موسمیاتی تباہ کاریاں، حکومت اور قوم کی ذمے داری

دریائے چناب، راوی اور ستلج میں پانی کی سطح میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے، اگلے 48 گھنٹوں کے لیے اونچے سے انتہائی درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری ، ڈیڑھ لاکھ افراد محفوظ مقامات پر منتقل، بھارت سے آنے والے سیلابی پانی سے ندی نالوں میں شدید طغیانی، درجنوں دیہات کا زمینی رابطہ منقطع، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں، مکانات اور اسکول زیر آب آگئے۔ شکر گڑھ میں خواتین اور بچوں سمیت 20 سے 25 افراد سیلابی ریلے میں پھنس گئے، سیالکوٹ میں 24 گھنٹوں کے دوران ریکارڈ 405 ملی میٹر طوفانی بارش ہوئی، مرکزی اور گردونواح کے تمام علاقے ڈوب گئے، نظام زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ دوسری طرف چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر گلیشیرز پھٹے تو زیادہ تباہی ہوگی، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات خطرناک ہیں اور اگلے سال اس کی شدت 22 فیصد زیادہ ہو سکتی ہے۔ آنے والا سال پاکستان کیلئے مزید تباہ کن ہوگا۔

پاکستان اس وقت ایک ایسے کڑے امتحان سے گزر رہا ہے جس نے نہ صرف اس کی سرزمین بلکہ اس کے عوام کی زندگیاں بھی لرزا کر رکھ دی ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سے گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے بالخصوص بونیر جیسے اضلاع کلاؤڈ برسٹ اور شدید بارشوں کے بعد تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں آئے اور اس میں قیمتی جانوں کے اتلاف کے ساتھ بازار، مکانات، کھیتوں اور مال مویشی کا بے پناہ نقصان ہوا۔ قدرتی آفات کی یہ لہر اب ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں داخل ہوچکی ہے جہاں طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلوں نے زندگی کا نظام مفلوج کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پنجاب پر دوہری افتاد آن پڑی ہے۔ ایک جانب ریکارڈ توڑ بارشوں نے کھیت کھلیان، مکانات اور بنیادی شہری ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سیالکوٹ میں 24 گھنٹوں کے دوران 405 ملی میٹر بارش ہوئی جو گزشتہ گیارہ برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ شہر کی گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ شکر گڑھ میں درجنوں افراد پانی میں پھنس گئے جبکہ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور رہائشی علاقے سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے۔اس کے ساتھ ہی دوسری طرف بھارت نے اپنی دیرینہ روش دہراتے ہوئے پاکستان پر آبی جارحیت مسلط کردی ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جو کل تک دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے حصے کا جائز پانی روکنے کی کوشش کررہا تھا تاکہ اسے بوند بوند کو ترسایا جاسکے۔ آج اس نے اچانک اپنے انہی ڈیموں کے دروازے کھول کر پہلے ہی طوفانی بارشوں سے متاثر پاکستان پر پانی کا تباہ کن ریلا چھوڑ دیا ہے۔یہ عمل نہ صرف غیر اخلاقی بلکہ کھلی آبی دہشت گردی ہے۔ بھارت ایک مکار اور بے اصول دشمن ہے۔ وہ پورا سال بدنیتی کے ساتھ پاکستان کا پانی روکے رکھتا ہے اور جب برسات کا موسم آتا ہے تو اسی بدنیتی اور بد طینتی کے ساتھ وہ یہی روکا ہوا پانی سیلابی ریلوں کے ساتھ پاکستان کی طرف چھوڑ دیتا ہے، جو سراسر انسانیت دشمنی، مکاری اور سفاکیت کی انتہا ہے۔

