پاک بنگلہ دیش کے تعلقات، نئے دور کی جانب ایک قدم

پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار کا دورۂ بنگلہ دیش دونوں برادر ملکوںکے مابین تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے ایک اہم سفارتی پیش رفت ثابت ہوا ہے۔ تقریباً تیرہ سال کے وقفے کے بعد بنگلہ دیش میں کسی بھی پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اس دورے میں، جس کی دعوت بنگلہ دیشی حکومت نے دی تھی، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان چھ مختلف شعبوں میں معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ ان ملاقاتوں میں تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم، صحت اور عوامی روابط کے فروغ پر خصوصی توجہ دی گئی اور دونوں ممالک نے باہمی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نے ویزا کی سہولتوں میں آسانی لانے کے ساتھ ساتھ سرکاری پاسپورٹ ہولڈرز کے لیے ویزا ختم کرنے کا بھی معاہدہ طے کیا۔ اس اقدام سے دونوں ممالک کے درمیان عوامی روابط میں اضافے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ اس موقع پر دونوں طرف کے رہنماؤں نے خطے کی حالیہ صور ت حال اور علاقائی تعاون کے امکانات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں آنے والی سیاسی تبدیلی بہت سے مثبت عوامل کا سبب بن رہی ہے۔ سب سے اہم پیش رفت پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کی بحالی ہے۔ یہ تعلقات، جو سن انیس سو اکہتر کے واقعات کے بعد سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، اب ایک نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں۔ عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس پیش رفت کا تعلق جنوبی ایشیا میں طاقت کے نئے توازن کے قیام سے ہے۔ بھارت کی جارحانہ پالیسی اور خطے میں برتری حاصل کرنے کا جنون خطے کے امن و سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے، اور ایسے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کا قریبی آنا ایک متوازن قوت پیدا کر سکتا ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ملک باہمی تعلقات اور معاہدوں میں اسلامی شریعت کے اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھیں۔ تجارتی، معاشی اور اقتصادی منصوبوں کا ماڈل مغربی طرز کی بجائے عدل کے اصول پر بنایا جائے۔ دونوں ملک مل جل کر خطے میں جہاں امن، استحکام اور مشترکہ فلاح کو فروغ دے سکتے ہیں وہاں اسی طرح مل کر علاقائی تنازعات اور بالادستی کے عزائم کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس تعاون کی بدولت چین کی ”بیلٹ اینڈ روڈ” پالیسی کے تناظر میں بھی خطے میں ایک نئی اقتصادی و جغرافیائی جہت سامنے آ سکتی ہے، جس سے بھارت کے یک طرفہ اثر کو کم کیا جا سکے گا۔ اس دورے کے دوران ہونے والے معاہدوں میں ایک اہم پیش رفت ”پاکستان، بنگلہ دیش نالج کوریڈور” کا آغاز ہے، جس کے تحت آئندہ پانچ برسوں میں پانچ سو بنگلہ دیشی طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپس فراہم کی جائیں گی۔ ان اسکالر شپس میں ایک چوتھائی طب کے شعبے کے لیے مختص کی گئی ہیں، جبکہ ایک سو بنگلہ دیشی سول سرونٹس کو پاکستان میں تربیت دی جائے گی۔ اقتصادی محاذ پر بھی ویزا سہولتوں میں نرمی، تجارتی و سرمایہ کاری تعاون اور براہ راست پروازوں کی شروعات (جو دو ہزار پچیس کے آخر تک متوقع ہے) جیسے اقدامات سے دونوں ممالک اپنی معیشتوں کو سہارا دے سکتے ہیں۔

اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان سن انیس سو اکہتر کے ”غیر حل شدہ تاریخی مسائل” جیسا کہ نسل کشی پر باقاعدہ معافی اور اثاثوں کی تقسیم کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن نئے تعلقات میں شاید یہ باتیں رسمی حیثیت اختیار کر جائیں کیوں کہ ان مسائل کے باوجود دونوں ملکوں کی قیادت نے آگے بڑھنے اور مشترکہ مفادات پر توجہ مرکوز کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ دراصل، ماضی کے زخموں کو بھرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ تعلیمی و عوامی روابط اس میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر دونوں ملک طے شدہ معاہدوں پر عمل میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نہ صرف تجارتی و تعلیمی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ علاقائی توازن بھی بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ، اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی جیسے فورمز پر بھی دونوں ممالک ایک مشترکہ لائحہ عمل اپنا کر امت مسلمہ کی نمائندگی بہتر انداز میں کر سکیں گے۔ اس طرح، یہ تعلقات محض دو ریاستوں کے درمیان نہیں بلکہ دو برادر قوموں کے درمیان اعتماد سازی اور قربت کا ذریعہ بنیں گے۔ گویا اس تاریخی جمود کے ٹوٹنے اور اسلام آباد، ڈھاکہ کے درمیان تعلقات میں پیدا ہونے والی نئی گرم جوشی کا خلاصہ یہ ہے کہ ادارہ جاتی معاہدوں اور مختلف شعبوں میں تعاون سے دونوں ممالک تجارت، تعلیم، صحت اور پالیسی مکالمے میں حقیقی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی پیش رفت ہے جو دونوں ملکوں کے عوام کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان کو ابھرتی ہوئی کثیر قطبی دنیا میں ایک ایسے ملک کی شناخت فراہم کرتی ہے جو متوازن خارجہ پالیسی کی بدولت متحارب طاقتوں کے درمیان بات چیت، مکالمے اور مذاکرات کے لیے پل کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کو اپنی برآمدات اور سفارت کاری کو وسعت دینے کا بہترین موقع میسر آئے گا۔

محکمہ تعلیم پنجاب میں سنگین بحران کا اندیشہ

پنجاب کے محکمہ تعلیم میں حالیہ اصلاحات ایک وسیع طبقے میں شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ بظاہر یہ انتظامی اور مالی بوجھ کم کرنے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے، جس کے جواز میں غیر فعال اسکولوں کے اعداد و شمار پیش کیے جا رہے ہیں، تاہم ایک ایسے وقت میں جب پنجاب میں شرح خواندگی اور تعلیمی معیار پہلے ہی کئی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے، اساتذہ کی نوکریوں پر قدغن لگانا معاشرتی اور معاشی سطح پر گہرے نقوش چھوڑ سکتا ہے۔ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کی اساس اور اس کے مستقبل کی ضامن ہوتی ہے۔ محض اعداد و شمار کی بنیاد پر تعلیمی امور کے فیصلے کرنا یا قلیل مدتی فوائد کے لیے طویل مدتی نقصانات کو نظر انداز کرنا دانش مندی نہیں۔ یہ معاملہ جذبات سے کہیں زیادہ بصیرت کا متقاضی ہے۔ اگر تعلیم کے شعبے میں واقعی اصلاحات مطلوب ہیں تو سب سے پہلے اس کی جڑوں کو سمجھنا ہوگا۔ اسکولوں کے غیر فعال ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا یہ صرف بوگس انرولمنٹ کا مسئلہ ہے، یا پھر وسائل کی کمی، اساتذہ کی ناقص تربیت اور تعلیمی نظام میں بدعنوانی جیسے عوامل بھی اس میں شامل ہیں؟ جب تک ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا جائے گا، پوسٹیں ختم کرنے جیسے اقدامات محض علامتی رہیں گے اور ان سے کوئی دیرپا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ حکومت کو بہرحال اساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