(حصہ اول)
2008سے 2013تک وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اس حکومت کے دوران 2010میں پارلیمنٹ نے اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی اور اس کے تحت دستورِ پاکستان میں 101ترامیم کی گئیں۔ 1973کے دستور میں قانون سازی کی تین فہرستیں تھیں: ایک وفاقی، دوسری صوبائی اور تیسری مشترکہ فہرست۔ مشترکہ فہرست سے متعلق امور کے بارے میں وفاق اور صوبے دونوں قانون سازی کر سکتے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں تعلیم، صحت، زراعت، جنگلات، ماحولیات، آبپاشی اور ثقافت سمیت کئی محکمے صوبوں کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ اب وفاقی حکومت کے یہ سارے محکمے دارالحکومت تک محدود ہیں، لیکن ان محکموں کے ڈویژن اور نوکر شاہی کا ڈھانچہ بدستور قائم ہے۔ اٹھارہویں ترمیم سے پہلے مالی وسائل پر وفاق کا کنٹرول تھا اور وہ اپنے اختیارات کے تحت صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم اور ترجیحات کا تعیّن کرتا تھا، نیز صوبوں کے لیے مختص کیے جانے والے مالی وسائل آبادی کے تناسب سے تقسیم ہوتے تھے۔ اٹھارہویں ترمیم میں اس تناسب میں بہتری لائی گئی اور آبادی کے علاوہ غربت اور پسماندگی کے لیے بھی دس فیصد حصہ رکھا گیا ہے، اس سے صوبۂ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے وسائل میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاق کے جمع شدہ محصولات میں سے ساڑھے ستاون فیصد صوبوں کو دیا گیا ہے اور ساڑھے بیالیس فیصد وفاق کے پاس رہ جاتا ہے۔ اس سے وفاق کے وسائل کم ہوگئے ہیں اور صوبوں کے وسائل بڑھ گئے ہیں، کیونکہ داخلی اور بیرونی قرضوں کی اقساط مع سود اور دفاع بھی وفاق کی ذمے داری ہے، اس لیے مقتدرہ کو بھی اس پر تحفظات ہیں، ماضی میں ہمارے ساتھ ایک اجلاس میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ بھی اس کا اظہار کر چکے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 160میں نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کا ادارہ قائم کیا گیا ہے، اس کے دائرۂ اختیار میں وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے معاملات ہیں، اس کا اجلاس ہر پانچ سال بعد تجویز کیا گیا ہے اور این ایف سی کا آخری اجلاس 2009میں ہوا تھا، مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس کا اجلاس منعقد نہیں ہو سکا، کیونکہ صوبوں کے مطالبات بڑھتے رہتے ہیں اور وفاق ان کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مزید داخلی اور بیرونی قرضوں کے بغیر وفاق کا چلنا عملاً ناممکن ہے تاوقتیکہ قدرت کی کسی غیبی مدد سے قومی آمدنی میں غیرمعمولی اضافہ ہوجائے، مثلاً: بڑی مقدار میں سونا یا نایاب معدنیات یا پٹرول دریافت ہو جائے یا غیر معمولی صنعتی ترقی ہو جائے، لیکن سرِ دست اس کے آثار ناپید ہیں۔ صوبائی حکومتیں ورلڈ بنک، ایشین ڈویلپمنٹ بنک یا اسلامک ڈویلپمنٹ بنک وغیرہ سے منصوبوں کے لیے جوقرضوں پر مبنی امداد لیتی ہیں، اُن کی ضامن بھی وفاقی حکومت ہوتی ہے۔ کافی عرصے کے بعد اب نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل کردی گئی ہے، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کا اجلاس بھی منعقد ہوجائے گا۔ اس کے آثار تو نہیں ہیں کہ صوبے اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں حاصل شدہ مالی وسائل سے بآسانی دستبردار ہوجائیں گے، لیکن حالات کی نزاکت اور حساسیت کا ادراک یقینا صوبوں کو بھی ہوگا، پس خفیف سا امکان ہے کہ وہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام یا دفاع سمیت وفاق کے کسی شعبے میں ہنگامی صورتِ حال کے پیشِ نظر کچھ حصہ ڈالیں، وفاق پر مالی بوجھ کم ہونے کی یہی ایک صورت متوقع ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے اصل معمار جناب آصف علی زرداری ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملے میں بہت حساس ہے، نیز چونکہ تمام صوبوں کا مفاد اس سے وابستہ ہے، اس لیے اُن سب کی تائید بھی انھیں بآسانی حاصل ہوجاتی ہے، کیونکہ ادارے ہوں یا افراد، ہاتھ آیا ہوا مال کوئی آسانی سے واپس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، جبکہ وفاق کی پوزیشن کمزور ہے۔ آئین کے آرٹیکل 153میں ایک اور ادارہ ”مشترکہ مفادات کی کونسل(CCI)” بھی قائم ہے اور اس کا مقصد بھی وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کو بڑھانا ہے، لیکن یہ بھی چونکہ مفادات کے ٹکرائو کا مسئلہ ہے، اس لیے اس میں بھی وفاق کی پوزیشن کمزور ہے۔ آئینی اعتبار سے قیامِ امن کی ذمے داری صوبوں کی ہے، اس لیے دہشت گردی، بے امنی اور فساد کو رفع کرنے کے لیے پورے ملک میں یکساں پالیسی بنانا اور اُسے نافذ کرنا کافی دشوار ہے تاوقتیکہ وفاق اور صوبوں میں ایک سیاسی جماعت کی حکومت قائم ہوجائے، مگر پاکستان کے موجودہ سیاسی اور قومی تناظر میں اس ہدف کو حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ لیکن ظاہر ہے جب معاملات صوبائی حکومتوں کے بس سے نکل جائیں، تو وفاق اور مسلح افواج کو یہ ذمے داری سنبھالنی پڑتی ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کی روح تو یہ تھی کہ وسائل نچلی سطح تک جائیں، اسی کو ”طاقت کے عدمِ ارتکاز” سے تعبیر کیا جاتا ہے، لیکن چونکہ ”ارتکازِ اختیارات” انسان کی سرشت میں ہے، اس لیے صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں تک وسائل اور اختیارات منتقل کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پھر مسئولیت بھی انہی سے ہوتی ہے، ورنہ اس کے لیے مقامی حکومتیں جوابدہ قرار پاتیں۔ ساری جمہوری دنیا میں بنیادی شہری خدمات مقامی حکومتوں کے ذریعے انجام پاتی ہیں اور اس کے لیے انھیں اختیارات کے ساتھ ساتھ وسائل بھی دستیاب ہوتے ہیں، اس لیے ہمارے ہاں بعض اوقات یہ جملہ بولاجاتا ہے: ”ہمارے پاس حکومت ہے، اقتدار واختیار نہیں ہے”۔ ہمیں اختیار واقتدار دوسروں کے ہاتھ میں مرکوز ہونا تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے، لیکن خود کو موقع ملے تو کوئی پیچھے نہیں رہتا۔ ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر اختیار نہیں ہے تو وہاں بیٹھ کر کیا کر رہے ہو، ارتضیٰ نشاط نے کہا ہے:”کرسی ہے، تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے/کچھ کر نہیں سکتے، تو اُتر کیوں نہیں جاتے”۔ لیکن اختیار واقتدار لولا لنگڑا ہی کیوں نہ ہو، کرسی کا اپنا ہی مزا ہے اور یہ ”وہ نشہ نہیں، جسے ترشی اتار دے”۔
اس لیے بہت سے اہلِ نظر کہتے ہیں: ہمیں ایک نئے ”عُمرانی معاہدے” کی ضرورت ہے، عُمرانی معاہدے سے مراد یہ ہے کہ ایک ملّت اور قوم کی حیثیت سے مل جل کر رہنے کی اَحسن صورت پیدا ہو، حقوق وفرائض میں توازن ہو، نیز اقتدار واختیار کی درجہ بندی ہو۔ اگر کوئی اپنی حدود سے تجاوز کرے یا اپنی ذمے داریوں سے گریز کرے تو تحدید وتوازن کا خود کارنظام موجود ہو۔ اس کے برعکس بعض اہلِ دانش کا اندیشہ یہ بھی ہے کہ 1973کا دستور ہی وہ اساس ہے جس پر ریاست کا نظام قائم ہے، اگر یہ بنیاد کسی کوتاہی یا مثالیت پسندی کی نظر ہوگئی، تو پھر دوبارہ ایسی متفقہ دستاویز مرتب کرنا بھی دشوار ہوگا، الغرض ہم ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے : اعلیٰ عدلیہ کے عالی مرتبت جج صاحبان جنھیں حکمت، تدبیر وتدبر اور توازن کے ساتھ چلنا چاہیے، اگر انھیں اختیار مل جائے تو ہتھیلی پہ سرسوں جمانے لگ جاتے ہیں، ایسا سمجھتے ہیں کہ پورے نظام کو اگر طوطے سے تشبیہ دی جائے، تو اُس طوطے کی جان ان کی مٹھی میں آگئی ہے، وہ جب چاہیں اور جسے چاہیں مسل کر رکھ دیں، پورے نظامِ ریاست کو توہینِ عدالت کے شکنجے میں کَس کر اپنے سامنے کھڑا کردیں، اسی ذہنیت اور رویے کے نتیجے میں چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترمیمیں وجود میں آتی ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:تمیزِ بندہ و آقا، فسادِ آدمیّت ہے/ حذَر اے چِیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔ ترجمہ:”بندہ وآقا کی تمیز انسانیت کے لیے باعثِ فساد ہے، اے ظالمو! قدرت کے محاسبے سے ڈرو، فطرت کی تعزیر بہت سخت ہوتی ہے”، اختیار و اقتدار آجائے تو بندہ بندگی کی کینچلی اتار کر آقا بن جاتا ہے اور یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔
وفاق کے بے اختیار ہونے کی مثال یہ ہے: حالیہ تباہ کن سیلابوں نے سب کی آنکھیں کھولیں اور اس پر تقریباً اجماع ہے کہ اس تباہی کا باعث قدرتی اسباب کے ساتھ ساتھ انسانی کوتاہیاں بھی ہیں۔ ان میں آبی گزرگاہوں پر تجاوزات اور جنگلات کی تباہی بھی شامل ہے، مگر یہ دونوں شعبے وفاق کے اختیار میں نہیں ہیں، کیونکہ یہ خالص صوبائی معاملہ ہے اور وفاق اس بارے میں قانون بنا کر اس کا نفاذ بھی چاہے تو بے بس ہے، کیونکہ اس کا نفاذ بھی صوبوں کے تعاون کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ (جاری ہے)