بھارتی قیادت یہ بخوبی جانتی ہے کہ اچانک پانی چھوڑنے سے سب سے زیادہ نقصان عام شہریوں، کسانوں، عورتوں اور بچوں کو ہوگا لیکن دشمنی کی اس آگ میں وہ انسانی جانوں کی پروا کیے بغیر اپنی مکاری پر اتر آیا ہے۔ یہ عمل مظہر ہے کہ بھارت کے ہاں دشمنی کی کوئی اخلاقی حد نہیں اور وہ ہر سطح پر اور ہر قیمت پر بس پاکستان کو نقصان پہنچانے پر تلا ہوا ہے، جس کی بہرحال بازپرس ہونی چاہیے۔ بزدل و مکار دشمن نے پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد نام نہاد آپریشن سیندور کے نام پر بڑی رعونت کے ساتھ پاکستان پر جارحیت کی تو اس کے جواب میں پاکستان نے چند گھنٹوں میں بھارت کی اس انداز میں اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی کہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، اب لگتا ہے اسی خفت اور شکست کا بدلہ بھارت نے آبی جارحیت کے ارتکاب کے ساتھ لینے کی کوشش ہے، جس کا تقاضا ہے کہ اس جارحیت کا بھی مناسب انداز میں بھارت کو جواب دیا جائے۔ بھارت کو عالمی اداروں کے سامنے جواب دہ بنانا ہوگا اور پانی کو پاکستان کے عوام کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی اس غیر انسانی روش سے اسے بزور طاقت روکنا ہوگا۔

ساتھ ہی یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر گلیشیئرز پھٹنے کی صورت میں ملک میں مزید تباہی ہوگی۔ گلگت کے علاقے غذر میں گزشتہ دنوں ایک مقام پر گلیشیئرز پھٹنے (گلوف) کے خطرناک عمل نے اپنی تباہ کاریوں کی ہلکی سی جھلک دکھلائی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خدانخواستہ مزید ایسے واقعات رونما ہوئے تو کس قدر سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگلے سال یہ شدت 22 فیصد مزید بڑھ سکتی ہے۔سیلاب سے بچاؤ کیلئے فی الحال حکومتی سطح پر بساط بھر اقدامات جاری ہیں۔اوکاڑہ، وہاڑی، پاکپتن اور بہاولپور سے انخلا کروایا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہنگامی اجلاس میں بھی اس صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ این ڈی ایم اے اور صوبائی ادارے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ متاثرین کی مدد کریں۔ تاہم اصل ضرورت ایک جامع اور طویل المدتی حکمت عملی کی ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی، آبی ذخائر کے انتظام اور بھارت کی آبی جارحیت کا جواب دینے کے عملی اقدامات شامل ہوں۔ ملک کے دریائی نظام کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرنا، ڈیمز کی بروقت صفائی اور حفاظتی پشتوں کی مضبوطی ناگزیر ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو عالمی سطح پر اپنی سفارتی کوششیں تیز کرنا ہوں گی تاکہ بھارت کی آبی جارحیت کو بے نقاب کیا جا سکے۔اس آزمائش کی ایک اور جہت قومی یکجہتی ہے۔ سیلاب محض ایک صوبے کا مسئلہ نہیں، یہ پوری قوم کا دکھ ہے۔ پنجاب کا نقصان پورے پاکستان کا نقصان ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ متاثرین اپنی مدد آپ کے تحت تنہا اس آفت کا مقابلہ کرسکیں۔ ایسے میں حکومت، فوج، ریسکیو ادارے اور سب سے بڑھ کر عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک جو موسمیاتی تغیر کے ان سنگین اثرات کے بنیادی ذمے دار ہیں، کو بھی چاہیے کہ وہ فنڈز اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پاکستان جیسے ممالک کو اس آفت کے مقابلے کیلئے مضبوط کریں۔ بہرحال امتحان کی اس گھڑی میں ہم صرف حکومت یا اداروں کی جانب نہ دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ سے رجوع کے ساتھ قوم کے ہر فرد کو اپنی قومی ذمے داری کیلئے مستعد ہونا ہوگا۔