ہے۔ آپ کے بھائی کو کسی بات سے دلچسپی ہی نہیں ہے، میں بھی گزارا کر رہی ہوں، وہ بھی گزارا کر رہے ہیں۔ یہ پہلی بات حضرت سلمان فارسی نے اس گھر میں نوٹ کی۔ دوپہر کا وقت ہوا تو حضرت ابوالدرداء نے حضرت سلمان فارسی کے لیے دستر خوان بچھایا اور کھانا لگایا اور کہا لیجیے کھانا کھائیے۔ انہوں نے کہا تم بھی آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ ابوالدرداء نے کہا میرا تو روزہ ہے، میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں۔ انہوں نے دوبارہ کہا آؤ میرے ساتھ کھانے میں شریک ہو۔ ابوالدرداء نے پھر انکار دیا کہ میرا روزہ ہے۔ اس پر حضرت سلمان فارسی نے کہا اچھا ٹھیک ہے، دسترخوان اٹھا لو میں بھی نہیں کھاتا، تم کھاؤ گے تو میں کھاؤں گا۔ اب حضرت ابوالدرداء مجبور ہو گئے کیونکہ مہمان کے سامنے سے دسترخوان کیسے اٹھاتے! لہٰذا حضرت ابوالدرداء کو روزہ توڑنا پڑا اور حضرت سلمان فارسی کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئے، اور شرعی مسئلہ بھی یہی ہے۔ (جاری ہے)